Muaqaf Per Aanch
Arif Nizami92 News820
لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بھارت سے پینگیں بڑھانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہے۔ عمران خان انتخابات سے پہلے اور وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بھارت ایک قدم بڑھائے ہم دو قدم بڑھائیں گے لیکن دوسری طرف سے ہمیں ابھی تک کورا جواب ہی مل رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین شروع سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ متحارب ہمسائے سے اس وقت مذاکرات کی بھیک مانگنا سعی لاحاصل ہے۔ حال ہی میں کرتار پور راہداری کھولنے کے موقع پر تحریک انصاف کی حکومت بھارت پر کچھ زیادہ ہی ریشہ ختمی ہو گئی تھی، فوراً بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اور مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ امرندر سنگھ کو راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت اور سشما سوراج کو دوطرفہ مذاکرات کی دعوت بھی دیدی گئی۔ پہلے تو سشما سوراج نے مصروفیت کا بہانہ بنا کر طرح دے دی، بعدازاں کھل کر سامنے آئیں کہ جب تک ان کے بقول پاکستان دہشت گردی ختم نہیں کرتا مذاکرات ہونگے اورنہ ہی وہ پاکستان جائیں گی۔ دیکھا دیکھی مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ امرندرسنگھ بھی سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل گورو دوارہ دربار صاحب کی راہداری کی افتتاحی تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ بھارت نے ایک مرتبہ پھر گزشتہ ماہ پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی۔ واضح رہے بھارت کے عذرلنگ کی بنا پر تین برس سے سارک کا سربراہی اجلاس نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف ہماری بعض پالیسیوں سے ایسے لگتا ہے کہ ایک ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ گزشتہ اتوار کو اسلام آباد میں سارک کمیٹی کی میٹنگ میں آزاد کشمیر کے وزیر چودھری محمد سعید کو بلانے پر بھارتی ہائی کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار شبھام سنگھ واک آؤٹ کر گئے۔ سیکرٹری خارجہ محترمہ تہمینہ جنجوعہ فرماتی ہیں اگرچہ بھارت نے سارک کانفرنس میں شرکت سے معذرت کردی اور نئی دہلی کے منفی رویئے کے باوجود ہم امن کے قیام کے لیے کوشاں رہیں گے۔ لیکن زمینی حقائق کچھ اس نوعیت کے بنتے جا رہے ہیں کہ اگلے برس عام انتخابات سے قبل یہ توقع رکھنا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کے لیے بامقصد مذاکرات ہو سکتے ہیں، عبث ہے۔ اگر اس بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ گئی ہے تو بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے شرمناک شکست سے دوچار ہونے کے بعد دور ہو جانی چاہیے۔ تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جہاں بی جے پی کی حکومت تھی اس کی چھٹی ہو گئی ہے اور کانگریس نے معرکہ مار لیا ہے۔ تلنگانہ اور میزورام میں بھی علاقائی جماعت میزو نیشنل فرنٹ اور ٹی آر ایس نے بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا۔ مدھیہ پردیش میں سب سے مضبوط مقابلہ ہوا، جہاں 230 نشستوں میں سے کانگریس نے 111 پر کامیابی حاصل کی جبکہ بی جے پی 110 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی۔ راجستھان اسمبلی کی 199 نشستوں پر الیکشن ہوا جہاں راہول گاندھی کی کانگریس نے 99 نشستیں لے لی ہیں جبکہ بی جے پی کو 74 سیٹیں مل سکیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے بڑا دھچکا چھتیس گڑھ میں لگا، جہاں 90 نشستوں پر پولنگ ہوئی، کانگریس نے حکمران جماعت سے 66 نشستیں چھین لیں، یہاں بی جے پی کو صرف 16 سیٹیں ہی مل سکیں۔ ریاست تلنگانہ میں مقامی جماعت تلنگانہ راشٹرز سمیتھی نے حکمران جماعت بی جے پی اور کانگریس دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا، ٹی آر ایس نے 118 سیٹوں میں سے 87 نشستیں جیت کر بڑی سبقت حاصل کر لی، کانگریس کو 19 جبکہ بی جے پی کو صرف ایک سیٹ ملی۔ ریاست میزورام میں میزو نیشنل فرنٹ نے 40 میں سے 26 سیٹیں جیت لیں جبکہ کانگریس 6 اور بی جے پی صرف 1 نشست لے سکی۔ واضح رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں گزشتہ 15 سال سے برسر اقتدار تھی۔ میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ’مودی کا جو یار ہے، غدارہے، کے نعرے لگا کر اور یہ کہ وہ کلبھوشن یادیوکے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے کہہ کر ان کی حب الوطنی میں کیڑے نکالے گئے لیکن موجودہ حکمران بڑے جوش وخروش سے بھارت کے ساتھ جپھی ڈال رہے ہیں اور اس بارے میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان خاص طور پر مایوس کن تھا۔ قریشی صاحب جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے اور آصف زرداری کے دور میں بھی وزیرخارجہ رہ چکے ہیں، افغانستان میں بھارت کے رول کے بارے میں پاکستان کے تاریخی موقف سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارا استد لال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بھارت کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر کہ بھارت کا رول ہونا چاہیے، الٹی گنگا بہا دی ہے۔ اگر پاکستان نے یہ موقف کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تبدیل کیا ہے تو اس بارے میں کوئی وضاحت ہونی چاہیے تھی اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، ویسے بھی ایسے کلید ی معاملات پر اس طرح کے بیانات دینے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ دراصل آج کل ہم پر ایک نیا بھوت سوار ہے کہ افغانستان اور بھارت کو راہد اری دینے، باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون میں ہی پاکستان کی ترقی مضمر ہے۔ ویسے تو بات اصولی طور پر درست ہے لیکن اس معاملے میں یکطرفہ جلد بازی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس وقت بھارت جو امریکہ کی گود میں بیٹھا ہے بات چیت کے لیے ہمارے کسی غنچے میں آنے والا نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ کشمیریوں نے جس انداز سے مقبوضہ کشمیر میں علم آزادی بلند کیا ہوا ہے اور بھارتی سنگینوں کے سائے تلے اور گولیاں کھا کر وہاں تحریک حریت چلا رکھی ہے، اس موقع پر بھارت پر اتنا ریشہ ختمی ہونا نہ صرف کشمیریوں کی قربانیوں بلکہ پاکستان نے کشمیر کی تحریک حریت اور حق خودارادیت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں، اس کی نفی ہو گی۔ ہمیں تو دوٹوک اندازسے یہ کہنا چاہیے کہ بھارتیو کشمیر سے اپنی فوج نکالو اور اس کلید ی مسئلے پر بات چیت کرو لیکن ہم نے روایتی بیان بازی کے سوا چپ سادھ رکھی ہے۔ اس کے برعکس بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی نفی کرنے کے لیے سرگرم رہتا ہے۔ سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی اور موجودہ بورڈ کی خوشامد کے باوجود بھارت دبئی سمیت کسی تیسرے ملک میں بھی ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے گریزاں رہتا ہے۔ وہ مسلسل رٹ لگائے جا رہا ہے کہ ہم حافظ سعید، ڈی کمپنی اور بھارت کے بقول کچھ مزید دہشت گرد گروپوں کو پال رہے ہیں۔ ہم لاکھ کہیں کہ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور ایسے لوگوں کو نہیں پال رہے وہ ہمارا موقف تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ مزید برآں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کیلئے کشمیری نوجوان بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں لیکن بھارت بڑی ڈھٹائی سے قرار دے رہا ہے کہ یہ پاکستان کے گھس بیٹھئے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت کے اس بیانیے کو امریکہ اور مغربی دنیا کی آشیرباد حاصل ہے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بلیک لسٹ کرنے کی کارروائی میں بھی بھارتی لابی کا عمل دخل شامل تھا۔ بھارتی نژاد نکی ہیلی جو امریکہ کی اقوام متحدہ میں مستعفی ہونے والی مستقل مندوب ہیں نے برملا طور پر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے کہ ان کا بس چلے تو پاکستان کو ایک ڈالر بھی امداد نہیں ملنی چاہیے۔ لیکن ہم یہی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم عمران خان کے دو ٹوک موقف کے بعد پسیج گئے ہیں اور اب اسلام آباد کی خوشامد کر رہے ہیں کہ ہماری افغان طالبان سے بات چیت کرائیں اور یہ بات چیت شروع بھی ہو گئی ہے۔ یقینا بھارت سے سیاسی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہماری ضرورت ہیں اور بھارت کی بھی لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ہمیں برابری کی بنیاد پر ہمسایہ ملک سے سلسلہ جنبانی بڑھانا چاہیے کیونکہ برصغیر میں کشید گی کم کرنا دونوں ملکوں کی ضرورت ہے لیکن تین کلید ی صوبوں میں انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اگلے برس ہونے والے قومی انتخابات تک کی مہم میں مودی سرکار پاکستان کے خلاف مزید زہر اگلے گی، ہمیں اس دوران ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے۔ ویسے بھی اب یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات بھارتیہ جنتا پارٹی جیت لے گی۔ یقینا بھارت سے امن کی کوششیں جاری وساری رہنی چاہئیں لیکن اس حوالے سے قومی غیرت، حمیت اور کشمیر پر پاکستان کے تاریخی موقف پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔