معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان کو داد دینا پڑے گی کہ وہ بڑی محنت سے اپوزیشن کے خلاف فقرے بازی کرنے کا مواد اکٹھا کرتیں اور پھر اپنے پیرائے میں اس کااظہار کرتی ہیں۔ ان کا ٹارگٹ عموماً شریف برادران ہوتے ہیں کبھی کبھار بلاول بھٹو بھی ان کے ریڈار پر آجاتے ہیں البتہ ان کے سابق باس آصف زرداری شاذ ہی ان کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محترمہ کے اکثر ارشادات سیاق وسباق سے ہٹ کر اور بعض اوقات ناقابل یقین ہوتے ہیں۔ حکومت کی کلیدی ترجمان کم ہی حقائق کو اپنے بیانیے میں مزاحم ہونے دیتی ہیں، ان کا تازہ ارشاد ہے کہ نوازشریف کی لندن روانگی فکس میچ تھا اور حکومت ان کی واپسی کے لیے برطانیہ کو خط لکھے گی، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں باتیں حقائق کے برعکس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر نوازشریف کی روانگی فکس میچ تھا تو حکومت نے انہیں کیونکربرطانیہ جانے کی اجازت دی۔ وزیراعظم عمران خان، محترمہ فردوس عاشق اعوان، شاہ محمود قریشی اور چودھری پرویز الٰہی سمیت تحریک انصاف کے کئی سینئر رہنما نوازشریف کی گزشتہ نومبر میں لندن روانگی سے قبل آن ریکارڈ ہیں کہ انتہائی علیل مسلم لیگ (ن) کے رہبر اور سابق وزیراعظم کو انسانی ہمدردی کی بنا پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ خان صاحب نے اس دوران یہ انفارمیشن بھی شیئر کی تھی کہ انہوں نے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو اور اپنے معتمد خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کو خود سروسز ہسپتال بھیجا جہاں انہوں نے میاں صاحب کے تمام میڈیکل ریکارڈ کا معائنہ کرکے یہی رپورٹ دی کہ واقعی انہیں علاج کے لیے فوری طور پر بیرون ملک جانا چاہیے۔
محترمہ نے دعویٰ کیا کہ رپورٹس سمیت تمام ریکارڈ جعلی تھا، یہ بات وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکی ہیں۔ نواز شریف جب وکٹری کانشان بناتے ہوئے قطر ائرویز کے جہاز پر جسے ائر ایمبولینس قرار دیا جا رہا تھا لفٹر کے ذریعے چل کر سوار ہوئے تو خان صاحب اور ان کے حواری جن کے ذہن میں یہ تھانواز شریف سڑیچر پر جہاز تک آئیں گے اس وقت اضطراب کا شکار ہوگئے اور فوراً بیانیہ بدل گیا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نے اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ان کے جانشین مسٹر جسٹس گلزار کانام لے کر کہا تھا کہ وہ عام آدمی کا عدلیہ پر اعتماد بحال کریں۔ انہوں نے نام لے کر عدلیہ پر بلاواسطہ تنقید کی کہ طاقتور کے لیے اور قانون اور کمزور کے لیے دوسرا ہے جس پر اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کی موبائل ایپ کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیااور یاد دلایا کہ میاں صاحب کو عدلیہ نے نہیں بلکہ حکومت نے خود بھیجا ہے۔ عقلمند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فردوس عاشق اعوان اپنی پارٹی کی ہی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے درپے ہو گئیں کہ اس سب نالائقی کی وہ ذمہ دار ہیں جس پر صوبائی وزیر صحت نے واضح طور پر کہا کہ رپورٹس میں کوئی جعلسازی نہیں کی گئی، اسی موقف کا اعادہ معاون خصوصی کے تازہ واکھیان کے جواب میں وزیر صحت پنجاب نے یہ کہہ کر کیا کہ میڈیکل رپورٹس تو درست تھیں۔
میری معلوما ت کے مطابق جب گزشتہ برس 21 اور 22 اکتوبر کی درمیانی شب جیل میں میاں نوازشریف کے پلیٹ لیٹس بہت کم ہونے کی وجہ سے ان کے مسوڑھوں سے خون نکلنے لگا اور حالت غیر ہو گئی تو نیب حکام کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور انہیں راتوں رات ہنگامی طور پر سروسز ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ حکومت نے نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کی تشخیص پر اعتماد کرنے کے بجائے ایک سرکاری میڈیکل بورڈ بنایا جس کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز تھے، یقیناً یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس تشویشناک حد تک اچانک کیسے گرے۔ بعض ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ یہ کسی میڈ یسن کا ردعمل ہو سکتا ہے۔ بہرحال جب نوازشریف کی حالت اتنی سنبھلی کہ وہ سفر کرنے کے قابل ہو گئے تو حکومت نے انہیں بغرض علاج 4ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا تھا اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے۔ اب حکومت معترض ہے کہ وہ 14 ہفتے سے زائد عرصہ لندن میں گزار چکے ہیں۔ یہ اعتراض بھی بظاہر کسی حد تک درست ہے کہ اس پورے عرصے کے دوران نو ازشریف نے ایک رات بھی ہسپتال میں نہیں گزاری۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا کوئی ٹیسٹ یا علاج کاکوئی پروسیجر بھی نہیں ہوا۔ یقیناً ایک ایسا شخص جس کے دل کی شریان بائی پاس سرجری کے دوران پھٹ چکی ہو۔ اس کے لیے معمول کی انجیوگرافی بھی پیچیدہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نوازشریف کے معالجین کا دعویٰ ہے کہ ان کی گردن کی شریان کے بھی بائی پاس کی ضرورت ہے۔ یہ واقعی پیچیدہ مرض ہے لیکن محض یہ جواز پیش کرکے کہ جب تک ان کی صاحبزادی مریم لندن نہیں آئیں گی وہ کوئی پروسیجر نہیں کرائیں گے سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ میاں صاحب کی ایک بیٹی دونوں بیٹے حسن اورحسین نواز، برادر خورد شہبازشریف جو خود بھی تین ماہ سے زائد عرصے سے لیڈر آف اپوزیشن ہونے کے باوجود میاں صاحب کے علاج کے لیے لندن میں بیٹھے ہیں، محض صاحبزادی کا انتظار کرنے کی خاطر علاج کوموخر کرنا کوئی درست تاثر نہیں چھوڑتا۔ واپس آنا یانہ آنا میاں صاحب کا فیصلہ ہے لیکن انہیں کم ازکم فوری طور پر اپنا علاج مکمل کرنا چاہیے۔ یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ سرجری کے لیے جرمنی یا امریکہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس بات کا حتمی فیصلہ تو عدالتیں ہی کریں گی کہ نوازشریف کوکب واپس آنا چاہیے ویسے بھی اگر ان کی جلد یا بدیر سرجری ہو گئی توان کے لندن میں طویل قیام کی قیاس آرائیاں دم توڑ جائیں گی۔
تاہم جیسا کہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کو ئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نوازشریف اپنے خلاف کرپشن کیسزکی بنا پر لندن میں بیٹھے ہیں۔ لیکن فردوس عاشق اعوان کا یہ دعویٰ کہ وہ اپنے کاروباری معاملات دیکھنے کے لیے برطانیہ کے دارالحکومت جا کر بیٹھ گئے ہیں مضحکہ خیز ہے۔ مزید برآں یہ کہنا کہ برطانیہ کوخط لکھا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو واپس بھیجے، دانستہ طورپر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تاحال اس قسم کا معاہدہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کو ہتھکڑی لگا کر پاکستانی عدالتوں میں پیش کیا جاچکا ہوتا۔ وزارت اطلاعات کی سربراہ کا میڈیا پر الزام لگانا کہ میڈیانے ایسا ماحول پیداکردیا تھا کہ میاں صاحب کی جان کو خطرات لاحق ہیں بھی محل نظر ہے، انہیں اس قسم کے الزامات دینے کے بجائے میڈیا کی مدافعت کرنی چاہیے تھی۔ ویسے بھی یہ کیسی حکومت ہے کہ میڈیا سے گھبرا کر کلیدی فیصلے کرلیتی ہے؟ ۔