Moonch Neechay Kon Kare?
Arif Nizami92 News946
جناب شیخ کا قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی؟ ۔ چودھری نثار علی خان کومیڈیا پر تڑیاں لگانے کے بجائے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ ۔ میڈیا کے رپورٹر خواتین وحضرات بڑے شوق اور تجسس سے ان کی پریس کانفرنسوں میں جاتے ہیں کہ چکری کے چودھری حسب وعدہ میاں برادران سے اپنے اختلافات پر سے بالآخر پردہ اٹھا دیں گے لیکن ہر بار چودھری نثار انھیں چکر ہی دے دیتے ہیں۔ اب تک صرف یہ بات واضح ہے کہ چودھری نثار ٹیکسلا اور چکری سے چار نشستوں پر بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑیں گے۔ جہاں تک میاں نوازشریف سے ان کے اختلافات کی نوعیت کا تعلق ہے وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں بلکہ سیاستدانوں کی روایتی کہہ مکرنی سے کام لیتے ہوئے فرما دیتے ہیں کہ میں نے تو فلاں بات کہی ہی نہیں۔ اب وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کب کہا تھا کہ میں کچھ بولا تو نوازشریف منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے؟ حالانکہ وہ یہ بات کئی مرتبہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ میرا منہ نہ کھلواؤ ورنہ میں سب کچھ طشت ازبام کر دوں گا۔ اپنی حالیہ میڈیا ٹاک میں بھی انھوں نے یہ کہا ہے کہ نوازشریف کو ان کے مشوروں کی بنا پر بہت فائدہ پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ ان کے اختلافات کی نوعیت ذاتی نہیں سیاسی ہے اور نہ ہی وہ مریم نواز کے خلاف ہیں حالانکہ وہ کئی مرتبہ آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ مریم نواز پارٹی کو تباہ کر رہی ہیں اور مریم نواز کو جانشین بنانا نوازشریف کا مثبت فیصلہ نہیں ہے۔ یقینا چودھری صاحب کے میاں نوازشریف اور ان کے برادر خورد شہباز شریف پر بہت سے احسانات ہونگے لیکن جہاں اتنی طویل سیاسی اور ذاتی رفاقت ہو وہاں پرانے دوست ایک دوسرے پر احسانات جتاتے نہیں ہیں۔ یہ رویہ تھڑ دلی کے مترادف ہے اور اگر احسانات کی بیلنس شیٹ تیار کی جائے تو شریف برادران نے بھی ان پر کچھ احسانات کیے ہونگے۔ جہاں تک میاں نوازشریف کا تعلق ہے وہ تو مغل اعظم بنے ہوئے ہیں اور کسی صورت اپنی مونچھ نیچی کرنے کو تیار نہیں۔ ان سے بہتر کون یہ جانتا ہے کہ چودھری نثار ایک بگڑے ہوئے لاڈلے بچے کا مزاج رکھتے ہیں اور شدید نرگسیت کا شکار ہیں۔ لیکن یاروں کو منانا بھی بڑا پن ہوتا ہے۔ چودھری نثار کو یقینا شریف برادران پر کچھ مان تھا جس بنا پر انھوں نے اختلاف کیا لیکن جس جماعت میں اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جائے وہاں پر مصالحت، معافی تلافی کی گنجائش نہیں رہتی۔ مسلم لیگ (ن) اور خود میاں نوازشریف کی سیاست نے ایک فوجی آمر کے مخصوص نظریے کی کوکھ سے جنم لیا۔ کئی برس تک میاں نوازشریف، شہباز شریف، چودھری نثار، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اورمسلم لیگ (ن)کے کئی رہنما اسٹیبلشمنٹ کی دائیں بازو کی سیاست کرتے رہے۔ اب اگر نوازشریف ایک بہت بڑے’ انقلابی، بن گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری جماعت ان کے نئے نظریے کے سامنے سجدہ سہو کر لے۔ ہر جماعت میں مختلف نظریات ساتھ ساتھ پنپتے ہیں اور اگر اختلاف کو دبانے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوتے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن جیتا تو ان کی پارٹی میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے۔ اگر ایک طرف جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر، حنیف رامے اور معراج محمد خان جیسے بائیں بازو کے نظریاتی انقلابی لوگ موجود تھے تو دوسری طرف مولانا کوثر نیازی، غلام مصطفی کھر اورغلام مصطفی جتوئی سمیت کئی رہنما سٹیٹس کو کے حامی بھی تھے اور ذوالفقار علی بھٹو ان گروپوں کی باہمی لڑائی کو بعض اوقات ہوا دینے کے ساتھ ساتھ کنٹرول میں بھی رکھتے تھے۔ یہی لیڈر شپ کا امتحان ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف کے ارد گرد اکثر نورتنوں کے برعکس چودھری نثار خو شامد پسند نہیں ہیں اور اپنی رائے دو ٹوک انداز اور برملا طور پر دینے کے عادی ہیں۔ دوسری طرف مصیبت یہ ہے کہ ہر وقت خوشامد، مبارک سلامت سننا میاں نوازشریف کی کمزوری بن چکی ہے۔ اگر نوازشریف چودھری نثار کو دھتکارنے کے بجائے ان سے مختصر میٹنگ کر لیتے تو معاملہ اتنا خراب نہ ہوتا۔ اس بارے میں شہبازشریف بھی جن کی چودھری نثار سے انتہائی گہری دوستی ہے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سیاسی جماعت کے بجائے ایک خاندانی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے شہبازشریف بھی اسی کلچر میں رنگے گئے ہیں۔ زعیم قادری کا معاملہ ہی لے لیں، وہ شریف برادران اور ان کی حکومت کی میڈیا پر ترجمانی کرتے کرتے ہلکان ہو گئے لیکن اس وقت ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی جب انھیں پتہ چلا کہ این اے 133میں ان کے بجائے وحید عالم خان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے تو موصوف نے پریس کانفرنس کر ڈالی جس پر وحید عالم نے وفاداری بشرط استواری طوطے کی طرح یہ منتر پڑھا کہ زعیم قادری احسان فراموش ہیں اور ووٹ صرف نوازشریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز کا ہے۔ زعیم قادری نے بھی کچھ جلد بازی کی انھیں شہبازشریف اور ان کے صاحبزادے کے بارے میں وہ زبان اور لہجہ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا جو انھوں نے کیا۔ وہ اپنی اس دھواں دھار پریس کانفرنس کے بعد جمعرات کو میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے، میں تشریف لائے تو میں نے ان سے بھی کہا آپ نے غلط کیا کیونکہ شریف برادران کی ڈکشنری میں معافی کے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ اب اگر آپ نے معافی مانگنے کی کوشش بھی کی تو وہ دل سے انھیں معاف نہیں کریں گے، پھر بھی امید کرنی چاہیے کہ شہبازشریف جو اپنی علیل اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن گئے تھے الیکشن کے موقع پر بھی بلاوجہ وہاں رکے رہے۔ اب اپنی شہرت کے برعکس چودھری نثار اور زعیم قادری کو منانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ امید اب امید موہوم ہی لگتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤںکے درمیان کھلم کھلا اختلافات کا باہر آجانا کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کا جہانگیر ترین پر یہ رکیک حملہ کہ جو کھیل میں نہیں ہے اس سے کیا جھگڑا؟ ۔ انھوں نے بلاواسطہ طور پر جہانگیر ترین پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ٹکٹوں پر اختلاف کرنے والوں کواکسا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اگرچہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل نہیں رہے۔ لیکن وہ نہ صرف عمران خان کے معتمد خصوصی ہیں بلکہ پی ٹی آئی کے مدارا لمہام بھی ہیں۔ جہانگیر ترین نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ قریشی صاحب کے اعتراضات کو جواب کے قابل بھی نہیں سمجھتے لیکن انھیں الزام تراشی کرنے کے بجائے اپنے شہر کے کارکنوں کے تحفظات دور کرنے چاہئیں۔ ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ دھرنوں کی سیاست پی ٹی آئی نے شروع کی اب انھیں برا نہیں منانا چاہیے۔ ترین اور شاہ محمود قریشی دونوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور دونوں حضرات گہرے سیاسی دوست بھی رہے ہیں۔ قریشی صاحب کو سیاسی اور ذاتی لحاظ سے ترین صاحب پر اس طرح کے حملے کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے ان سے ان کی پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔