کورونا زدہ ماحول میں 2020-21ء کے لیے 7.3ٹریلین روپے پر مشتمل قومی بجٹ پیش کر دیا گیا۔ ویسے تو اس پر بڑا فخر کیا جا رہا ہے کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن چونکہ تاریخی طور پر بجٹ محض اعداد وشمار کا گورکھ دھندا بن کر رہ گیا ہے اس لیے قوم پر نئے ٹیکس نہ لگا کر جو "احسان عظیم" کیا گیا ہے، اس پر زیادہ شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی پاکستان کی معیشت کا حال ایک نیم مردہ، کورونا زدہ شخص کی طرح ہے جس کے بدن سے مزید خون نہیں چوسا جا سکتا۔ خود اکنامک سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال 2019-20 ئمیں مینو فیکچرنگ منفی رہی۔ شرح نمو میں اضافہ بھی منفی تھا اور رہی سہی کسر کورونا وبا نے نکال دی۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جب برسراقتدار آئی تو اسے ایک تباہ حال معیشت ورثے میں ملی کیونکہ میاں نوازشریف کی حکومت ملک کو دیوالیہ کر گئی تھی۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے علاوہ 12ارب ڈالر کے تاریخی قرضے لینے کے لیے بھی ماضی کی حکومت کو موردالزام ٹھہراتی ہے اگر یہ بات درست بھی ہو تو کب تک سابق حکومتوں کو مطعون کر کے ہمارے اقتصادی کار پر دازان اپنی کوتاہیوں اور نالائقیوں کو چھپاتے رہیں گے۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس امسال مارچ میں حملہ آور ہوا، اس کا مطلب ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کا ملبہ کورونا پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ جس انداز سے کورونا وائرس سے ہم نبرد آزما ہو رہے ہیں وہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ لاک ڈاؤن کے بارے میں گومگوں اور ہر چند ہے کہ نہیں ہے کی پالیسی سے جانی اور مالی طور پر ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت کورونا وبا پورے ملک میں اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 36ہزار سے زائد اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد2600 تک پہنچ گئی ہے۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کے بعد صوبے بھر میں قرنطینہ مراکز کو بند کرنا شروع کر دیاہے۔ نئی پالیسی کے تحت بیرون ملک سے لاہور اور دیگر ایئر پورٹس پر آنے والے افراد کی ٹیسٹنگ کے بجائے ان کی صرف تھرمل سکینر کے ذریعے جانچ کی جا رہی ہے۔ یہ واقعی خطرناک ہے' حکومت کو نئی پالیسی پر عمل درآمد روکنا چاہیے کیونکہ اگر اس پر عمل درآمد جاری رہا تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی گیارہ جون کی سیچوایشن رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 32814 کورونا سے متاثرہ افراد گھروں میں قرنطینہ ہیں یہ تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
آئندہ مالی سال کے دوران بھی ان دعوؤں کے باوجود کہ ہم نے معیشت کھول دی ہے معاملات مزید گھمبیر ہوتے چلے جائیں گے جن کا ہماری اقتصادیات پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یہ پیشکش کہ پاکستان احساس پروگرام کے تحت ضرورت مند گھرانوں کو نقد رقم کی منتقلی کے حوالے سے بھارت کی مدد کرنے کو تیار ہے جس پر بھارت نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اس کا کورونا کے حوالے سے سیفٹی نیٹ ورک کا حجم پاکستان کے جی ڈی پی کے برابر ہے۔ اس بھارتی جواب پر ہماری وزارت خارجہ نے افسوس کا اظہار کیا۔ اس وقت تو یہ ہونا چاہیے کہتجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو،۔
کورونا کے باعث توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان میں صحت کے شعبے کے لیے نئے بجٹ میں خطیر رقم رکھی جائے گی اور صوبوں کو بھی تحریک دی جائے گی کہ وہ بھی بجٹ میں صحت کے لیے قابل قدر رقم رکھیں لیکن یہ توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ اس وقت پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے صحت عامہ پر خرچ ہونے والی رقم افغانستان کو چھوڑ کر جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے کم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صحت کا شعبہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس چلا گیا لیکن اب یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پنجاب حکومت نے کورونٹین سنٹرز بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے یعنی اب لوگ اپنے اپنے گھر جائیں اور علاج کریں حالانکہ پنجاب پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں کورونا کے کیسز پچاس ہزار سے تجاوز کر گئے ہیں اور قریباً 2700سے زائد نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ بجٹ میں تیس بلین روپے صحت کی سہولیات بہتر کرنے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس مرتبہ دفاع کے لیے مختص رقم میں گیارہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے یقینا ملک کی سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ایسا کرنا ضروری بھی ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ کورونا وائرس سے خطے میں غربت کی نئی لہر آنے کے بعد جنوبی ایشیا کے ممالک بالخصوص پاکستان اور بھارت اسلحے اور لفظوں کی جنگ لڑنے کے بجائے کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی نئی سعی کریں اسی صورت میں غربت کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی جا سکتی ہے۔
ممتاز ماہر معیشت سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق بھارت میں قریباً 27کروڑ سے زائد عوام جو بھارت کی مجموعی آبادی کا قریباً 24فیصد ہیں غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی یومیہ آمدنی 1.25ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ پاکستان کی قریباً تیس فیصد آبادی گویا کہ ساڑھے پانچ کروڑ عوام غربت کی سطح سے نیچے ہیں اور موجودہ حکومت کے دو سال میں ایک کروڑ اسی لاکھ مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ حفیظ پاشا نے متنبہ کیا کہ یہی رجحان رہا تو پاکستان کے چالیس فیصد عوام غربت کی سطح سے نیچے چلے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ بھارت میں بھی کورونا کے نتیجے میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں گزشتہ بجٹ میں امیروں کو اقتصادیات کی بحالی کے لیے 1.5ٹریلین روپے کی ٹیکس میں رعایات دی گئیں۔ اس سے امیر بزنس مینوں اور صنعت کاروں نے اپنا الو سیدھا کر لیا لیکن معیشت کا پہیہ جوں کا توں ہی رہا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی صنعت کاروں کو مختلف ترغیبات دی گئی ہیں لیکن غریب نئے مالی سال میں بھی غربت کی چکی میں پستا رہے گا۔
بجٹ میں بڑے فخر سے کہا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے لیکن جب تک اکانومی کا پہیہ رواں دواں نہیں ہوتا، مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ خان صاحب آٹا، چینی کی قیمت میں اضافے اور پٹرول کی قلت پر کئی مرتبہ اپنی برہمی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ منافع خوری کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک آزاد معیشت میں مارکیٹ فورسز کا بھی رول ہے۔ بجٹ میں بہت سے نئے ٹارگٹ رکھے ہیں ریونیو کا ٹارگٹ 4.9ٹریلین روپے مقررکیا گیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کی خواہش تھی کہ یہ ٹارگٹ 5.1ٹریلین ہو، ختم ہونے والے مالی سال میں اس ٹارگٹ کو کم کر کے3.9ٹریلین پر لایا گیا تھا۔ گویا کہ نیا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے آئندہ مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 27فیصد اضافہ کرنا ہو گا جو کہ موجودہ صورتحال میں ناممکن نظر آتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ حکومت نے بجٹ میں 2.9 ٹریلین روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے رکھے ہیں یہ اس کے باوجود ہے کہ شرح سود کم ہونے، روپے کی قیمت گرنے سے کم از کم مقامی قرضوں پر سود کی مد میں سہولت ہو گی لیکن بظاہر اعداد وشمار میں یہ شعبدہ بازی اس لیے کی جا رہی ہے کہ حکومت آئندہ اچھے نتائج دکھا سکے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا اسی طرح عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ بجٹ غریب آدمی کا بجٹ نہیں ہے، ویسے بھی ایک قلاش حکومت غریبوں کے لیے کیا کر سکتی ہے۔ نئے بجٹ میں شرح نمو کا ہدف 2.1فیصد رکھا گیا ہے لیکن بین الاقوامی اداروں کے مطابق حقیقت میں یہ شرح منفی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس تناظر میں آنے والا مالی سال شاید پہلے والے سال سے بھی قوم کے لیے زیادہ سخت ہے۔