میاں نواز شریف کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے دن وزیراعظم عمران خان دوروز کے لیے "مراقبے" میں چلے گئے۔ اگرچہ خان صا حب کے دوروز کی چھٹی پر جانے کا ناتا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے زبردستی جوڑنا زیادتی ہو گی، لگتا ہے کہ خان صاحب حالات کی بنا پر ذہنی طور پر تھک گئے تھے لہٰذا سرکاری اور سیاسی مصروفیات ترک کرکے انھیں کچھ آرام کی ضرورت تھی۔ غالباً وزیر اعظم کو یہ احسا س ہو گیا ہو گاکہ پاکستان میں حکومت کرنا انتہائی کٹھن اور پیچیدہ ہے۔ یقیناً خان صا حب نے اپنی دو روزہ نسبتاًگوشہ نشینی کے دوران غوروخوض کیا ہوگاکہ آئند ہ کیا سمت متعین کی جائے کیونکہ اس وقت تو اکثرمبصرین کے مطابق حکومت شتربے مہار کی طرح چل رہی ہے۔ کئی مرتبہ خان صا حب یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ٹیم میں ردوبدل کیا جائے گا لیکن ہر بار تیزی سے بدلتے حالا ت کی بنا پریہ فیصلہ موخرہوتا چلا گیا۔ اب خسرو بختیار کے علاوہ کس کس وزیر کی چھٹی ہو گی یا ان محکموں میں ردوبدل ہو گا فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے وفاقی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ وزارت دی جائے گی۔ ٹویٹر میں اپنے بیان میں انہوں نے کہا اسد عمر کو منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات جبکہ خسرو بختیار کو پٹرولیم کا وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس ضمن میں نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا۔ ایک باخبر زندہ دل شخص نے تو یہ خبر چلا دی ہے کہ خان صاحب کے" وسیم اکرم پلس"عثمان بزدار کی جگہ نیا وزیر اعلیٰ لانے کے بارے میں سوچ بچار ہو رہی ہے۔ اگرچہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کا کلہ مضبوط بتا یا جا تا ہے لیکن گورننس کے مسائل کی بنا پر کسی مرحلے پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کو اعلیٰ سطح پر تبدیلی لانا پڑے گی۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) اب حکومتی اتحادی نہیں رہی جبکہ چودھری پرویز الٰہی وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں کہ ہم اتحادی ہیں اور رہیں گے لیکن چودھری برادران اور عمران خان کا ایک ہی صفحے پر نہ ہونااب عیاں ہو چکا ہے۔ چودھری برادران یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت سازی کے وقت ان کے سا تھ جو عہد وپیمان کئے گئے تھے ان کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق حال ہی میں ایک بحران پیداہو گیا تھاجب چودھری صاحبان کے ضلع گجرات میں اعلیٰ ترین پولیس افسر کا تبادلہ ان کی منشا کے بغیر کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ دونوں پارٹیوں کے معاہدے میں طے پایا تھا کہ گجرات اور منڈی بہاؤ الدین اضلاع کے حوالے سے تمام فیصلے مسلم لیگ (ق) کی آشیرباد سے ہونا تھے، اس پر بحران اتنا شدید ہواکہ اتوار کو سرکاری دفتر کھلوا کر تبادلہ واپس لیا گیا۔ انہی ذرائع کے مطابق متذکر ہ اضلاع میں مسلم لیگ (ق ) سے شکست کھانے والے امیدواروں کو فنڈز اور دیگر مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ اسی معاہد ے کے تحت مونس الٰہی کو بھی وفاقی کابینہ کا حصہ بنایاجانا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور اب چودھری پرویز الٰہی اس پر اصرار بھی نہیں کررہے۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان چودھری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی سے کچھ الرجک ہیں بلکہ چودھری شجاعت کو بھی مزاج پرسی کے لیے ملاقات تو کجا فون بھی نہ کرکے ناراض کر دیا ہے۔ ویسے بھی شریف برادران کے برعکس چودھری برادران ایک ہیں اور ان کی سیا سی اپروچ یکساں ہے۔ واضح رہے کہ یہ طرزعمل اس امر کے باوجود روارکھا جا رہا ہے کہ اگرمسلم لیگ (ق) تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دے تو یہ حکومت گر سکتی ہے بالخصوص اس تناظر میں جبکہ ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی این پی (مینگل) نیم دروں نیم بروں ہیں۔
خان صاحب نے سوچا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے کہ ان کے اتحادی ناراض رہتے ہیں اور ان کو منانے کے لیے کیا کیا کرنا چا ہیے۔ ان کی ٹیم بھی مسلسل بھا نت بھانت کی بولیاں بول رہی ہے۔ ایک طرف تو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پرہاہاکار مچی ہوئی ہے، سوشل میڈیا پر عدلیہ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور انتہائی معیوب قسم کے القابات سے نوازا جارہا ہے۔ وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری کھلم کھلا نوازشریف کے باہر جانے کے حوالے سے فیصلے پر برہم ہیں۔ خان صاحب کے قریب ترین ساتھی زلفی بخاری جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت چلانے والی ٹرائیکا کے اہم رکن ہیں، ایک ٹویٹ میں فرماتے ہیں کہ کیا برطا نیہ کی حکومت ایک سزا یافتہ مجرم کو اپنے ملک میں داخل ہونے دے گی بالخصوص جب اس نے اپنے عوام کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔ اسی ٹویٹ پر زلفی بخاری کے کزن سید توقیر بخاری نے یہ ٹویٹ کیا ہے کہ میاں نوازشریف کے بیرون ملک جانے پر سوال کرنے سے پہلے زلفی بخاری کے والد جو میرے چچا ہیں دونوں کو جواب دینا ہو گا کہ وہ چودہ برس تک انسا نی سمگلنگ کے الزام میں کیوں بھگوڑے رہے، ان کے مطابق زلفی بخاری خود بھی بر طانوی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔ ان الزامات کی صحت کے بارے میں زلفی بخاری صاحب خود جواب دے سکتے ہیں۔
اب ایک نیا بیانیہ سامنے آیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی نوا زشریف کو بیرون ملک جانے کے لیے شرائط حکومت کی شرائط سے زیا دہ سخت ہیں۔ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاداکبراور اٹارنی جنرل انور منصورنے دعویٰ کیا ہے کہ عدالت نے بانڈ کے بجائے انڈر ٹیکنگ لی ہے جس سے شریف برادران عدالت کے پاس گروی ہو گئے ہیں، اگرایسا ہی ہے تو پھر اس قدر واویلا کیوں؟۔ ہارجیت کی بحث میں پڑنے کے بجائے حکومت کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ عام تاثر تو یہی ہے کہ تحریک انصا ف کی حکومت نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کے معاملے میں مینگنیاں ڈالیں، لیکن ہائیکورٹ نے علیل نوازشریف کوبیرون ملک روانگی کی اجازت دے دی۔ یعنی پی ٹی آ ئی نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی۔ یقیناً خان صاحب بھی سوچ رہے ہونگے کہ حکومت مقتدر اداروں کی بھرپور حمایت ہونے کے باوجود ڈلیوری کیوں نہیں کر پا رہی جیسا کہ چودھری شجاعت نے بھی کہا کہ اصل زور گورننس اور اکانومی کے معاملات درست کرنے پر صرف کرنا چاہیے اورفصلی بیٹروں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے بعض نالائق وزیروں اور ترجمانوں سے جلدازجلد چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔
وزیراعظم دوروز کے آرام کے بعد جب ہزارہ موٹروے کا افتتاح کرنے گئے تو وہ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر اپنی برہمی کو چھپا نہ سکے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان اور شریف برادران پر سخت حملے کئے۔ اس رویے سے صاف ظاہر ہے کہ ہائیکورٹ کے ذریعے نوازشریف کی بیرون ملک جانے کے فیصلے پر وہ سخت برہم ہیں اور انہوں نے طوعاً و کرہاً کسی مجبوری کی بنا پر تسلیم کیا ہے۔ ٹیلیویژن پر ان کا خطاب دیکھنے والے اکثر ناظرین کا بھی یہی تاثر تھا کہ وہ بڑے فروختہ اور شدید غصے میں ہیں۔ ایک سیاسی رہنما بالخصوص وزیر اعظم کو اتنی جلدی ہاتھ پیرنہیں چھوڑدینے چاہئیں اور خندہ پیشانی اور فراخدلی سے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان کے لہجے سے یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ سیاسی طور پر اپوزیشن ان کے اعصاب پر سوار ہو گئی ہے۔
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے بالآخر بھا رتی وزیر اعظم نریندرمودی سے اپنے اور ساتھیوں کے لیے سیاسی پناہ اور مالی مدد مانگ لی ہے۔ واضح رہے کہ الطاف حسین لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت پر ہیں۔ ان پر دہشت گردی کا الزام بھی ہے جس کا اگلے سال جون میں باقاعدہ ٹرائل ہو گا۔ ایم کیو ایم کے رہنما بھارت منتقل ہونا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں ان کے آباؤ اجداد دفن ہیں گویا کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ حالات و واقعا ت نے ثابت کیا ہے کہ مودی کا اصل یار الطاف حسین ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ہی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ایم کیو ایم کا ہوا کھڑا کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے دور میں اس کی آبیاری کی، وہ تو اس جماعت کی قیادت سنبھالنے کے بھی خواہشمند تھے لیکن حالات نے ساتھ نہ دیا اور وہ خود ساختہ جلاوطنی میں چلے گئے۔ الطاف حسین کا یہ تازہ واکھیان پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انھوں نے بھارت کے ساتھ اپنی الفت اور پاکستان سے نفرت کا اظہار کیا ہو۔ لیکن نہ جانے کیوں ماضی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے غداروں میں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا جہاں وہ وقتی ضروریات کی بنا پر زمینی حقائق سے مسلسل چشم پوشی برتتی تھیں۔