Nae Soobay, Pandora Box
Arif Nizami92 News667
لگتا ہے کہ سرائیکی صوبہ بنانے کے معاملے پر حکومت کچھ مشکل میں پھنس گئی ہے۔ یہ صوبہ پی ٹی آئی کا انتخابی نعرہ بھی تھا، اس حوالے سے جنوبی صوبہ محاذکے نام سے ایک تنظیم بھی کھڑی کی گئی جس کے سربراہ مخدوم خسرو بختیار ہیں۔ اس میں خسروبختیار کے علاوہ طارق بشیرچیمہ، طاہربشیرچیمہ، رانا قاسم نون، مخدوم ہاشم جواں بخت، سردار نصراللہ دریشک، اکر م داد واہلہ، سردار قیصر عباس، قیصر مگسی، سہیل کھگہ، پیر جمیل شاہ اور دیگر رہنما شامل تھے۔ طاہر بشیر چیمہ جو جنوبی صوبہ محاذ کے سیکرٹری تھے نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے 40 ارکان قومی اسمبلی محاذ میں شریک ہونے کے لیے تیار ہیں۔ سرائیکی صوبے کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے، ہر بار اسے سیاسی سٹنٹ کے طور پر اور سودے بازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب عام انتخابات سے قبل سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی، اس میں جنوبی صوبہ محاذ کے مدارالمہام خسرو بختیار پیش پیش تھے۔ لیکن چند ہفتے بعد ہی عمران خان کے اس وعدے پر کہ جنوبی صوبہ بنے گا، اس محاذ کو پی ٹی آئی میں ضم کر دیا گیا۔ اس سے پہلے خسرو بختیار اپنے ساتھیوں سمیت ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ جنوبی پنجاب کے بچوں کے لیے سرائیکی صوبہ بننا ضروری ہے اور اس معاملے میں جلد از جلد نئی حد بندی ہونی چاہیے لیکن ہوا یہ کہ سرائیکی صوبہ کی کاٹھی پر سوار ہو کر خسروبختیار نے اپنی من پسند پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت لے لی اور برادر خورد پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت اب خان صاحب کی آنکھ کا تارا بن چکے ہیں۔ خسرو بختیار غالباً جوش خطابت میں یہ بھی کہہ گئے تھے کہ جب نئی اسمبلیاں حلف اٹھائیں گی تو پہلے اجلاس میں ہی نئے صوبے کے لیے قانون سازی کرلی جائے گی۔ لیکن رات گئی بات گئی کے مترادف ہوا اس کے بالکل الٹ۔ خسرو بختیار وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اب سرائیکی صوبے کا نام بھی نہیں لیتے جبکہ چودھری طارق بشیرچیمہ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے وزیر بن گئے۔ انھوں نے اب بہاولپور صوبے کا مطالبہ داغ دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا بھی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے سلسلے میں جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ اب صوبے کے بجائے ملتان میں جنوبی صوبہ سیکر ٹریٹ بنانے کی بات ہو رہی ہے اور اس ضمن میں ٹویٹ بھی واپس لے لی گئی ہے۔ سرائیکی صوبہ بنانے کے مطالبے میں پہلے پیش پیش رہنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اب فرماتے ہیں اس معاملے میں پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے بارے میں حکومتی جماعت کا لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لینا قابل فہم ہے۔ اگر ایسا صوبہ جلد تشکیل پا گیا تو باقی ماندہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت ہو جائے گی اور تحریک انصاف جنوبی صوبے تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اسی بنا پر اپوزیشن جسے تحریک انصاف کی مجبوریوں اور محدود ترجیحات کا بخوبی علم ہے کہہ رہی ہے کہ جنوبی صوبہ بلاتاخیر بنائیں ہم اس کی حمایت کریں گے۔ شہباز شریف تواس حد تک چلے گئے ہیں کہ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حق میں پرائیویٹ بل پیش کریں گے۔ اپوزیشن حکومت کی اس تجویز کے حق میں نہیں ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے کیونکہ اس کے مطابق کمیٹی میں کافی ہوم ورک ہو چکا اور بل بھی پاس ہو چکا ہے۔ شہباز شریف نے بہاولپور صوبے کی حمایت کی ہے۔ اس سے پہلے شہباز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ محض تین اضلاع پر مشتمل صوبہ قابل عمل نہیں ہے۔ دوسری طرف اس معاملے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جنوبی صوبے کے فوری قیام کی حمایت کردی اور بتایا کہ اس حوالے سے پی پی نے سینیٹ میں بل پیش کیا تھا جو قومی اسمبلی سے منظور نہ ہو سکا۔ ویسے بھی نیا صوبہ بنانا خالہ جی کا گھر نہیں۔ بعض ارکان اسمبلی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ صوبے بنانے کی بات دور تک ہی نہیں جائے گی بلکہ نیا پنڈورابا کس بھی کھل جائے گا۔ متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد صالح نے تو ا س حد تک متنبہ کیا کہ نئے صوبے کی بات کی گئی تو بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ جائیں گی۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ڈیرہ غازی خان جیسے علاقے جو بلوچستان کا حصہ ہیں، انھیں واپس لیا جائے گا۔ اسی طرح ہزارہ صو بے کا مطالبہ دوبارہ کیا جا رہا ہے۔ ادھر شہری اور دیہی سندھ کے الگ صوبے بنانے کے مطالبے کو کس طر ح روکا جا سکے گا۔ الطاف حسین جب ماضی میں پاکستان کی بات کرتا تھا توجناح پور صوبے کے لیے بھی رطب اللسان تھا۔ افسوسناک بات ہے کہ سیاستدان اپنی وقتی مصلحتوں کے لیے نتائج کی پروا کیے بغیر ایسے مطالبے داغتے رہتے ہیں۔ اگر ان کے صوبے بنانے کے مطالبات کومان لیا جائے تو یقینا پنجاب کے کئی حصے بخرے کرنے کے دعویدار سامنے آجائیں گے۔ اسی طرح مجوزہ ہزارہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نئے مطالبات کو جنم دے گا۔ وہاں تو پہلے ہی پختون تحفظ محاذ جیسی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں علیحدگی پسندوں کی شورش سے کو ن واقف نہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ اس معاملے پر سیاست گری نہ کی جائے اور احتیاط سے کام لیا جائے کیونکہ اگر ایک دفعہ صوبہ بنانے کا معاملہ شروع ہو گیا تو نہ جانے کہاں ختم ہو گا؟ ۔ بہتر ہو گا یہ پنڈوراباکس نہ ہی کھولا جائے۔