کورونا وائرس وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جب تک اس سے بچنے کے لیے ویکسین سامنے نہیں آتی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اگرچہ دنیا میں بہت معروف ڈرگ کمپنیاں دن رات اسی دھن میں مگن ہیں کہ اس کا تیر بہدف توڑ جلد ازجلد تیار کیا جائے لیکن عام تاثر یہی ہے کہ اگرمعاملات بہت جلدی بھی ہوئے تو اگلے برس تک ہی کامیابی متوقع ہے۔ اب تو اس موذی وائرس کے خلاف احتیاط سماجی فاصلے اور لاک ڈاؤن ہے لیکن المیہ یہی ہے کہ کب تک ملکی معیشت اور انسان کی قوت برداشت مکمل شٹ ڈاؤن کی متحمل ہو سکتی ہے۔ بالخصوص ہمارے جیسے اقتصادی طور پر خستہ حال ممالک جو تاریخی طور پر اتنے کمزورہیں کہ قرض کی مے پینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وزیر ریلویز شیخ رشید جو اپنی مخصوص فقرے بازی کے حوالے سے اپنے باس عمران خان کی خوشامدمیں یکتاہیں نے اپنے حالیہ ٹیلی ویژن انٹرویو میں وزیراعظم کو مبارک باد دی کہ انہوں نے پاکستان کو بھی ان 70 غریب ترین ملکوں کی صف میں شامل کرا لیا ہے جو آئی ایم ایف کے کورونا سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی قرضے کے حقدار ٹھہرے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کا شمار ان مڈل انکم ممالک میں ہونے لگا تھا جو غریب ترین ممالک کی صف میں شامل نہیں ہوتے۔ جب ہم یورپ سے اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات پربنگلہ دیش کی طرح خصوصی ڈیوٹیوں کی چھوٹ مانگ رہے تھے تو برسلز میں براجمان یورپی یونین کی بیوروکریسی نے ٹکا سا جواب دیا کہ بنگلہ دیش کا شمار تو غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن پاکستان اس فہرست میں نہیں آتا۔ تاہم بعد میں ہمیں یہ سہولت مل گئی تھی۔ گویا کہ شیخ رشید اس بات کو بھی حکومت کی کامیابیوں میں شامل کر رہے ہیں کہ ہم غریب سے غریب تر ہوگئے ہیں۔ اس انٹرویو میں انہوں نے ایک اور دلچسپ دعویٰ کیا کہ شہبازشریف اس لالچ میں پاکستان واپس آئے تھے کہ یہاں پرکورونا وائرس کی بنا پر حکومت جانے والی ہے اور ان کی دوبارہ لاٹری نکل آئے گی۔ شیخ صاحب کے مطابق شریف برادران کا اقتدار کے بغیر گزارا نہیں ہوتا لیکن موصوف کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے۔ وہ میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں وزیر بنے اورپھر بنتے ہی چلے گئے۔ مسلم لیگ ق میں شمولیت کے بعد وہ جنرل پرویز مشرف کے بھی وزیر اطلاعات رہے۔ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی نے انہیں لفٹ نہیں کرائی اور بعد ازاں جب میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو ارکان قومی اسمبلی کی حلف برداری کے موقع پر بطور نگران وزیر اطلاعات میں بھی وہاں موجود تھا۔ شیخ صاحب نے نواز شریف کے پاس جا کر انہیں بڑی پرجوش جپھی ڈالی لیکن میاں نواز شریف کا دل اچاٹ ہو چکا تھا لہٰذا انہوں نے انہیں وزیر نہیں بنایا تھا۔
وزیراعظم عمران خان تو کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مخمصے میں ہیں کہ لاک ڈاؤن کیسے کھولا جائے۔ اگرچہ دونوں رہنماؤں کی اس ضمن میں حکمت عملی بعض وجوہات کی بنا پر مختلف ہے۔ ٹرمپ کے لیے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سر پر ہیں اور اگر اکانومی بیٹھتی چلی گئی تو وہ صدارتی الیکشن ہار بھی سکتے ہیں۔ ٹرمپ خود بھی بہت بڑے بزنس مین کئی ہوٹلوں اور کسینو کے مالک ہیں جو کورونا وائرس کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ ٹرمپ تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ مختلف امریکی ریاستوں کے گورنر خود کریں گے لیکن دوسری طرف ان ریاستوں میں جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے گورنرز ہیں وہ وہاں کے عوام کو اکسا رہے ہیں کہ وہ اعلان بغاوت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ بالخصوص نیویارک جس کے گورنر ایک انتہائی فعال اور زیرک ڈیموکریٹ اینڈریو کومو ہیں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اب تک اس موذی وبا کے نتیجے میں قریباً 8 لاکھ امریکی متاثر اورساڑھے 42 ہزار سے زائدہلاک ہوچکے ہیں، ان میں صرف نیو یارک میں ہلاکتوں کی تعداد 10350ہے۔ نیویارک میں مردے دفنانے کیلئے جگہ کم پڑ گئی ہے اور بعض جگہوں پر لاشوں کی اجتماعی تدفین کی جا رہی ہے۔
خان صاحب کا معاملہ قدرے مختلف ہے ان کو بجا طور پر یہ خدشہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن میں غریب آدمی بھوکا مر جائے گا لہٰذا کسی طریقے سے اس میں نرمی لائی جائے لیکن دوسری طرف حالات خراب سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اتوار کو ایک دن میں ملک میں ریکارڈ 24 اموات ہوئیں اور اس سے اگلے روز پیر کو آٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ متاثرین کی تعداد یکدم بڑھ کر9200 سے زیادہ ہوگئی ہے۔ سب سےزیادہ خراب صورتحال خیبرپختونخوا میں ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد 74 ہو گئی ہے، پیر کو14 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ شاید اسی بنا پر وزیراعظم عمران خان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست نہ کریں، مئی کا مہینہ مشکل ہے، لاک ڈاؤن سے غریب کا زیادہ نقصان ہو گا، لوگ بھوک سے سڑکوں پر نکل آئے تو لاک ڈاؤن کا فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں سمارٹ لاک ڈاؤن کی نئی اختراع متعارف کرائی گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا یہ سمارٹ لاک ڈاؤن کیا ہوتاہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علاقے کو مکمل بند، دوسرے کو جزوی طور پر بند اور باقی کو کھلا چھوڑ دیا جائے اس پر کیسے عملدرآمد ہو سکتا ہے؟ ۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران لاک ڈاؤن کے حوالے سے ابھی تک واضح موقف اختیار نہیں کر سکے۔ ایک طرف وہ لاک ڈاؤن کھولنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف عوام کو لاک ڈاؤن کی پابندی کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ اس حوالے سے عوام کو اتنے ملے جلے سگنل دئیے جا رہے ہیں کہ اب سڑکوں پر لاک ڈاؤن کا سماں نہیں لگتا۔
محترمہ فردوس عاشق اعوان جو حکومت کی ترجمان ہیں کا بھی یہی کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن بجا لیکن روز مرہ کا کاروبار بھی تو چلانا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے مساجد کھلی رکھنے اور بیس نکاتی اصولوں کے مطابق نماز تراویح باجماعت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جس کے مطابق مساجد اور امام بارگاہوں میں دریاں یاقالین نہیں بچھائے جائیں گے، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر نماز تراویح پڑھنے سے اجتناب کریں، مساجد کے احاطے میں نماز تراویح کا اہتمام کیا جائے، نماز سے پہلے اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے گا، صف بندی کے دوران نمازیوں میں 6 فٹ کا فاصلہ کیا جائے، کھڑے ہونے کے نشان لگائے جائیں۔ گھر سے جائے نماز ساتھ لائیں، جن مساجد میں صحن موجود ہو نماز وہاں ادا کی جائے، 50 سال سے زائد عمر، نابالغ اور بیمار مریض مساجد میں نہ آئیں۔ انتظامیہ کے افراد پرمشتمل کمیٹی بنائی جائے جو احتیاطی تدابیر کو یقینی بنائے۔ ماسک پہن کر مسجد میں آئیں، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں یا بغل گیر نہ ہوں۔ نماز کیلئے آنے والے حضرات چہرے کو ہاتھ نہ لگائیں، صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھوئیں، گھر پر اعتکاف کریں، مساجد میں افطاراورسحرکا اجتماعی انتظام نہ کیا جائے۔ مساجد کی انتظامیہ اورخطیب، پولیس اورانتظامیہ سے رابطہ اور تعاون رکھیں۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان بڑے فخر سے فرما رہی ہیں کہ خان صاحب نے مساجد کھول دی ہیں۔ سعودی سپریم کونسل نے عوام کو ہدایت کی ہے کہ نماز تراویح گھر میں ادا کریں۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی الشریف میں نماز تراویح دس رکعت ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم حرمین الشریفین میں صرف آئمہ اور مساجد کا عملہ ہی نماز میں شریک ہو سکے گا۔ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی علماکونسل کے فیصلے کے مطابق مسجد اقصیٰ بھی بند رہے گی۔ اس قسم کی پابندیاں قریباً سعودی عرب، ترکی، ایران، عراق، ملائشیا، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات سمیت تمام اسلامی ملکوں نے لگا رکھی ہیں لیکن علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے پاکستان میں جہاں کسی مذہبی طبقے کو ویٹو پاور حاصل نہیں لیکن کئی معاملات الٹے چل رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا کے مصداق کورونا وائرس نئے رجحان کے مطابق تیزی سے بڑھتا ہے تو بعداز خرابی بسیار طوہاً و کرہاً لاک ڈاؤن کے سواکوئی چارہ نہیں رہے گا۔
مقام افسوس ہے کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ سندھ نے ٹائیگر فورس کو ایک سیاسی تنظیم قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے وہاں پیپلز فورس تیار کرلی ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اس کے باوجود کے ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے سیاستدان اپنی اپنی مصلحتوں کے تابع ہیں۔