وزیراعظم عمران خان اور ان کی اقتصادی ٹیم کے کار پردازان بجا طور پر فکر مند ہیں کہ کورونا وائرس کی مہلک وبا کے نتیجے میں معیشت بالکل بیٹھ چکی ہے۔ مایوسی کی صورتحال کا اندازہ وزیر ریلویز شیخ رشید کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اگر امدادی پیکیج نہ ملتا تو ملک مالی طور پر دیوالیہ ہو جاتا، ہمارا معاشی کام ختم ہو گیا تھا۔ اب آئی ایم ایف کی طرف سے اقساط کی ادائیگی کے لیے ٹائم مل گیا ورنہ ہمارے پاس تو ادائیگیوں کے لیے رقم ہی نہیں تھی۔ اگر ڈیفالٹر نہیں بھی ہونا حکومتی زعما کی جانب سے اس قسم کے بیانات خدانخواستہ اس کو ممکن بنا دینگے۔ ویسے تو ملک کی اقتصادی صورتحا ل کورونا وائرس کی بنا پر پہلے ہی پتلی تھی۔ اقتصادی ٹیم کے ان دعوؤں کے برعکس کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا ہے اور اب ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، حقیقت حال قدرے مختلف ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ تر دوست ممالک سے آئی ہوئی رقوم اور آئی ایم ایف کے قرضوں پر مشتمل تھے۔ اس پر بڑا فخر کیا جا رہا تھا ہم نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت کم کر دیا ہے حقیقت بھی یہی تھی لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ملک میں عمومی کساد بازاری اور بڑی صنعتوں کے علاوہ چھوٹی ودرمیانی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل انحطاط کی بنا پر درآمدات کم ہو گئی تھیں، سونے پر سہاگہ حکومت کی اپنی کوتاہ اندیشانہ پالیسیاں ثابت ہوئیں۔ آئی ایم ایف سے 6۔ ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے لیے سخت ترین شرائط ہمیں تسلیم کر کے ان پر من وعن عمل کرنا پڑا۔ بعض ناقدین تو یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور گورنرسٹیٹ بینک رضا باقر پر مشتمل ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ٹیم ہی آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط طے کر رہی ہے۔ اسی بنا پر روپے کو ڈالر کے مقابلے میں فری فلوٹ پر ڈال دیا گیا جس کی بنا پر روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں دھڑم سے گری اور چند ہفتوں میں ڈالر139سے بڑھ کر158 روپے پر پہنچ گیا جس کی پچھلے دنوں قیمت 167روپے تک پہنچ گئی تھی جو اب 164روپے تک آ گئی ہے۔ شر ح سود ریکارڈ 13.25فیصد تک پہنچا دی گئی۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ریونیو کا ٹارگٹ 5500ارب کی شرط کو تسلیم کر لیا گیا جس کے حصول کے لیے شبر زیدی کو بڑے تزک واحتشام سے نجی شعبے سے لا کر چیئرمین ایف بی آر بنا دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جب معیشت ہی بیٹھ رہی ہو تو محصولات کہاں سے آئیں گے۔ جلد ہی زیدی صاحب کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور وہ خرابی صحت اور نروس بریک ڈاؤن کا بہانہ کر کے اڑن چھو گئے۔
گویا کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آئی ایم ایف کا کڑی شرائط پر دیا ہوا پیکیج معیشت کی بظاہر درست سمت متعین کرنے کے لیے تسلیم کیا گیا لیکن شاید پاکستان کی صورتحال یہ تھی کہ مرتا کیا نہ کرتا۔ آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد جس طرح معیشت کا انحطاط ہوا شاید اس کی پاکستان کی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہو۔ پاکستانی معیشت پر پہلے بھی بڑے بڑے مشکل وقت آئے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد اور پھر سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں بڑے بحرانوں نے سر اٹھایا اور1998ء میں ایٹمی دھماکے کرنے کی پاداش میں دنیا بھر نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔ لیکن ہم ان چینلجز سے مختلف وجوہات کی بنا پر سرخرو ہو کر نکلے۔ بعض اوقات تو اس میں پالیسی سازوں کی حکمت عملی کے علاوہ حالات کار تھے۔ ایوب خان دور میں ہم نے سیٹو اورسینٹو جیسے کمیونسٹ مخالف دفاعی اتحادوں میں شرکت کر کے ڈالر اینٹھے بعدازاں افغانستان پر روسی فوجوں کی چڑھائی کے وقت جنرل ضیاء الحق اور ان کے قابل اعتماد جرنیلوں نے اربوں ڈالرز سے اپنی جیبیں بھریں اور اسی قسم کی صورتحال نائن الیون کے بعد پیدا ہوئی جب جنرل پرویز مشرف نے طوہاً وکرہاً پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا مہرہ بنا دیا۔ ان ڈالروں سے ہم ملک میں نہ تو پائیدار ترقی لا سکے اور نہ ہی معیشت کو صحیح اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کر پائے۔
اب جبکہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے تو پاکستان بھی اس وبا کے انسانی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی اثرات سے نہیں بچ سکا۔ شیخ رشید بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان بھی کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 70غریب ملکوں میں شامل ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا تھا جنہیں غریب تر تو نہیں لیکن درمیانے درجے کی معیشت میں شمار کیا جاتا تھا لیکن ہماری معیشت گزشتہ دو برسوں میں ایسی رجعت قہقری کا شکار رہی ہے کہ عالمی اداروں کے مطابق ہماری شرح نمو کا اندازہ3فیصد یا اس سے بھی کم لگایا جا رہا تھا اور اب عالمی بینک کے مطابق جبکہ اچھی بھلی معیشتیں خطرات سے دوچار ہیں پاکستان کی شرح نمو منفی بتائی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں برس کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کی شرح نمو منفی1.5ہو جائے گی۔ یہ بڑی خوفناک صورتحال ہے۔ منفی شرح نمو کے نتیجے میں معیشت تو بیٹھ ہی جائے گی لیکن اس کے ساتھ بے روز گاری میں بھی تشو یشناک اضافہ ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق مزید ہزاروں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ بہرحال ابہمیں عالمی حالات کے تھپیڑوں کے نتیجے میں وقتی طور پر آئی ایم ایف سے تھوڑا سا ریلیف ملا ہے۔ آئی ایم ایف نے اسلام آباد کے لیے آر ایف آئی کے تحت1.4 ارب ڈا لر کی ہنگامی امداد منظورکر لی ہے۔
بعداز خرابی بسیار ہمارے سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کو بھی خیال آیا کہ شرح سود واقعی بہت زیادہ ہے اور اس میں ایک ماہ میں چوتھی بار کمی کی گئی ہے اور شرح سود کم کر کے 9 فیصد تک لائی گئی ہے لیکن رضا باقر کو ایسا کرنے کی توفیق اس وقت ہوئی جب آئی ایم ایف نے وہ بات کہہ دی کہ پاکستان میں بحران کے نتیجے میں مینو فیکچرنگ بالخصوص ٹیکسٹائل، ٹرانسپورٹیشن سروسز بری طرح متاثر ہونگی مزید برآں نجی شعبے کو ملنے والے قرضوں میں بھی موجودہ غیر یقینی صورتحال کی بنا پر لینا مشکل ہو جائے گا۔ ماہرین اقتصادیات کافی عرصے سے دہائی دے رہے تھے کہ اتنے زیادہ پالیسی ریٹ کے ہوتے ہوئے سرمایہ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ نئے کاروبار کے لیے تو کجا چلتے ہوئے کاروبار کے لیے بھی قرضہ لینا وارا نہیں کھا رہا۔ اب یہ شرح تو کم کر دی گئی ہے لیکن اس لاک ڈاؤن اور غیر یقینی صورتحال کی بنا پر سب کچھ ہی منجمد ہے۔ وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کو کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی سرمایہ لگانے والوں کو یہ چھوٹ بھی دی ہے کہ ان سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جا ئیں گے گویا کہ وہ حکومت جو پچھلے ادوار میں منی لانڈرنگ، کالے دھن کی دہائی دیتی تھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود وہی سب کچھ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ تعمیراتی شعبہ کو کھول دیا گیا لیکن کنٹریکٹرز اور دیگر دفاتر پریشان ہیں کہ ٹرانسپورٹ کے بغیرکارکن اور مزدور کس طرح کا م پر پہنچیں گے اور جب تک ہارڈوئیر کی مارکیٹیں بند ہونگی تعمیراتی سامان کہاں سے آئے گا۔ ظاہر ہے کہ ملکی معیشت کو لاک ڈاؤن کھولنے کے بجائے کسی مرحلے پر مکمل طور پر کھولنا پڑے گا۔ اس وقت یہ سوال صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے کہ معیشت کھولیں، روزگار مہیا کریں یا عوام کو کورونا کے ہاتھوں مرنے دیں۔ ظاہر ہے کہ اسی بنا پر لاک ڈاؤن کو ایسے وقت میں جب کورونا سے متاثر ہونے والوں اور اس سے اموات تیزی سے بڑھ رہی ہوں کھولنا ممکن نہیں ہے۔
وزیراعظم کے مشیر اور ترجمان اس حوالے سے سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو جتنی بھی گالیاں دیں ان کی موجودہ صورتحال میں پالیسی درست ہے۔ ویسے بھی اس وقت پاکستان تو کیا پوری دنیا کا جان ومال داؤ پر لگا ہوا ہے اس معاملے میں کسی کا بھی سیاست کرنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ ایک اور بری خبر جو بیرونی ممالک سے آ رہی ہے وہ ہماری معیشت کے لیے زہر قاتل ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا رہا ہے، اس کے نتیجے میں نہ صرف ترسیل زر میں کمی آئے گی بلکہ پاکستان پر مزید بے روز گاروں کا بوجھ بڑھ جائے گا۔