Muslim League Shahbaz?
Arif Nizami92 News955
’پاکستان ٹوڈے، کے ایک کہنہ مشق رپورٹر نے اپنے تجزیئے میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا مسلم لیگ (شہباز) وجود میں آگئی ہے؟ ۔ شاید ان کا یہ سوال اس بنیاد پر تھا کہ الیکشن کمیشن میں ایک درخواست میں یہ اعتراض اٹھا دیا گیا ہے کہ ایک نااہل شخص کے نام پر کوئی پارٹی کس طرح رجسٹرڈ ہو سکتی ہے کیونکہ میاں نوازشریف ’پاناما گیٹ، میں تاحیات نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں لہٰذا وہ پارٹی کے سربراہ کیسے رہ سکتے ہیں؟ ۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ اس بنا پر مسلم لیگ (ن) کو ڈی نوٹی فائی کر دیا جائے۔ اس طرح کی پٹیشننر انتخابی ماحول میں ہوتی رہتی ہیں لیکن موجودہ مخصوص ماحول میں اس قسم کے ہتھکنڈوں کو کامیابی سے استعمال بھی کیا جا رہا ہے جسے ناقدین زیر عتاب مسلم لیگ (ن)کے خلاف حصار تنگ کرنے سے ہی تعبیر کریں گے۔ نیب میں مسلم لیگ (ن) کے عمائدین کی طلبی کو اسی حکمت عملی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی ٹویٹ کیا ہے کہ نااہلیاں (ن) لیگ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جو مرضی کر لیں پولنگ کے دن عوام کو نہیں روکا جا سکتا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو صاف پانی کیس کے بعد اب پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کے کیس میں بھی نیب نے پولیس کے ذریعے5جولائی کو حاضر ہونے کا کہا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ان کے آبائی حلقے سے جس انداز سے اور جن مشکوک بنیادوں پر الیکشن ٹریبونل نے تاحیات نااہل قرار دیا تھا اس سے بھی انتقامی کارروائیوں کی بو آتی۔ متذکرہ جج نے فیصلے میں شاہد خاقان عباسی کا زنگ آلود چہرہ قرار دے کر رہی سہی کسر بھی نکال دی تھی لیکن لاہور ہائیکورٹ نے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ہے اس پر ایک اور شخص اب اسلام آباد ہائیکورٹ چلا گیا ہے۔ سب سے دلچسپ بات تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر اور عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ باقاعدہ مسلم لیگ (ن) کے رکن ہیں اور ان کا بیٹا(ن) لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہا ہے لہٰذا انھیں برطرف کیا جائے۔ اس سے پہلے عمران خان خیبر پختونخوا کے گورنر کے حوالے سے بھی اس قسم کا مطالبہ داغ چکے ہیں۔ اس انوکھی منطق پر 2013ء کے انتخاباتمیں بھی عمل کیا جاتا تو آصف زرداری کو صدر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھاکیونکہ وہ نہ صرف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین تھے بلکہ عام انتخابات میں ٹکٹ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے انہی کے نام پر تقسیم کیے تھے جس میں فریال تالپور بھی شامل تھیں لیکن کسی کو اس قسم کا مطالبہ کرنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ آج کل کے ماحول میں جس میں عمران خان اور ان کی جماعت سب کچھ ڈکٹیٹ کر رہی ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود شریف برادران اور ان کی جماعت کو نگران حکومت، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور نیب کیس سے بھی ریلیف نہیں مل رہا اور پارٹی کے قریبا ً ایک سو ارکان دھونس اور تحریص کے ذریعے توڑے جا چکے ہیں۔ میاں نوازشریف اور فوجی قیادت کے درمیان بھی تال میل نہ ہونا کوئی نئی خبر نہیں ہے۔ اس تناظر میں یقینا تحریک انصاف کے لیے اگلا الیکشن جیتنے کے لیے ماحول جتنا آج سازگار ہے پہلے کبھی نہ تھا اور اس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ عمران خان تو پہلے ہی وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں، لیکن باقی عہدوں بالخصوص پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے جس طرح پہلے ہی کھینچا تانی ہو رہی ہے پی ٹی آئی اور ان کے" سہولت کار" پوری طرح مطمئن نہیں ہیں کہ کس طرح مسلم لیگ (ن) کو عام انتخابات میں فیصلہ کن شکست دی جا سکے۔ اسی بنا پر اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ میاں نوازشریف شاکی ہیں کہ پہلے تو ان کے امیدواروں پر پارٹی چھوڑنے کے لیے دھونس اور ترغیب کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے دباؤ ڈالا گیا اور ٹکٹ ملنے کے بعد بھی انھیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہو رہا ہے تو عام انتخابات کی کریڈیبلٹی پر مزید دھبہ لگ جائے گا۔ ویسے بھی جس انداز سے تحریک انصا ف کی مدد کی جا رہی ہے ایسے لگتا ہے کہ پولنگ کے روز سب معاملات ٹھیک ہوں گے چونکہ مسلم لیگ کا مکو پہلے ہی ٹھپہ جا چکا ہو گا۔ اگر کوئی قوتیں ایسا کر رہی ہے تو انھیں قدرے توقف سے کام لینا چاہیے اس قسم کی پولٹیکل انجینئرنگ وطن عزیز میں جمہوریت کی نشوونما اور بقا کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گی۔ جس سے قومی مفاد کی ہر وقت دہائی دینے والوں کو بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ دوسری طرف میاں شہبازشریف جو اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بڑے بھائی سے ہمیشہ الگ لائن لیتے رہے ہیں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں برملا طور پر کہا ہے کہ وہ محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ جرنیلوں کے ساتھ معیشت اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر مشاورت ہونی چاہیے۔ برادر خورد نے بطور صدر مسلم لیگ (ن) نئے عمرانی معاہد ے کی بھی بات کی ہے جس کے تحت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل جل کر معاملات طے کرنے چاہئیں۔ شہباز شریف کی یہ باتیں اصولی طور پر درست ہیں لیکن وہ جس عمرانی معاہدے کا ذکر کر رہے ہیں وہ تو عملی طور پر پہلے ہی موجود ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی چھتری تلے اور غیر رسمی طور پر ہونے والی مشاورت کے ذریعے قومی سلامتی، خارجہ حکمت عملی اور معیشت کے بارے میں فوجی قیادتوں سے مشاورت ایک مسلسل عمل ہے۔ شہباز شریف نے بڑے میاں صاحب سے مجوزہ عمرانی معاہدے کے سیاق وسباق کے حوالے سے ضرور بات کی ہو گی اور نہیں کی تو کر لینی چاہیے کیونکہ نوازشریف کو گزشتہ بیس برسوں میں فوجی اور سیاسی قیادتوں کے درمیان تعلقات کار اور اس ضمن میں پید اہونے والی پیچیدگیوں کا بخوبی علم ہے اور وہ اس بھٹی سے کئی بار گزر چکے ہیں۔ شہبازشریف کے لیے مسلم لیگ (شہباز) بنانے کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پارٹی میں ان کے بجائے رہبر کا چورن بکتا ہے۔ نوازشریف کی جارحانہ بیٹنگ مسلم لیگ (ن) کے بارونق جلسوں کا سبب ہے۔ شہبازشریف اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے جتنی بھی سر توڑ بازی لگا لیں سوال یہی پیدا ہو گا کہ آیا میاں نوازشریف کے بغیر بھی ان کی کوئی سیاست ہے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کراچی سے کیا لیکن وہاں محرکات پر غورکیے بغیر کچھ ایسی باتیں کہہ دیں جس سے انھیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ شہری سندھ کے گڑھ کراچی جا کر اردو زبان بولنے والے اہل زبان کو پان خورکہنا کہاں کی دانشمندانہ سیاسی حکمت عملی کہلائے گی۔ موجودہ انتخابی مہم شہبازشریف کی قیادت کی صلاحیتوں کا پہلا امتحان ہے، دعا ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہوں۔