Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Mulaqaton Se Talatum

Mulaqaton Se Talatum

دوسال کے جمود کے بعد فوجی قیادت اور اپوزیشن کے درمیان براہ راست ملاقاتیں بہت سے سیاسی سوال اٹھا رہی ہیں۔ یک نہ شد دوشد کے مترادف شیخ رشید جو درفطنیاں چھوڑنے کے ماہر ہیں، فوج کے بارے میں غیرذمہ دارانہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا شہبازشریف اور ان کے ساتھیوں کی عسکری قیادت سے ایک نہیں 2 ملاقاتیں ہوئی ہیں، دونوں میں وہ شامل تھے۔ پہلی ملاقات جس میں گلگت بلتستان کے حوالے سے گفتگو ہوئی شہبازشریف اور میں نے ایک ہی میز پر کھانا کھایا۔ وزیرریلوے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پہلی ملاقات 5 گھنٹے جبکہ دوسری سوا 3 گھنٹے ہوئی اور اس میں خواجہ آصف اور احسن اقبال نے آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی سے ون ٹو ون ملاقات کی۔

ان طویل ملاقاتوں میں موسم کے حال پر تو ڈسکشن نہیں ہوئی ہو گی، یقینا سیاسی معاملات ہی زیر بحث آئے ہونگے۔ احسن اقبال نے ایک ملاقات کی تصدیق کی ہے جو گلگت بلتستان کے حوالے سے بلائی گئی تھی جس کی محترمہ مر یم نواز نے بھی تصدیق کی ہے۔ تاہم احسن اقبال نے دوسری ملاقات کی تردید کی ہے۔ مریم نواز نے حسب روایت اس ملاقات کے حوالے سے بلاکم وکاست کہہ دیا کہ گلگت بلتستان کامعاملہ ایک سیاسی معاملہ ہے اس پر گفتگو جی ایچ کیو میں نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے وا ضح کیاکہ میں ا س قسم کی ملاقاتوں کے حق میں نہیں ہوں۔ ان کی یہ بات اصولی طور پر درست ہے لیکن جہاں عسکری قیادت کی آشیرباد کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا وہاں یہ ملاقات یقینا میاں نوازشریف کی منظوری کے بغیر نہیں ہوئی ہو گی لیکن شیخ رشید مصر ہیں کہ دوملاقاتیں ہوئی ہیں اور شیخ صاحب اتنا بڑ اجھوٹ نہیں بول سکتے۔

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران تصدیق کی سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کیں۔ ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری 7 ستمبر کو ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا دونوں ملاقاتیں سابق گورنر کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے۔ ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں میں حل ہوں گے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما محمد زبیر نے وضاحت کی کہ یہ ملاقاتیں میاں نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔

لگتا ہے کہ مریم کے ابا جان دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ کیاان ملاقاتوں کے بارے میں کنفیوژن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی جا رہی ہے کیونکہ اس قسم کی اطلاعات سے اپوزیشن کی بطور حقیقی اپوزیشن کریڈیبلیٹی متاثر ہو سکتی ہے بصورت دیگر حکومتی جماعت کو اس قسم کی غیر مصدقہ خبریں پھیلانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ۔ ایک طرف تو یہ کہہ دینا دوسری طرف شیخ صاحب اور ان کے دیگر کئی ساتھی فرما رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے ش لیگ نکلے گی۔ سا تھ ہی سا تھ شیخ صاحب کی طرف سے یہ افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ نواز شریف اور برادر خورد کے راستے الگ الگ ہو رہے ہیں، یہ را بطے بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مریم نواز نے اسلام آباد ہا ئیکورٹ میں پیشی کے موقع پر صحا فی کے سوال کے جواب میں اس کی بھرپور تردید کی اور کہا کہ دونوں بھائی یک جان دو قالب ہیں۔ شہباز شریف بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

میاں نواز شریف کے اے پی سی سے خطاب پر حکومتی جماعت کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ نواز شریف پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ یقینا نوازشریف پرانے نواز شریف لگ رہے تھے جو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے لیے آئے تو چھکے لگانے لگتا ہے اوربولڈ بھی ہو جاتا ہے۔ 1993میں غلام اسحق خان کو ڈکٹیشن نہیں لوں گا، کہہ کر للکارا تواقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ قریبا ً ایسی ہی صورتحال 1999میں پیداہوئی جب انہوں نے آرمی چیف جنر ل پرویز مشرف کے خلاف کا ؤنٹر کو، کرنے کی کوشش کی، اس کی پاداش میں پہلے جیل کی ہوا کھانا پڑی اور پھر طویل عرصے کے لیے جلاوطنی میں جانا پڑا۔ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار اس سیاستدان میں پاگل پن کی حد تک جرات رندانہ موجود ہے۔ اب جب انہوں نے دوسال کے بعد چپ کا روزہ توڑا تو دھماکہ ہی کردیا۔ اگر میاں صاحب پاکستان میں موجود ہوتے تو قدرے احتیاط سے کام لیتے یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ انہیں اس جارحانہ بلے بازی کا نقصان ہو گا یا فائدہ؟ ۔

میاں صا حب کو خوب علم ہے کہ یہ ورچوئل میچ ہے کہ وہ اب لندن میں حکومتی تر جمانوں کے مطابق مشکو ک میڈیکل بنیادوں پر وقت گزار رہے ہیں لیکن ان کے تازہ خطاب نے کم از کم یہ بات واضح کر دی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا بیا نیہ کیا ہے اوریقینا یہ وہ بیانیہ نہیں ہے، جس کا ورد شہبا ز شریف کرتے رہتے ہیں۔ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کی پالیٹکس کھیلنے کے داعی ہیں اور پچھلے دو برس سے یہی کرتے رہے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد سے پہلے مسلم لیگ (ن )جس دوراہے پر کھڑی تھی، شہبازشریف کا بیانیہ اس کیلئے زہر قاتل ثابت ہو رہا تھا۔ اب یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مسلم لیگ(ن) کی مستقبل کی سیاست کی سمت کیا ہو گی لیکن یہ راستہ کٹھن ہے اس پر استقامت سے قائم رہنے کے لیے قربانیاں دینا پڑیں گی۔ مسلم لیگ (ن) نے اتنا بڑا نوالہ نگل لیا ہے جسے ہضم کرنے کے اپنے محرکات ہیں۔ حکومت کو نکالنے کا الٹی میٹم دینا، تحریک چلانے کا اعلان کرنا آسان ہے لیکن اس پر کاربند رہنا پرخار راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ سیا سی مبصرین کی طرف سے اس حوالے سے جو سوالات ابھر رہے ہیں وہ یہی ہیں کہ کیا عسکری قیادت نے پی ٹی آئی حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے؟ ۔ آئندہ چند مہینوں میں اس کااندازہ ہو جائے گا، سب سے بڑا ٹیسٹ تویہی ہو گا کہ فوج واقعی سیا سی معاملات میں اپنی مبینہ مداخلت چھوڑ دے گی۔ فوج تو اب بھی کہتی ہے کہ ہم سیاست میں گھسیٹے گئے ہیں۔ اس بارے میں عسکری قیادت کا بیان خاصا چونکا دینے والا تھا کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے گا۔

جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی دیوار سے لگی ہوئی تھی اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے کہ خلائی مخلوق، مقتدر حلقے، سیاسی انجینئرنگ، سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تو یہ برسراقتدار لوگوں کے لیے بہت بڑا اپ سیٹ ہو گا کیو نکہ 2018کے انتخابات سے قبل اور بعد میں بھی یہی وتیرہ رہا ہے کہ اپوزیشن کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل سکی اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو کرشمہ ہی ہو گا۔ یقیناًیہ اپوزیشن کے لیے اچھی خبر ہی ہو گی لیکن اس معاملے میں میاں صاحب کو جو ڈو کراٹے کی سیا ست کرنے کے بجائے تحمل سے کام لینا پڑے گا اور ان کے وہ رہنما جو میانہ روی احتیار کرتے ہیں کو آگے لانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شیر، شیر قا لین بن جائے، اس ضمن میں شہبازشریف جو بقول شیخ رشید کے گزشتہ چند دنوں میں عسکری قیادت سے دوملاقاتیں کر چکے ہیں کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں کیونکہ سیا ست توڑ پھوڑ اور مخاصمت کا کھیل نہیں ہے، کچھ لو اور کچھ دو کا رویہ ہی کا میابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں طویل عرصہ فوجی اور نیم فوجی حکومتیں رہی ہیں معاملات سید ھی انگلی سے حل نہیں ہوتے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran