مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد میں دوہفتے سے جاری دھرنا بدھ کی رات اچانک جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ جو وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے عام انتخابات کا اعلان ہوئے بغیر ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھے اب اپنے پلان" بی" پر عمل پیرا ہیں جس کے مطابق ملک کی تمام اہم شاہراہوں اور ہائی ویز کو باقاعدہ پروگرام کے تحت بند کیا جائے گا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مولانا کا نیا منصوبہ پسپائی کی ایک آبرومندانہ شکل ہے یا واقعی وہ پورے ملک کو شٹ ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف حسب توقع حکومتی ترجمان فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پلان بی، بربادی کا منصوبہ ہے، مولانا کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب کیا کریں۔ شاید محترمہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں لیکن مولانا کی تازہ مہم جوئی سے نہ صرف عام شہریوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اقتصادیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایسا ملک ہے جس میں پٹرول سے لے کر تمام روزمرہ کی ضروریات کی ترسیل سڑکوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ مولانا کی اس قسم کی حکمت عملی سے ملک کو تو نقصان پہنچے گا لیکن انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ایسے ہتھکنڈوں سے اگر حکومتیں گرنا شروع ہو گئیں تو پھر کوئی حکومت محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ بعض حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ مولانا کا دھرنا ناکام رہا، ایک لحاظ سے یہ بات درست بھی ہے کیونکہ انھیں وزیراعظم کا استعفیٰ ملا اور نہ ہی نئے انتخابات کا اعلان ہوا لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو مولانا کو اس دھرنے سے ذاتی اور سیاسی طور پر فائدہ ہی ہوا۔ ان کے پروفائل میں بطور ایک قومی لیڈر گرانقدر اضافہ ہوا۔ انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے باوجود ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی مہم جوئی سے یہ بھی ثابت کیا ہے وہ محض ایک کٹھ ملاں نہیں ہیں، ویسے بھی جے یو آئی (ف) نے زیادہ عرصہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کے ساتھ گزارا ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی سربراہی میں قائم نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا تو اس وقت کے صوبہ سرحد میں مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود وزیراعلیٰ تھے، انھوں نے کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا تھا، وہ نیشنل عوامی پارٹی کے حلیف تھے اور انھوں نے اس تعلق کو آخر تک نبھایا۔
سکھر سے آزادی مارچ کا آغاز بھی ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی تھی کیونکہ اگر وہ اپنے آزادی مارچ کا آغاز خیبر پختونخوا سے کرتے تو یہ ان کا گھر ہے جہاں ان کی سپورٹ بیس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مولانا کی جماعت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کئی مرتبہ برسراقتدار بھی رہ چکی ہے۔ اپنی تازہ یلغار میں انھوں نے یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ وہ اپوزیشن کے تمام سیاستدانوں کو ایک لڑی میں سمو سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا شمار نوابزادہ نصراللہ مرحوم اور چودھری شجاعت حسین جیسے مدبر سیاستدانوں میں کیا جا سکتا ہے جن کے دروازے سیاسی مخالفین کے لیے کھلے ہوتے تھے اور وہ عمران خان کے برعکس کسی بھی سیاستدان سے خواہ اس کا تعلق کسی بھی دھڑے سے ہو بات کرنے سے قطعاً نہیں ہچکچاتے لیکن اسی تناظر میں مولانا اپوزیشن جماعتوں کو اپنے آزادی مارچ اور دھرنے کے لیے حمایت ہونے کے باوجود عملی طور پر ا نھیں اپنے ساتھ نہ لگا سکے۔ پیپلز پارٹی نے تو کورا سا جواب دے دیا کہ ہم نظریاتی طور پر دھرنوں کے ذریعے حکومتیں گرانے کے مخالف ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) بوجوہ دھرنے میں شریک نہ ہوئی۔ دراصل یہ دونوں جماعتیں بالکل دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، وہ نہ توسڑکوں پر آ کر اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنا چاہتی ہیں اور جتنا شاید عمران خان انارکی پھیلنے سے خوفزدہ ہیں اتناہی یہ جماعتیں ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ملک بھر میں افراتفری پھیلانے کے نتیجے میں تیسری قوت اقتدار سنبھال لے گی جس کا ملک قطعاً تحمل نہیں ہو سکتا۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بری بھلی نام نہاد جمہوریت فوجی آمریت سے بدرجہا بہتر ہے جس میں نہ دلیل ہوتی ہے نہ اپیل۔ اس امر کے باوجود کہ آزادی مارچ اور دھرنے کے دوران پیمرا کے ذریعے مولانا کی لائیو کوریج پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی، گزشتہ کئی ہفتوں سے مولانا اوران کی جما عت کے رہنما نیوز میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں اور مختلف ٹاک شوز میں آنے والی جے یو آئی (ف) کی لیڈرشپ نے ثابت کیا ہے کہ وہ مذہب کے علاوہ معاشیات، سیاسیات، قومی مسائل اور اقبالیات پر بھی سیر حاصل گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بھونڈی تہمت کہ مولانا تو کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے ناتے منسٹر انکلیو میں 22نمبر گھر اور ڈیزل کے پرمٹ کی مار ہیں غلط ثابت ہوا۔
میاں نوازشریف شدید علیل اور زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا ہیں کو وزیراعظم سمیت وزرا دودھ میں مینگنیاں ڈال کر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے رہے ہیں جوایک سیاسی فیصلہ ہے۔ میاں صا حب یا ان کے برادر خورد سے ساڑھے سات ارب روپے شورٹی بانڈ مانگنا اورصرف چار ہفتے کی مہلت دینا ناپسندیدہ فیصلہ ہے اور اکثر ماہرین قانون کے مطابق آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مسلم لیگ (ق ) جو حکومت کی اہم حلیف ہے کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے درست کہا ہے کہ عمران خان اپنے ماتھے پر یہ کلنک کا ٹیکہ نہ لگنے دیں جسے دھونا مشکل ہو جائے اور خوش دلی سے میاں نوازشریف کو باہر جانے دیں، نوازشریف کے باہر جانے پر جو طوفان شروع ہوا اسے عمران خان کو قابو کرنا پڑے گا۔ عمران خان ان ہاتھوں میں نہ کھیلیں جو انھیں تباہ کر دیں، یہ لوگ مینگنیاں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خان صاحب کو اپنے بچونگڑے مشیروں کے بجائے چودھری شجاعت حسین کے مشورے پر فوری عمل کرنا چاہیے۔ دراصل چورچور، پکڑ لو، جانے نہ پائے، این آر او نہیں دوں گا، کی مسلسل گردان کے بعد تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے لیے یہ مشکل ہو رہا ہے کہ وہ میاں نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کی اونرشپ لیں لہٰذا بال دوبارہ عدالت کے کورٹ میں پھینکا جارہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا میں اور اسمبلی میں موجود 84 اراکین قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف علاج کے بعد واپس آئیں گے، حکومتی ارکان 7 ارب کے ضمانتی کاغذ کی بنیاد پر نوازشریف کی توہین کرتے رہیں گے، حکمرانوں سے استدعا ہے کہ وہ نوازشریف کو شطرنج کا مہرہ نہ بنائیں۔ ان کا کہنا تھا سیاسی مخالفت ہوتی ہے لیکن وہ ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہو جاتی یا مخالف کے جان کے دشمن بن کر یا ان کے علاج میں رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ یہی بات چودھری شجاعت حسین نے کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ حکومت نوازشریف سے انڈمنٹی بانڈ کی آڑ میں تاوان لینا چاہتی ہے، عمران خان نے نوازشریف کی صحت سے متعلق سنگ دلی کا مظاہرہ کیا، عمران خان کو بہت بڑی بھول ہے، وہ نہ این آر او دے سکتے ہیں اور نہ این آر او لے سکتے ہیں، شیورٹی بانڈ کی شرط ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔
نہ جانے ہمارے حکمران سیاسی معاملات خود طے کرنے کی صلاحیت سے کیوں عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے اگر سیاسی طور پر میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز مستقل جلا وطنی میں بھی چلے جائیں تو عمران خان کو اس کا فائد ہ ہی ہو گا کیونکہ ا س کا مطلب یہی ہو گا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) یتیم ہو کر رہ جائے گی۔ اس وقت تو موجودہ حکومت کی غیرمقبولیت کا یہ حال ہے کہ اگر مولانا کی خواہش کے مطابق واقعی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہو جائیں جس میں خلائی مخلوق، کا کو ئی رول نہ ہو تو خان صاحب کو اتنی نشستیں بھی نہیں ملیں گی جتنی پہلے ملی تھیں اور پنجاب اور ممکنہ طور پر وفاق میں بھی ان کا بستر گول ہو جائے گا۔ عمران خان صاحب کو چودھری شجاعت حسین کے صائب مشورے کہ گورننس پر توجہ دیں پر صدق دل سے عمل کرنا چاہیے اور اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنے والے خوشامدی مشیروں اور وزیروں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔