Musharraf Ka Trial (2)
Arif Nizami92 News875
پاکستان کے بھگوڑے سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو واپس لانے کے لیے ان کے چاؤ چونچلے اورنازونخرے اٹھائے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے درست کہا ہے کہ سابق صدر ریڑھ کی ہڈی کا بہانہ کر کے بیرون ملک چلے گئے اور باہر جا کر ڈانس کرنے لگے۔ چیف جسٹس نے انھیں یہ بھی ضمانت دی کہ انھیں بھرپور فوجی سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور چک شہزاد میں ان کا سیل شدہ مکان بھی کھول دیا جائے گا۔ اس کے باوجود وہ واپس نہیں آ رہے اور خود عدالتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ انھیں کڑے امتحان میں نہ ڈالا جائے۔ جنرل پرویز مشرف کو بیماری کے بہانے اس وقت کے فوج کے سربراہ راحیل شریف کی کاوشوں اور نوازشریف پردباؤ کے ذریعے بیرون ملک روانہ کیا گیا تھا۔ تب بھی وہ ہٹے کٹے تھے اور اب بھی صحت مند ہیں جس کا تازہ ثبوت وہ تصویر ہے جو حال ہی میں اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ تصویر میں وہ دبئی میں ہاتھ میں سگار پکڑے اور نیلا کوٹ پہنے پاک بھارت کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پائے گئے۔ پرویز مشرف نے کرکٹ میچ اہم بھارتی شخصیات انڈین لیگ کے سربراہ راجیو شکلہ، سی کھنہ اور شیخ ذورانی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جن کے خلا ف انھوں نے حال ہی میں بڑا سخت جان بیان جاری کیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کو خبردار کرتے ہوئے موصوف کا فرمانا ہے کہ اگر بھارتی فوج نے پاکستان کے خلاف کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو کارگل کی معرکہ آرائی کی طرح اس کے دانت کٹھے کر دیئے جائیں گے۔ نجانے جنرل پرویز مشرف کون سی دنیا میں رہتے ہیں۔ کارگل کے بارے میں شیریں مزاری کے سوا اکثر دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بہت بڑا مس ایڈونچر تھا جس میں سینکڑوں پاکستانی فوجیوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ شیریں مزاری نے جو اس وقت سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کی سربراہ تھیں، کارگل کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا The Kargil Conflict، 1999: Separating Fact from Fiction۔ اس میں کئے گئے دعوؤں کو محترمہ اور پرویزمشرف کے سوا کوئی سچ نہیں مانتا۔ دراصل پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزام میں آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس وقت کیا تھا جب 2013ء میں راولپنڈی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ شاید وہ لوگوں کی توجہ کسی اور طرف لگانا چاہتے تھے لیکن یہ مسئلہ میاں نوازشریف کی حکومت کے گلے کا طوق بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف جب بھاری سکیورٹی کے ساتھ خصوصی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تو چک شہزاد سے ان کی گاڑی کا رخ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف موڑ دیا گیا اور وہاں عارضہ قلب کے بہانے وہ دو ماہ تک زیر علاج رہے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جنرل پرویزمشرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے محسن تھے۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیرشریف شہید جو1971ء میں شہید ہو گئے تھے، پرویزمشرف کے کورس میٹ تھے، علاوہ ازیں پاک فوج کے کسی سربراہ کا آج تک ٹرائل نہیں ہوا۔ جب جنرل ایوب خان کے دس سالہ’ عشرہ ترقی، کے ساتھ ہی ان کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو انہوں نے اپنے ہی 1962ء کے آئین جسے لائلپور کا گھنٹہ گھر کہا جاتا تھا کیونکہ اس کی ہر شق کی تان ایوب خان کے اقتدار کو دوام بخشنے پر ٹوٹتی تھی پر عمل کرنے کے بجائے اقتدار ایک اور جرنیل، جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا اور اس طرح خودکو کسی قسم کے احتساب کے خطرے سے محفوظ کر لیا۔ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان دولخت ہو گیا لیکن بھٹو سمیت کسی مائی کے لال کو حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو چھیڑنے کی جرات نہ ہوئی۔ یحییٰ خان کا اپنے گھر پر ہی انتقال ہوا۔ اقتدار کے حریص جنرل ضیاء الحق جنہوں نے گیارہ سال تک اسلام کا نام لے کر قوم پر سواری کی، سی 130جہاز کے پراسرار حادثے میں جاں بحق ہوئے، اس تناظر میں جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل کیونکر ہوگا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف، جنرل پرویز مشرف کے اس لحاظ سے محسن تھے کہ انھوں نے ایک نسبتاً جونیئر جرنیل کو فوج کا سربراہ لگایا تھا کہ اردو سپیکنگ ہونے کے ناتے ان کی فوج میں مضبوط لابی نہیں ہو گی۔ میاں صاحب یہ بات بھول گئے تھے کہ پاک فوج تاریخی طور پر اپنے سربراہ کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے۔ وہ غالبا ً سمجھتے تھے کہ جس انداز سے انھوں نے پرویز مشرف کے پیشرو جنرل جہانگیرکرامت سے چند ماہ پہلے استعفیٰ لے لیا تھا، مشرف ان کے تابع مہمل بن کر رہیں گے لیکن حالات کچھ اور ہی بن گئے، پرویزمشرف اپنی ہٹ کے پکے جنرل تھے۔ فروری 1999ء میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور یاترا کے بعد درپردہ کارگل مس ایڈونچر کی شروعات ہو چکی تھیں، پرویز مشرف نے واجپائی کی آمد پر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ بعدازاں میاں نواز شریف نے 5 جولائی 1999ء کو چھٹی کے روز امریکی صدر بل کلنٹن کے گھٹنے پکڑ کر درخواست کی کہ کارگل پر سیز فائز کرا دیں۔ اس موقع پر مبینہ طور پر میاں صاحب نے کہا خدارا اس حوالے سے اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی کر دیا جائے ورنہ وطن واپس جاتے ہی ان کے اقتدار کو ختم کر دیا جائے گا۔ بعدازاں انھوں نے سویلین حکومت کے لیے امریکی سپورٹ حاصل کرنے کی خاطر برادرخورد شہبازشریف کو بھی واشنگٹن روانہ کیا لیکن پرویزمشرف سخت برہم تھے، ان کے مطابق کارگل کی جیتی ہوئی جنگ نوازشریف نے کلنٹن کے آ گے سجدہ سہو کر کے ہار دی، حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس تھے۔ اس وقت کی فوجی قیادت بھارت کے شدید ردعمل اور بھرپور حکمت عملی کا ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ اب تو خیر یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ پرویزمشرف نے بالآخر 12اکتوبر 1999ء کو بھاری مینڈیٹ سے سرشار نوازشریف کے اقتدار کو ختم کر دیا، انھیں نہ صرف پابند سلاسل کیا بلکہ جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اصغر خان کیس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے لانے کیلئے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور کچھ دیگر افراد جن میں بریگیڈئیر (ر) حمید سعید اختر اور لیفٹیننٹ جنرل(ر) رفعت شامل ہیں کے خلاف کارروائی ایک خصوصی عدالت(انکوائری کمیٹی) کرے گی، مذکورہ افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے 1990ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے مبینہ طور پر آئی جے آئی کی تشکیل کے لیے خطیر رقوم تقسیم کی تھیں۔ اس خصوصی عدالت کی سربراہی لیفٹیننٹ جنرل کریں گے اور یہ کارروائی ان کیمرہ ہو گی۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ متعلقہ افراد کے خلاف عام اعلیٰ عدالتیں پبلک ٹرائل کے تحت کارروائی کیونکر نہیں کر سکتیں۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں ان کے وکیل اور ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم موجودہ حکومت میں وزیر قانون ہیں۔ اس طرح ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کی ساری توجہ شریف برادران کی طرف ہے۔ مشرف کا ٹرائل ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔