Mojood Rawaiyon Ka Nateeja?
Arif Nizami92 News764
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت نے90کی دہائی کی محاذ آرائی کے زخم تازہ کر دیئے ہیں، دعا کرنی چاہیے کہ نتیجہ بھی ویسا ہی نہ نکلے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے کھلاڑی ابھی تک کنٹینر سے نہیں اتر پائے، شاید انھیں احساس ہی نہیں کہ اب وہ حکومت میں ہیں، اس لئے اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی زیادہ ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے لیکن اس بارے میں دیوار سے لگی اپوزیشن بھی کچھ کم قصور وار نہیں ہے۔ وزیرخزانہ اسد عمر جب تحریک انصاف کی ساڑھے پانچ ماہ کی حکومت کا دوسرا منی بجٹ پیش کر رہے تھے، ان سے قبل اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے غیر ضروری طور پر انتہائی سخت تقریرکی اور یہ طنزیہ فقرہ کہہ گئے کہ سلیکٹیڈ وزیراعظم کو بالآخر ساڑھے تین ماہ بعد ایوان میں آنے کی توفیق ہوئی۔ اس وقت تو عمران خان اس تندو تیز حملے کو پی گئے اور کوئی جواب نہ دیا لیکن بعدازاں ان کے خصوصی حواری نعیم الحق نے یہ ٹویٹ کر کے کہ ضیاء الحق کی ناجائز پیداوار شہبازشریف کے پروڈکشن آرڈر واپس لے لیے جائیں گے، سیاسی ٹمپریچر کو مزید بڑھا دیا۔ حالانکہ موصوف کو علم ہونا چاہیے کہ پروڈکشن آرڈر سپیکر کی طرف سے جاری ہوتے ہیں اور یہ حکومت کی صوابدید نہیں ہے۔ بجٹ تقریر کے دوران منی بجٹ کے ڈاکومنٹ پھاڑ کر اپوزیشن نے ہوا میں لہرائے اور اسد عمر کی تقریر کے دوران ’گو نیازی گو، کے نعرے اسی طرح لگائے جیسے نوازشریف کی فرمائش پر بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران’گو بابا گو، کے لگائے تھے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اس طرح گولہ باری ہوئی کہ منی بجٹ منظور کیے بغیر ہی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیاگیا۔ اپوزیشن ارکان بھی جوش خطابت میں اس حد تک چلے گئے کہ اگر اپوزیشن لیڈر ایوان میں نہ آ سکے تو قائد ایوان بھی نہیں آ سکیں گے۔ تحریک انصاف کے ارکان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ شہباز شریف کو اسمبلی میں نہیں، جیل میں ہونا چاہیے حالانکہ برادر اول سمیت تکنیکی طور پر وہ بھی اب جیل میں ہیں۔ خواجہ برادران سعد رفیق اور سلمان رفیق بھی نیب کی حراست میں ہیں اور آصف زرداری ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کا حال یہ ہے کہ ہر چند ہیں کہ نہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے اجلاس میں بہت سخت قسم کی باتیں کہی گئیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نہیں سندھ کے زرداروں کو خطرہ ہے، ان کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو صوبائی اسمبلی میں دل کا دورہ پڑا تھا اور ان کی حالت ڈوبتی ہوئی لومڑی کی طرح ہے۔ یہ ریمارکس اس لحاظ سے محل نظر ہیں کہ جس طرح عمران خان منتخب وزیراعظم ہیں اسی طرح مرادعلی شاہ سندھ کے عوام کی چوائس ہیں۔ وزیر ریلویز شیخ رشید جو اچکنوں کی طرح پارٹیاں بدلتے رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ان سے پوتر شخص قومی اسمبلی میں کوئی نہیں، ان کے مطابق شہباز شریف کو لیڈر آف اپوزیشن بنانا بلے کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانے کے مترادف ہے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو اسمبلی میں سب سے پہلے بولنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ وزیر ریلویز اور اس قسم کے بہت سے خواتین وحضرات کا طرز عمل یہ ہے کہ شریف برادران چور اور ڈاکو ہیں، ان کو الٹا لٹکا دیا جائے۔ شیخ رشیدکا یہ بھی کہنا ہے کہ منسٹر انکلیو میں جہاں وزرا رہتے ہیں وہیں ایک چور بھی مقیم ہیں۔ نمبر بنانے کے لیے تو یہ باتیں ٹھیک لگتی ہیں لیکن اپوزیشن کے جو ارکان منتخب ہوئے ہیں ان کا بھی بطور رکن اسمبلی کچھ استحقاق ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کو بھی بعض سہولتیں حاصل ہیں، جن میں منسٹر انکلیو میں ایک مکان بھی شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اس طرح کی سخت زبان استعمال نہیں کر رہی۔ شیخ صاحب اپنی ون مین تانگہ پارٹی کی طرف سے واحد رکن قومی اسمبلی ہیں، وہ کس کے ایما پر سب کچھ کہہ رہے ہیں؟ ۔ لگتا ہے مسلم لیگ (ن) بھی صبر کا دامن چھوڑ چکی ہے۔ اور اس کے ایک حصے میں غالباً یہ سوچ ابھر رہی ہے اگر کھلونا اسے نہ ملا تو وہ کسی کو بھی نہیں کھیلنے دے گی۔ شیخ رشید تواس لحاظ سے قابل معافی ہیں کہ ان کا قبلہ و کعبہ بقول ان کے پنڈی رہا ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) بھی اپنے رویئے سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ بھاری مینڈیٹ سے سرشار وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے تو پرویزمشرف نے ’کو، کر کے ان کے خوابوں کو چکناچور کر دیا تھا۔ پرویزمشرف کے اس اقدام کا محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت پسند قائدین نے بھی خیر مقدم کیا تھا اور بعدازاں اسی پرویزمشرف کے خلاف انھیں سڑکوں پر نکلنا پڑا۔ عمران خان تواس وقت بھی پرویزمشرف کے ساتھ وزیراعظم بننے کو تیار تھے۔ بیس برس سے زائد عرصہ سے سیاست میں ہونے کے بعد انھیں بھی ادراک ہونا چاہیے کہ محاذ آرائی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ 90ء کی دہائی کی سیاست کی جیتی جا گتی تصویر موجودہ حکومت کا میڈیا کے بارے میں رویہ ہے۔ اخباری ایڈیٹرز کی تنظیم سی پی این ای کے تحفظات کے باوجود کابینہ نے پا کستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے جس کا بظاہر مقصد میڈیا کے لیے ون ونڈو آپریشن کے قیام کی منظوری ہے۔ سی پی این ای کا یہ مطالبہ ہے کہ اس قسم کے بظاہر کالے قانون کو نافذ نہیں کرنا چاہیے بلکہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے۔ حکومت اسے یکطرفہ طور پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ جب یہ قانون اسمبلی میں آیا تو اس پر خاصی لے دے ہو گی کیونکہ سی پی این ای نے تو اسے پہلے ہی مسترد کر دیا تھا، اب اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے لہٰذا اس قانون کا منظور ہونا آسان نظر نہیں آتا، نہ جانے حکومت یہ پنگا کیوں لینا چاہتی ہے۔ غالبا ً ان کی دانست میں نوازشریف کے دور میں سارا میڈیا ان کا حامی تھا جبکہ تحریک انصاف تن وتنہا اپنی جدوجہد کے ذریعے برسر اقتدار آئی ہے۔ لیکن حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے، کئی چینلز اوراخبار تو کھلم کھلا نوازشریف کے خلاف تھے، نہ صرف انھوں نے بلکہ تمام میڈیا نے عمران خان کے دھرنوں، پریس کانفرنسوں اور جلسوں کو لائیو کوریج دی۔ میڈیا میں یہ احساس اب جاگزین ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت اینٹی میڈیا ہے اور اقتصادی طور پر اور آزادی اظہار کے حوالے سے بھی اسے مطعون کرنا چاہتی ہے۔ فواد چودھری صاحب میڈیا کو واکھیان دیتے رہتے ہیں کہ اپنا بزنس ماڈل درست کریں لیکن جب میڈیا ان سے کہتا ہے کہ اپنی حکومت کا بزنس ماڈل تو درست کر لیں پھر ہماری فکر کیجیے، تو انھیں اچھا نہیں لگتا، اسی رویے کی غمازی وزیر خزانہ اسد عمر کی منی بجٹ تقریر اور بعدازاں پر یس کانفرنس کرتی ہے جن میں ان کا یہ کہنا کہ میڈیا ان کے بارے میں منفی رویہ رکھتا ہے اور ٹاک شوزاور اداریوں میں صورتحال خراب بتائی جاتی ہے حالانکہ زمینی حقائق مختلف ہیں اور سب اچھا ہے۔ پی ایم آر اے ایک عجیب قسم کی مخلوق ہو گی جو نہ جانور ہو گی اور نہ انسان۔ پرنٹ میڈیا کی ساری جدوجہد اسی ایک نکتے پر ہے کہ ان کے لیے کوئی خصوصی قانون نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا مواخذہ ملک میں رائج قوانین کے تحت ہی کیا جائے۔ یہ سی پی این ای اور دیگر صحافتی تنظیموں کی ہی جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں ایوب دور کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس ختم ہوا جس کے بعد اخبارات نکالنے کا عمل بھی سہل ہو گیا۔ جہاں تک پریس کونسل کا تعلق ہے اس کے چیئرمین پہلے ہی پیمرا کو آزادی صحافت کے منافی قرار دے چکے ہیں کیونکہ پریس کونسل سیلف ریگولیٹری باڈی ہے، اس کو ریگولیٹری باڈی کے ساتھ نتھی کرنا چہ معنی دارد؟ ۔ اگر یہ سب کچھ حکومت کی بدنیتی نہیں تو پھر اسے جہالت ہی قرار دیا جا سکتاہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو نوشتہ دیوار پڑھ کر جمہوریت اور جمہوری اداروں کی آبیاری کرنی چاہیے نہ کہ ان کی نفی کیونکہ موجودہ رویوں کا نتیجہ خوفناک بھی ہوسکتا ہے۔