Mazboot Opposition Naqsh Bar Aab
Arif Nizami92 News799
سیاسی حلقوں میں عام طور پر اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، جے یو آئی ف، جماعت اسلامی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں پر مشتمل پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اپوزیشن عمران خان کی حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔ ہمارے جیسے تجزیہ کار حکمرانوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ پارلیمانی حزب اختلاف سے محاذ آرائی کے بجائے بقائے باہمی اور اتفا ق رائے کی سیاست کریں ورنہ اپوزیشن کے تجربہ کار اور گھاگ رہنما ان کے ناک میں دم کیے رکھیں گے لیکن اپوزیشن میں دراڑ سے فی الحال تو یہ خدشات نقش بر آب ثابت ہو رہے ہیں۔ مشتر کہ اپوزیشن جسے مشترکہ کہنا سب سے بڑا مذاق ہو گا آپس میں ہی سرپٹول میں مگن ہے۔ انھیں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے اصل مقصد کے لیے فرصت ہی کہاں؟ ۔ جے یوآئی کے سربراہ اور متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدوار پر اتفاق رائے کے لیے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان رابطے کے لیے سہولت کار مقرر کیا گیا، پتہ نہیں مولانا صاحب کے پاس کون سی گیدڑسنگھی ہے کہ وہ رشتہ مانگنے گئے اور خود ہی دلہا بن گئے کے مصداق مسلم لیگ(ن) کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد ہو گئے جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے تو اظہار تشویش وحیرانگی کیاہی ہے کہ مولانا صاحب کا وزن تو ہمارے پلڑے میں تھا؟ ، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے نظریاتی ورکرز اور بعض ارکان اسمبلی نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مولانا فضل الرحمان کو صدارتی الیکشن میں ووٹ نہ دینے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ ان کو غالباً یہ اعتراض ہے کہ قائد اعظم کی نام لیوا جماعت کیونکر ایک ایسے صدارتی امیدوار کی حمایت کر رہی ہے جس کی جماعت آزادی سے پہلے قیام پاکستان کی مخالف رہی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے چھٹی پر لندن گئے ہوئے اپنے "پوائنٹ مین"جہانگیر ترین کو ایمرجنسی میں واپس اسلام آباد بلا لیا ہے۔ اپوزیشن کی سرگرمی کی وجہ سے تحریک انصاف یقینا الرٹ ہو گئی ہے اور اپنے امیدوار عارف علوی کے لیے زیادہ سے زیا دہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے نامزد گورنر پنجاب سینیٹر چودھری سرور اور خیبرپختونخو ا کے نامزد گورنر شاہ فرمان کا حلف ما بعد صدارتی انتخابات ملتوی کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہانگیر ترین عوامی نمائندے نہ ہونے کے باوجود عملی طور پر چیف وہپ کا کردار ادا کریں گے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی حکمران جماعت کے پاس اتنا قحط الرجال ہے کہ کوئی اور شخصیت پارٹی کے ووٹروں کو اکٹھا کر نے اور اس کے صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈلوانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ یہ اچھی بات ہے کہ اپوزیشن کے برعکس عمران خان اپنے صدارتی امیدوار کو منتخب کرانے کے حوالے سے کوئی رسک لینے کو تیا ر نہیں، غالباً انھیں خدشہ ہے کہ بالآ خر اپوزیشن مشتر کہ امیدوار کے حق میں سمجھوتہ کر لے گی۔ کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ اعتزاز احسن جو ہر لحاظ سے صدارت کے منصب کے اہل ہیں "رضا کارانہ" طور پر دستبردار ہو جائیں اور مولا نا فضل الرحمن مشتر کہ امیدوار کے طور پر سامنے آجائیں جس کا فی الحال تو امکان کم نظر آتا ہے لیکن سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ جیسا کہ ایم کیو ایم جس کے قومی اسمبلی میں سات ارکان ہیں اور وہ عمران خان کی کابینہ میں دووزارتیں لیے بیٹھی ہے۔ کل تک یہ حال تھا کہ عمران خان سمیت تحریک انصاف ایم کیو ایم کو سیاست سے باہر کر نے کے لیے گالی گلوچ کے علاوہ مقدمات بنا رہی تھی اور اب وہ کیسز واپس لیے جا رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ آخر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان بنیادی اختلافات ہیں کیا؟ ۔ دراصل یہ دونوں جماعتوں کی انا کی جنگ ہے۔ آصف زرداری کو میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے گلے شکوے ہیں۔ میاں صاحب کی تمام تر مشکلات کے باوجود انھوں نے بطور وزیراعظم ان سے جو سلوک کیا وہ اسے بھلا نہیں سکے۔ ان کا بیانیہ سیدھا ساداہے کہ میں نے جمہوریت کی خاطر ہی سہی، 2014ئکے عمران خان کے دھرنے کے دوران نواز شریف کے اقتدار کے ڈولتے ہوئے سنگھا سن کو بطور اپوزیشن سہا را دیا لیکن میاں صاحب نے اس کا "صلہ" یہ دیا کہ انھیں ملک چھوڑ کر جلا وطنی میں جانا پڑ گیا۔ وہ اس وقت کی فوجی قیا دت کے ساتھ پھڈا ڈال چکے تھے اسی دوران ان کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کو جیل میں ڈال دیا گیا لیکن میاں نواز شریف نے آصف زرداری کی داد رسی کرنا تو کیا انھیں انگلی بھی نہیں پکڑائی۔ بعد ازاں میاں صاحب پر مشکل وقت آیا تو آصف زرداری بھی طر ح دے گئے۔ اگرچہ اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کا وجود ہر چند ہے کہ نہیں ہے، یہ دونوں جماعتیں ملکی سیاست اورپنجاب میں ہمیشہ ایک دوسرے کی ضد رہی ہیں۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 2006ء میں جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا، اب وہ بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں شکست کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف ابتدائی طور پر بوکھلائے بوکھلائے سے تھے۔ انھیں یہ امید واثق تھی کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کی جانب نسبتاً نر م رویئے کی بنا پر پنجاب ان کے پاس رہے گا لیکن نام نہاد "خلائی مخلوق" اور تحریک لبیک کو ملنے والے ووٹوں نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک توڑ کر شہبا ز شریف کے اقتدار کا کر یا کرم کر دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ شہباز شریف آ صف زرداری اور بلاول بھٹو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے لیکن پارلیمنٹ کے ابتدائی اجلاس میں بھی شہباز شریف نے ان کے ساتھ سرد مہرانہ رویہ رکھا۔ اسی بنا پرجب مسلم لیگ(ن) نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا تو پیپلز پارٹی نے انھیں کو را سا جواب دے دیا۔ پیپلزپارٹی نے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا اور نہ ہی عمران خان کو ووٹ دیا بلکہ ووٹنگ میں بھی حصہ نہیں لیا۔ ظاہر ہے کہ میاں شہباز شریف پیپلزپارٹی سے دلبرداشتہ ہو گئے ہیں لیکن انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اپنے بڑے بھائی کے برعکس انھوں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کے بارے میں انتہائی درشت رویہ اپنایا۔ وہ علی بابا چالیس چوروں کے پیٹ پھاڑنے اور اقتدار میں آکرآصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے بھی کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ ہارڈ لائنرز نے اس صورتحال سے خوب فائدہ اٹھایا کہ کیا بلاول بھٹو ایک ایسے شخص کووزارت عظمیٰ کے لیے سپورٹ کریں گے جو ان کے والد، والدہ اور نانا کا مخالف ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں شہباز شریف کو اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے تھا لیکن وہ خود ایسا نہ کر پائے اور سارا معاملہ اپنے نائبین پر چھوڑ دیا لہٰذا بات آگے نہ بڑھ سکی۔ انھیں عمران خان سے سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ انھوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کر نے کے لیے اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھ کرجہانگیر ترین کو ایم کیو ایم سمیت تمام دیگر چھوٹی جماعتوں کے درپر بھیجا اور خود بھی ملاقاتیں کرنے کے علاوہ انھیں اقتدار میں آنے کے بعد نوازا بھی۔ جہاں تک اعتزاز احسن کے بطور صدر مملکت امیدوار ہونے کا تعلق ہے مسلم لیگ(ن) کا یہ گلہ جائز ہے کہ چودھری صاحب نے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے بارے میں انتہا ئی سخت اورتلخ رو یہ اپنا ئے رکھا۔ دوسری طرف پرویز رشید کے اس بیان کہ اعتزاز احسن پہلے اڈیالہ جیل جا کر نواز شریف سے معافی مانگیں، چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ پرویز رشید کے مطالبے میں جاگیردارانہ روش ہے، مسلم لیگ ن کے کسی امیدوار نے ایسا مطالبہ نہیں کیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ پرویز رشید ایسا اعتراض کرینگے، لیگی ارکان کا کہنا ہے کہ یہ پرویز رشید کی ذاتی رائے ہے پارٹی کی پالیسی نہیں۔ لیکن اگر اپوزیشن کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے کہ اس کا مشترکہ امید وار شا ید صدارتی انتخابات جیت سکے تو اعتزاز احسن بہترین چوائس ہیں، ان کے نام پرسمجھوتہ کر کے سجدہ سہو بھی کیاجاسکتا ہے۔ اب بھی اس امکان کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا کہ بالآخر اپوزیشن عقل کے ناخن لے اور آخری وقت پرکسی ایک مشترکہ صدارتی امیدوار پرمتفق ہو جائے۔