اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ ماہ میں دوسری بار کشمیر کامسئلہ اٹھایا جانا کسی حد تک پاکستان کی سفارتی فتح قرار دی جا سکتی ہے لیکن ہمیں اس پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا، ہمیں چین کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی اپنی جدوجہد، عظیم قربانیوں اور بین الاقوامی سطح پر چین کے طفیل زندہ ہے ورنہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے کوئی بھی عملی تو کیا زبانی جمع خرچ کے طور پر بھی کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت نہیں کرتا۔ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے حال ہی میں برسبیل تذکرہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لیا ہے لیکن جب معاملہ ووٹ یا عملی حمایت کا آتا ہے تو امریکہ، برطانیہ، روس اور فرانس اس معاملے میں ہماری مدد کو تیار نہیں ہوتے۔ جب یہ معاملہ پہلے سکیورٹی کونسل میں پیش ہوا فرانس نے تو اس کی بھرپور مخالفت بھی کی۔ اقوام متحدہ میں چینی مندوب نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد واشگاف الفاظ میں کہا کہ چین کا کشمیر کے بارے میں موقف بالکل واضح ہے۔ چینی مندوب ژنگ جن نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے، چین چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو، بھارت نے کشمیر کی زمینی حیثیت تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کی ہے، بھارت کے اس اقدام کو قبول نہیں کیا جا سکتا، کشمیر میں بھارتی جبر اور طاقت کا بے جا استعمال معمول بن چکا ہے۔ جبکہ روس کے مستقل مندوب دمتری پولیانسکی کا ٹویٹر پر کہنا ہے کہ اجلاس میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت اختلافات دور کریں گے۔
یہ بات واضح ہے کہ دو متحارب ایٹمی طاقتوں کے درمیان اقوام متحدہ کا کوئی بھی رکن جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا اور ان کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ جنگ نہ ہو۔ روسی مندوب نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بجائے شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کا تذکرہ کیا جبکہ قراردادوں کا ذکر گول کر گئے۔ بھارت کا روز اول سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں کسی ثالثی کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اس حوالے سے اقوام متحدہ کی رٹ کو مانتا ہے۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا لیکن اب آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد وہ بزعم خود آئینی طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر چکا ہے اور اب اس کا یہ استدلال ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، اسی بنا پر بھارت نے چین کو تنبیہ کی ہے کہ یہ معاملہ سلامتی کونسل میں نہ اٹھائے۔ اس مسئلے پر پاکستان اوربھارت کی چار جنگیں ہو چکی ہیں لیکن اقوام عالم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ حال ہی میں بھارتی کانگریس کے رہنما اور سابق سفارتکار مانی شنکر ایک سیمینار میں شرکت کے لیے لاہور آئے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی اقامت گاہ پر عشائیہ میں انہوں نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ مودی سرکار اپنے موقف پر ڈٹی رہے گی اور ٹس سے مس نہیں ہو گی اسی بنا پر بھارت شملہ معاہدہ، اعلان لاہور کے تحت پاکستان کے ساتھ کوئی دو طرفہ مذاکرات، کشمیر سمیت کسی بھی معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہی نہیں۔ تاریخی طور پر بھی اس کا یہی موقف رہا ہے لیکن ایک پاکستان دشمن بھارتی سرکار کے ہوتے ہوئے تو اس کا یہ استدلال 370کی تنسیخ کے بعد مزید سخت ہو جائے گا حتیٰ کہ بھارت کی فوج کے نئے سربراہ جنرل منوج موکنڈ نراوا یہ بھی دھمکی دے چکا ہے کہ اگر مودی سرکار نے حکم دیا تو وہ آزاد کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر سکتا ہے۔ حکومت پاکستان اور ڈی جی، آئی ایس پی آر نے ایسی گفتگو کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیرذمہ دارانہ قرار دیا ہے لیکن جس اندازسے مودی سرکار کا خبث باطن ظاہر ہو رہا ہے ہمیں بھارت کی دھمکیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
گزشتہ برس فروری میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد حالت امن میں پہلی مرتبہ بھارتی ائرفورس کے طیارے پاکستان کی فضائی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالا کوٹ تک پہنچ گئے لیکن یہ الگ بات ہے کہ انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ بھارت جیسے کمینے دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت بی جے پی کی حکومت پاکستان کی طرح اقتصادی بدحالی کا شکار ہے، اگرچہ بھارت کی حالت اس کے بے پناہ وسائل اور زرمبادلہ کے ذخائر کی بنا پر اتنی پتلی نہیں ہے لیکن وہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مانی شنکر نے ایک اور انکشاف کیا کہ جب بی جے پی کے عمائدین پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں تو دراصل وہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک "پاکستان "مسلم دشمنی کا کو ڈورڈ، بن چکا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2020ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں مکمل شٹ ڈاؤن کے ذریعے وادی میں ہونے والی تباہی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عالمی تنظیم نے بھارت کے مظالم کا پردہ چاک کرتے ہوئے رپورٹ میں مزید کہا کہ شہریت قانون نے اسام میں بنگالیوں سمیت 20 لاکھ افراد سے شناخت چھینی۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت میں کشمیری طلبا اور تاجروں پر تشدد کیا، یو پی میں بھارتی پولیس نے 77 افراد کا ماورائے عدالت قتل کیا، بیف لے جانے کے الزام پر ہجوم نے 50 افراد کو قتل اور 250 کو زخمی کیا، بیشتر مسلمانوں سے ہندو مذہب کے نعرے زبردستی لگوائے گئے۔
شہریت بل کے حوالے سے بھارت کی مسلم کشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن یہ بات کسی حد تک حیران کن ہے کہ بھارت کے طول وارض میں اس مسلم کش قانون کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارت کی سول سوسائٹی میں ہندوؤں سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے روشن خیال لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی روشن خیال خواتین وحضرات کا گڑھ بن گیا ہے۔ وہاں متنازعہ شہریت بل کے خلاف شدید احتجاج ہو رہا ہے جسے کچلنے کے لیے بی جے پی کے نقاب پوش غنڈے یونیورسٹی میں گھس گئے اور انہوں نے مردوں اور خواتین کی ڈنڈوں سے خوب پٹائی کی لیکن انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ فیض احمد فیض کی نظم لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے، اور حبیب جالب کا کلام میں نہیں مانتا، یونیورسٹی اور بھارت کے تمام علاقوں میں ترانوں کے انداز میں گونج رہے ہیں۔ بھارت میں اس مزاحمت سے کچھ امید پیدا ہوئی ہے کہ وہاں پاکستان سے بہتر تعلقات اور مسلمانوں کے ساتھ بقائے باہمی کی خواہش بدرجہا اتم موجود ہے۔ پاکستان کے لبرل خواتین وحضرات اور سول سوسائٹی بھی امن چاہتی ہے لیکن یہاں زورو شور سے ایسی بات کرنے والوں پر غداری کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سب سے افسوسناک رویہ دنیائے اسلام کا ہے۔ چند ہفتے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بڑھک ماری کہ جدہ میں مسئلہ کشمیر پر اسلامی وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس ہو گا لیکن غالباً سعودی عرب نے حامی نہیں بھری اور یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا لیکن ہماری عرب بھائیوں کے سامنے ایسی گگھی بند ہوتی ہے کہ ملائیشیا جس نے بھارت کو برآمد کئے جانے والے پام آئل کی قربانی دے کر مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کا بھرپور ساتھ دیا اس کے بلائے ہوئے ملائیشیا سمٹ کے اجلاس میں ہمارے وزیراعظم سعودی عرب کے دباؤ کے تحت وعد ہ کرنے کے باوجود نہیں گئے۔ ملائیشیا، ترکی، ایران کے علاوہ کسی اسلامی ملک نے پاکستانی موقف کی دو ٹوک حمایت نہیں کی۔
ایک وہ دور تھا جب پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے (جی ہاں ! وہی ذوالفقار علی بھٹو جنہیں قاتل قرار دے کر پانچ سال بعد جنرل ضیاء الحق نے تختہ دار پر لٹکا دیا تھا) لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تھی جس میں سعودی فرمانرواشاہ فیصل سے لے کر لیبیا کے کرنل قذافی، یاسر عرفات سب نے شرکت کی تھی۔ اس وقت پاکستان دولخت ہو چکا تھا، اکانومی بھی کمزور تھی۔ ہم ایٹمی طاقت بھی نہیں تھے لیکن لیڈرشپ میں قابلیت اور جرأت رندانہ تھی جس کا آج فقدان ہے۔ آج ہم ان ملکوں کے تھلے لگے ہوئے ہیں جن کی ماضی میں سکیورٹی کے ہم ضامن تھے اورجن کی آبادی پاکستان کے بڑے شہروں سے بھی کم ہے۔