Mojon Ke Ulat
Arif Nizami92 News777
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پھولے نہیں سما رہے تھے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے سے پہلے استقبالیہ میں ان کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سو مندوبین جن میں سربراہان مملکت و حکومت بھی شامل تھے مصافحہ کیا، اس دوران کی گئی رسمی باتوں کو میڈیا میں اس طرح پیش کیا گیا جیسے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں شاہ محمود قریشی اور ٹرمپ کے ہینڈشیک سے ایک نئے باب کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ قریشی صاحب کے مطابق امریکہ پاکستان سے ازسرنو تعلقات کا آغاز چاہتا ہے، ان کے منہ میں گھی شکر، لیکن زمینی حقائق ان بلندوبانگ دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ماشاء اللہ قریشی صاحب تو ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں جو پہلی مرتبہ وزیر خارجہ نہیں بنے، وہ کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ٹرمپ نے برملا طور پر کہا کہ آئندہ امریکی امداد صرف ان ممالک کو دی جائیگی جو دوستی کا حق ادا کرتے ہیں اور امریکہ کا حلیف ہونے کا ثبوت دینگے۔ اس تقریر میں انہوں نے یہ ڈینگ بھی ماری کہ ان کی دو سالہ کارکردگی اتنی اعلیٰ ہے کہ یہ اپنے پیشروؤں کو بہت پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ اس پر جنرل اسمبلی میں بیٹھے ہوئے مختلف ممالک کے عمائدین قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکے اور ٹرمپ نے مجبور ہو کر کہا کہ وہ بھی ایسے مذاقاً ہی کہہ رہے تھے۔ لگتا ہے کہ ہمارے وزیر اطلاعات فواد چودھری ڈونلڈ ٹرمپ سے نوٹس شیئر کرتے ہیں، ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی پچھلی حکومت کی پانچ سال کی کارکردگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ جہاں تک امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا معاملہ ہے انہیں کم از کم معمول پر لانے اور اور زیادہ سے زیادہ دوستانہ بنانے کیلئے پاکستان کو ہر ممکن سعی کرنی چاہئے اور بطور پاکستان کے سفارتکار اعلیٰ شاہ محمود قریشی کا بنیادی فریضہ بھی یہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ امریکی صدر سے ہاتھ ملا کر اتنا ریشہ ختمی ہو جائیں گویا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کیلئے نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اسلام آباد میں کھری کھری سنانے کے بعد پاکستان کے متحارب ملک بھارت جا کرجو ہرزہ سرائی کی اور نام لے کر الزام عائد کیاکہ پاکستان میں گھات لگائے کئی دہشت گرد گروپ ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بڑی طاقتوں میں سے پاکستان کا واحد دوست چین ہے جس سے ہمارے موجودہ حکمران گھر کی مرغی دال برابر جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ چند روز قبل ہی چینی وزیر خارجہ وانگ ای پاکستان کے دورے پر اسلام آباد تشریف لائے تو وزارت خارجہ کا ایک افسر ان کا استقبال کرنے گیا۔ قریشی صاحب اپنی گوناں گوں مصروفیات کی بنا پر خود ہوائی اڈے پر جانے سے قاصر رہے اور بعد میں یہ عذر لنگ تلاش کیا گیا کہ ہمارا پروٹوکول یہی کہتا ہے۔ دوسری طرف مسلسل انکار کرنے کے باوجود "سی پیک" کے منصوبوں کے بارے میں موجودہ حکومت کی کمٹمنٹ ویسی نہیں جیسی سابق حکومتوں کی تھی۔ سب سے پہلا تیر تو مشیر اقتصادی امور رزاق داؤد نے یہ انٹرویو دے کر چھوڑا کہ "سی پیک" کے منصوبوں پر نظرثانی کی جا رہی ہے کیونکہ یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ اس بیان پر شدید ردعمل کے بعد وہ مکر گئے اور کہا کہ ان کا انٹرویو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا گیالیکن معروضی حقائق کی روشنی میں لگتا ہے کہ واقعی "سی پیک" منصوبوں پر نظرثانی ہو رہی ہے۔ بچت کے نام پر موجودہ حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے 455 پراجیکٹس کو یہ جواز بنا کرکہ یہ سیاسی بنیادوں پربنائے گئے تھے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ایس ڈی پی کے مسودے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس میں ’سی پیک، اور گوادر سٹی کے منصوبوں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ویسے بھی باخبر لوگوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا جب "سی پیک" کے منصوبوں پر نظرثانی کیلئے کابینہ کی آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نفع نقصان کا خیال کئے بغیر ہر اس چیز کے درپے ہے جو گزشتہ دور میں شروع کی گئی تھی۔ یقینا پاکستان کو ان منصوبوں پر جو ’سی پیک، کا حصہ ہونے کے باوجود اقتصادی طور پر وارا نہیں کھاتے نظرثانی کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس ضمن میں تھوڑی سی احتیاط اور بردباری سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ چین نہ صرف اقتصادی طور پر بلکہ دفاعی اور سٹریٹجک لحاظ سے بھی ہمارا قابل اعتماد دوست ہے اور جہاں تک "سی پیک" کا تعلق ہے یہ "ون بیلٹ ون روڈ"منصوبے کا حصہ ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ نے حال ہی میں بیجنگ جا کر چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور ’سی پیک، کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو دور کر دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے نیو یارک میں سائیڈ لائن ملاقات کے دوران چینی ہم منصب نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں خرابی پیدا کرنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی جائیگی، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام تک "سی پیک" کے ثمرات پہنچانے کیلئے دونوں ممالک کو منصوبہ آگے بڑھانا چاہئے۔ لیکن اب نہ جانے بھانت بھانت کی بولیاں کیوں بولی جا رہی ہیں، لگتا ہے کہ عمران خان کابینہ کے بعض ارکان مائل بہ امریکہ ہیں اور زبردستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ چین سے ہٹا کر امریکی کی طرف موڑنا چاہتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ ہمیں سرے سے گھاس ڈالنے کو ہی تیار نہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے "سی پیک" کے بارے میں چین کے اس خطے میں بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کا توڑ کرنے کیلئے جاپان اور آسٹریلیا کی سرمایہ کاری کے ادارے اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن OPIC کی بھارت سے وسیع تراقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کیلئے بات چیت شروع کرا دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت توانائی، ٹرانسپورٹ، ٹورازم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائیگی۔ اس ضمن میں امریکی کانگریس میں اوپک کے کردار کو وسعت دینے کیلئے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے نام سے نئی تنظیم قائم کر کے 60 ارب ڈالر کی رقم مختص کی جائیگی۔ یقینا یہ سب کچھ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ اور فٹ پرنٹ کا توڑ کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے اپنا فوکس درست کر لینا چاہئے۔ امریکہ انڈیا کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے سابق سوویت یونین کے زمانے کی سرد جنگ کا احیا کر دیا ہے اور برصغیر اس نئی جنگ کا محور ہے۔ پہلے والی سرد جنگ میں نام نہاد کیمونسٹ مخالف دفاعی تنظیموں سیٹو اور سینٹو میں پاکستان کلیدی رکن تھا، اس وقت کے حکمران بالخصوص اس وقت کے طالع آزما حکمران جنرل ایوب خان چاہتے تھے کہ اس بہانے کیمونزم کی مخالفت اور فوج کے امریکہ کے ساتھ ٹریننگ پروگرام کے ذریعے گہرا تعلق استوار ہو گا اور جو جدید اسلحہ ملے گا وہ ہم بھارت کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے استعمال کرینگے۔ گویا کہ پاکستان امریکہ کا قریب ترین حلیف بن گیا اور بھارت سوویت یونین کا دست راست۔ 1971ء میں انڈوسوویت دوستی کے معاہدے کے نتیجے میں دفاعی اور سٹریٹجک تعاون نے بھی پاکستان کے دولخت ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اب معاملہ یکسر الٹ ہو گیا ہے۔ پاکستان چین کا حلیف ہے اور اس کی مخالفت میں امریکہ بہادر اور بھارت کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ امریکہ روس مخاصمت بھی دوبارہ شروع ہو چکی ہے نیز پاکستان اور روس کے تعلقات میں گرمجوشی آ رہی ہے جس کا ایک ثبوت دونوں ممالک کے مابین گیس فراہمی کا معاہدہ بھی ہے۔ ہمارے خارجہ پالیسی کے کارپردازان کو موجوں کے الٹ نہیں چلنا چاہئے۔