اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والا تحریک انصاف کی کورکمیٹی کا اجلاس "شام غریباں " کا سماں پیش کر رہا تھا۔ ٹی وی چینلز پر دکھا ئی گئی اجلاس کی فوٹیج میں اکثر شرکا کے چہرے کچھ اترے اترے سے نظر آ رہے تھے۔ ایک طرف تو یہ نوحہ پڑھا جا رہا تھاکہ "ہٹاکٹا " نواز شریف ہمیں جُل دے کر لندن نکل گیا جبکہ دوسری طرف پارٹی قیادت پنجاب میں ناقص کارکردگی کا رونا رو رہی تھی۔ عمومی طور پر حکومتوں کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ اپنی کو تاہیوں کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ میڈیا پر ڈال دو۔ اجلاس کے بعد معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی میڈیا کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ ٹی وی چینلز پر تجزیہ کاروں اور اخبارات نے ایسا تاثر پیدا کیا جیسے میاں نوازشریف کی حالت نزعی ہے اور ان کے پلیٹ لیٹس گرکر دو ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ترجمان کیوں بھول جاتے ہیں کہ میڈیا تو صوبائی وزیر صحت اور حکومت کے اپنے مقرر کردہ میڈیکل بورڈ زکی جا ری کردہ رپورٹس پر مبنی خبریں چلا رہا تھا۔ اس پر مستزادیہ کہ وزیراعظم نے اپنے ذاتی اطمینان کے لیے کہ کہیں انھیں دھوکے میں تو نہیں رکھا جا رہا، شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان جو ان کے معتمد خصوصی بھی ہیں، کے ذمے لگایا کہ وہ نوازشریف اور ان کی رپورٹس کا معائنہ کر کے حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں۔ اسی بنیاد پر عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ نے ساڑھے سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈکے عوض نوازشریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ محض اس لیے کہ نوازشریف سٹریچر پر جہاز تک کیوں نہیں گئے، کی بنا پر یہ کہنا نوازشریف ہٹے کٹے ہیں، درست نہیں ہو گا۔ میاں صاحب شدید علیل ضرور ہیں لیکن بظاہر ان کی کیفیت نزعی نظر نہیں آتی، اس تناظر میں میڈیا پر جو غصہ اتارا جا رہا ہے وہ موجودہ حکومت کے میڈیا دشمن رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اللہ خیر کرے، اب پتہ نہیں کہ صحافت پر کیا نئی قدغن لگائی جائے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو جنہیں عمران خان نے تقرری کے وقت اپنا "وسیم اکرم پلس" کہا تھا، کے چل چلاؤکی کہانیاں ان کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی شروع ہو گئی تھیں۔ اب کور کمیٹی نے حکومت پنجاب کی ناقص کارکردگی کی شکایات کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں وسیع پیمانے پر اعلیٰ سطح پرانتظامی تبدیلیاں لائی جائیں۔ عثمان بزدار ایک سیاسی نوآموز لیکن مرنجان مرنج شخصیت ہیں، بقول خود وہ تونسہ میں تحصیل ناظم رہے ہیں لیکن ان کا کلّہ مضبوط ہے۔ وہ خان فیملی کے قریبی جمیل گجر کے یارغار ہیں، یہی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو کڑی تنقید کرتے تھے کہ ان کی مخالف سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست چل رہی ہے۔ نوازشریف نے اپنے بھائی شہبازشریف کو وزیراعلیٰ مقرر کر دیا اور چودھری شجاعت حسین نے اپنے کزن پرویزالٰہی کو۔ لیکن موجودہ وزیراعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ بھی کسی پارٹی اجلاس میں نہیں ہوا تھا۔ اب جبکہ وہ وزیراعلیٰ ہیں ان کو پنجاب اسمبلی میں کمزور عددی اکثریت کی بنا پر ہٹانا آسان نہیں ہے۔ چودھری برادران کا فارمولہ سیدھا سادا ہے کہ اگر ہم خود نہیں تو ایک نسبتاً سیاسی طور پر کمزور یا نابلد شخص ہی وزیراعلیٰ ہو۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ چودھری برادران نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہمایوں اختر خان کو وزیراعظم بنانے کی تجویز کو ویٹو کر دیا تھا، انہیں غیر پنجابی ظفر اللہ جمالی اور بعدازاں سیاسی طور پر یتیم ٹیکنوکریٹ شوکت عزیز قبول تھے۔ جہاں تک پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا تعلق ہے یہ کڑوی گولی پی ٹی آئی کے لیے نگلنا مشکل ہو گا بالخصوص اب جبکہ چودھری برادران کی شریف برادران کے ساتھ لائن سیدھی ہوچکی ہے۔ وزارت اعلیٰ کی خاطر چودھری برادران اپنی پارٹی پی ٹی آئی میں ضم کرنے سے تو رہے۔ جہاں تک پنجاب میں ناقص کارکردگی کا تعلق ہے تو وفاق اور دوسرے صوبوں میں کون سے کامیابی کے جھنڈے گاڑے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں نامکمل پشاور بی آر ٹی تحریک انصاف حکومت کی خراب گورننس کی علامت بن چکی ہے۔ وفاق میں گورننس کے حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود عام آدمی کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے اور کاروبار ٹھپ ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی صوبائی حکومتوں نے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ ا س کی وجہ نیب کی پھیلائی ہوئی دہشت بتا ئی جاتی ہے لیکن اس ضمن میں حکومتوں کو محض نیب اور اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے۔
فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت خاصی مضطرب نظرآتی ہے، اس ضمن میں وزیراعظم نے بابر اعوان کو جو آجکل ان کی مونچھ کے بال بنے ہوئے ہیں خصوصی ٹاسک دیا ہے۔ یہ استدلال پیش کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے کیس کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ جانبداری کا ثبوت ہے۔ اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا خان جن کی میعاد 6 دسمبر کو ختم ہو رہی ہے پر جانبداری کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان فرما رہی ہیں کہ اپوزیشن موجودہ چیف الیکشن کمشنر سے ہی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرانے پر اصرار کیوں کر رہی ہے، اپوزیشن نے اسی الیکشن کمیشن پر دھاندلی زدہ انتخابات کرانے کا الزام لگایا تھا۔ اپوزیشن کے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ ایک جماعت کو ٹارگٹ کر کے الیکشن کمیشن کا وقار خراب کیا جا رہا ہے، فارن فنڈنگ کے حوالے سے دیگر جماعتوں کے خلاف تحریک انصاف کی درخواستوں کو یکجا کر کے تحقیقات کرائی جائے۔ چیف الیکشن کمشنر اور اپوزیشن کی ملی بھگت کا الزام لگانے اور حکومت کی بوکھلاہٹ سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ پی ٹی آئی جیسی پوتر جماعت جو باقی سب کو چور چور کہنے میں ذرہ برابر رعایت نہیں کرتی خود حساب دینے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔ جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگ کا بھی کیس چلنا چاہیے اپنی جگہ بجا لیکن یہ تو وہی دلیل ہے جو میاں نواز شریف اپنے خلاف "پانا ما گیٹ" کے حوالے سے دیتے تھے کہ پاناما سکینڈل میں آنے والے دیگر افراد کے کیس بھی چلنے چاہئیں لہٰذا چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کی نیت پر شک کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کو تواس انکوائری کا خیر مقدم کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔