92 نیوزکی سالگرہ پر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ یہ دعوے کہ معاملات روبہ اصلاح ہیں اور جلد صلح ہو جائے گی، چودھری صاحب کی خاصی محتاط گفتگوکے باوجود یہی اندازہ ہوا معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور برف ہنوز نہیں پگھلی۔ چودھری صاحب نے اپنا موقف دہرایا کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس پر ابھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ پرویز خٹک، جہانگیر ترین اور ارباب شہزاد پر مشتمل کمیٹی نے اتحاد کے وقت ہونے والے تحریری معاہدے کی روشنی میں معاملات طے کر لئے تھے۔ اس ضمن میں عمران خان کے معتمد خصوصی جہانگیر ترین کا کلیدی رول تھا۔ جیسے ہی وہ چند روز بیرون ملک چھٹی پر گئے کمیٹی در کمیٹی بنا دی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کمیٹی ایسی شخصیات پر مشتمل تھی جن میں سے گورنر پنجاب چودھری سرور کووہ اپنا دوست نہیں سمجھتے اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات تھے۔ اسی بنا پر جب شفقت محمود چودھری برادران سے ملنے ان کی اقامت گاہ پر گئے تو انہیں بطور مہمان چودھری صاحب کی روایتی میزبانی تو ملی لیکن پرویز الٰہی نے کہا آپ کا اپنا گھر ہے سو بار آئیں بہرحال ہم اس کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔ چودھری شجاعت حسین عمرہ کیلئے سعودی عرب جا چکے ہیں، روانگی سے پہلے میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے وزیر اعظم کو مشور دیا کہ اتحادیوں پر اعتماد کریں اور فسادیوں سے دور رہیں۔ انٹرویو کے دوران میں نے پرویز الٰہی سے اصرار کیا کہ یہ فسادی کون ہیں تو وہ یہ کہہ کر طرح دے گئے کہ ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ میں، میں اور میں، ہے اور بالآخر ان پر انا غالب آ جاتی ہے۔ میرے استفسار پر کہ تحریک انصاف کے لوگوں کو اعتراض ہے کہ چار اضلاع کی ایڈمنسٹریشن ق لیگ کے ارکان اسمبلی کو دیں گے تو وہاں پی ٹی آئی کے لوگوں کا استحقاق مجروح ہو گا۔ پرویز الٰہی نے برجستہ کہا کہ پی ٹی آئی والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے نزدیک توتحریری معاہدہ شراکت اقتدار کا معاہدہ ہے۔
چینل کی سالگرہ پر ہی گورنر چودھری محمد سرور، وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکیساتھ اکٹھے آن ائیر گفتگو کا موقع ملا۔ چودھری سرور نے تو اصولی بات کہہ دی معاہدے پر عمل ہونا چاہئے اور ہو گا جبکہ عثمان بزدار کا کہنا تھا معاملات جلدی طے ہو جائیں گے لیکن اس بات کا پتہ لگانا ضروری ہے اس فساد کی جڑ کون اور کیا ہے؟ میری معلومات کے مطابق چودھری برادران کسی حد تک پی ٹی آئی کی لیڈرشپ میں شدید گروپ بندی اور محاذ آرائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جہانگیر ترین چونکہ خان صاحب کے قریب ترین تصور کئے جاتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف خان صاحب کے قریبی حلقوں میں لابی موجود ہے جو موقع ملتے ہی ریشہ دوانیاں کرتی رہتی ہے۔ اسی لابی نے آٹے اور چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا ملبہ بھی ترین صاحب پر ڈالنے کی کوشش کی۔ یقیناً جہانگیر ترین چینی بنانے والے صنعتکاروں میں صف اول میں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے دانستہ طور پر ایسی منصوبہ بندی کی جس سے چینی کی قیمت بڑھے اور انہیں فائدہ ہو، گندم اور آٹے کے بحران سے تو ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چودھری برادران اور ایم کیو ایم کیساتھ معاہدے کرنے کا سارا ملبہ ان کے سر ڈال دیا گیا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے ہاتھ کٹوا کر سب کچھ اتحادیوں کے حوالے کر دیا۔ علاوہ ازیں معیشت کی مخدوش صورتحال کے حوالے سے بھی ترین صاحب کو موردالزام ٹھہرایا گیا کہ حفیظ شیخ، شبر زیدی اور رضا باقر پر مشتمل معاشی ٹیم بنانے میں ترین صاحب کا کلیدی رول تھا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ فعال مبینہ طور پر اسد عمر ہیں جنہیں یہ گلہ ہے کہ ان کی وزارت خزانہ سے چھٹی کرانے میں ترین صاحب کا کردار تھا۔ حالانکہ حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنانے کا خان صاحب کا اپنا فیصلہ تھا۔ انہوں نے اس معاملے نہ صرف آرمی چیف سے مشاورت کی بلکہ ان کا انٹرویو بھی کرایا۔ اب شنید یہ ہے کہ اسد عمر دوبارہ اِن ہونے کے بعد اکانومی اور دیگر معاملات پر اپنے ڈھنگ کی بریفنگ دیتے رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں ترین صاحب حلیفوں کیساتھ مذاکراتی عمل سے فی الحال عنقا ہوگئے ہیں۔
حال ہی میں اسد عمر نے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کی جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔ یہ بات خاصی تشویشناک ہے کہ خان صاحب بھی محلاتی سازشوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ویسے مجھے کسی نے اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا ہے کہ چودھری برادران کو کہا گیا ہے چند روز میڈیا پر بیانات سے گریز کریں تمام معاملات جلد ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اگر کوئی تیسری قوت معاملات ٹھیک کرائے تو کیا اس سے بہتر نہیں کہ خان صاحب اپوزیشن اور دیگر سیاستدانوں کو خود انگیج کریں اور معاملات ٹھیک کریں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ جب "اوپر" سے حکم ہو گا چودھری برادران اسی تنخواہ پر کام کریں گے لیکن ٹھوس اور دیرپا اتحاد وہی ہوتے ہیں جو سیاستدان آپس میں کریں۔ ویسے بھیسو جوتے اور سو پیاز، کھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ۔
یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کے دوران آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے اس مشورے کو یکسر رد کر دیا کہ کشمیر کاز کی خاطر ہی سہی وہ اپوزیشن سے شدید محاذ آرائی ترک کر کے ان کو آن بورڈ لیں۔ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ مفاہمت اور قومی اتفاق رائے کے بغیر دشمن کیساتھ کیسے لڑا جا سکتا ہے، شاید راجہ صاحب کا اشارہ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف اور وہاں کی حکمران جماعت کے درمیان سرپٹھول کی طرف ہی تھالیکن خان صاحب جو محاذ آرائی کو فروغ دینے کے چیمپئن قرار دئیے جا سکتے ہیں نے انہیں ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں کرپٹ لوگوں سے سلسلہ جنبانی آگے نہیں بڑھا سکتابلکہ میں انہیں کیفرکردار تک پہنچاؤں گا۔ بدقسمتی سے خان صاحب کا رول ماڈل چین میں چار پانچ سو کرپٹ لوگوں کو پابند سلاسل کردینے یا ان کے معاون احتساب شہزاد اکبر کے مطابق انہیں ہوٹل میں بند کر کے وصولیاں کرنے تک محدود ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہونے کے علاوہ سندھ جیسے حساس صوبے میں برسراقتدار بھی ہے۔ مزید برآں کرپشن کے جو کیسز ان دونوں پارٹیوں کی قیادت کیخلاف بنائے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا جبکہ پی ٹی آئی کے کرپٹ عناصر دندناتے پھر رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کو موجودہ صورتحال کا قصوروار ٹھہرانے کے بعد اب ایک نئی گردان شروع کر دی گئی ہے کہ پاکستان میں مافیاز کا راج ہے۔ اگر ایسا ہے تو ان کی بیخ کنی میں مسلسل ناکامی حکومت کی کوتاہی ہی قرار دی جائیگی لیکن یہاں تو یہ طرفہ تماشا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی تو اپنی جگہ پر نام نہاد حلیفوں اور اتحادیوں کے ناک میں بھی دم کر رکھا ہے۔