Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Nobel Inaam?

Nobel Inaam?

وزیراعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ وہ خود کو امن کے نوبل انعام کا اہل نہیں سمجھتے، اس کا اہل وہ شخص ہو گا جو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرے گا اور برصغیر میں امن وانسانی ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔ انھوں نے یہ بات ایک ٹویٹ میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مہم کے جواب میں کہی ہے جس میں انہیں امن کا نوبل انعام دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ان کے اپنے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس مطالبے کے حق میں قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ پی ٹی آئی کی سیمابیہ طاہر نے بھی پنجاب اسمبلی میں ایسی قرارداد جمع کرائی ہے۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی ذات میں انجمن ہیں، کبھی وہ چمڑے کی جیکٹ پہن کرہیوی بائیک پر کراچی میں چینی قونصل خانے پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنانے کے بعد کریڈٹ لینے پہنچ جاتے ہیں اور کبھی حال ہی میں آزاد کشمیر میں گرائے جانے والے بھارتی مگ 21طیارے کے ملبے پر ٹائٹ جینز پہنے پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے تصویر کھنچواتے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے قائد کی خوشامد کی انتہا کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کیے جنہیں یقینا عمران خان خود بھی ناپسند کرتے ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے بھارت کے ساتھ حالیہ ’منی وار، میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، اس کی اندرون اور بیرون ملک اور خود بھارت کے اندر سنجیدہ حلقوں کی طرف سے تعریف کی جا رہی ہے لیکن اس کو جواز بنا کے خوشامدیوں کے ٹولے کے درمیان مقابلے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے کہ کون زیادہ نمبر ٹانکتا ہے۔ بدقسمتی سے خوشامد کرنا ہمارا قومی وتیرہ بن چکا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف خود اس کلچرکا شکار تھے اور ان کا یہ حال تھا کہ فرمائشی خوشامد کروانا پسند کرتے تھے اور یہی ان کے زوال کا باعث بنا۔ مبارک سلامت کی قوالی کس کو پسند نہیں ہوتی اور یہ انسان کی فطرت بھی ہے لیکن اس سے بچنا ہی لیڈر شپ کا امتحان ہوتا ہے۔ عمران خان کو اگر نوبل انعام دے دیا جائے تو یقینا یہ خود ان سے زیادہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہو گا لیکن موجودہ صورتحال میں ایسا ہونے کے امکانات معدوم ہیں جیسا کہ وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ سب سے پہلے تو اس امر کے باوجود کہ بھارت پاکستان کو سبق سکھانے پر تلا ہوا تھا پاکستان نے طبل جنگ بجانے کے بجائے امن، بھائی چارے اور مذاکرات کی بات کی، دوسری طرف یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستانی فوج بالخصوص پاک فضائیہ نے بہادری اور پروفیشنل ازم کے ذریعے دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے۔ امریکی اخبار’ نیویارک ٹا ئمز، کی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی جنگ جس میں پاکستان ائیر فورس نے ایک بھارتی مگ 21طیارے کو اپنی سرزمین پر مار گرایا اور پائلٹ کو زندہ گرفتار کر لیا کے نتیجے میں ایک ایسی فوج جو بھارت کے مقابلے میں قریبا ً آدھی ہے اور جس کا بجٹ بھارت کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے سے منہ کی کھانا پڑی۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ امریکہ چین کے خلاف بھارت کو سٹرٹیجک اتحادی بنائے بیٹھا ہے لیکن اس فوج کے پاس صرف دس دن کی لڑائی کے لیے گولہ بارود ہے اور بھارتی فوج کا 68فیصد سامان حرب فرسودہ ہو چکا ہے۔ خود بھارت میں اس بات پر بڑی لے دے ہو رہی ہے کہ نریندر مودی نے پاکستان کے ساتھ پنگا لے کر خود اپنے دانت کھٹے کروا لیے ہیں۔ لیکن اس کمینے دشمن سے نبٹنے کے لیے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ نریندر مودی کی جس طرح جگ ہنسائی ہوئی ہے وہ اس کا ضرور بدلہ لے گا جس کے لیے ہم تیار تو ہیں لیکن کسی قسم کی جنگ پاکستان کے دوررس مفاد میں بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ عمران خان نے بالا کوٹ پر بھارت کی ائیر فورس کے بزدلانہ حملے کے بعد کہا تھا کہ بھارت کو اب بھی کہتا ہوں کہ آئیں مذاکرات کرتے ہیں، جنگ چھڑ گئی تو اسے ختم کرنا نہ میرے ہاتھ میں ہو گا نہ مودی کے، کارروائی کا مقصد بھارت کو یہ بتانا تھا کہ پاکستان صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بھارت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکمت اور عقل استعمال کرنا بے حد ضروری ہے۔ دنیا میں اس سے قبل جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں مس کیلکولیشن ہوئی۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جو جنگ شروع کر رہے تھے وہ جنگ کدھر جائے گی۔ اگرچہ عمران خان نے ایٹمی جنگ کا نام نہیں لیا لیکن ان کی مراد یہی تھی کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بھارتی جنگی طیاروں نے قریبا نصف صدی کے بعد پاکستان کی بین الاقوامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے بالاکوٹ کے قریب بم پھینکے۔ جواز یہ بتایا گیا کہ وہاں جیش محمد تنظیم کا ٹریننگ کیمپ ہے جو یکسر بے بنیاد نکلا۔ لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ چاہے وہ کارگل کی محاذ آرائی ہو جس میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھارتی ائیرفورس کو ہدایت کی تھی کہ پاکستانی حدود پار نہیں کرنی یا ستمبر2016ء میں بھارت کی طرف سے آزاد کشمیر میں مبینہ شدت پسندوں کے خلاف ’سرجیکل سٹرائیکس، کرنے کا دعویٰ، پاکستان اس کی تردید ہی کرتا آ رہا ہے۔ گویا کہ بھارت سالہا سال سے پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات تھوپتا چلا آ رہا ہے، بھارت کا یہ کہنا کہ2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ، 2008ء میں ممبئی واقعات، جنوری اورستمبر 2016ء میں پٹھان کوٹ اور اڑی حملوں کے باوجود صبر وضبط کا مظاہرہ کیا، یہ پاکستان پر کوئی احسان نہیں تھا کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ ایٹمی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے لیکن نریندر مودی نے اب انتخابات جیتنے کے خمار میں ایٹمی جنگ کے خطرات کو تج کر دیا۔ اس طرح مودی نے ایک نئے ڈاکٹرائن کی ابتدا کی ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ لڑ سکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کا یہ وار خالی گیا ہے اور پاکستان نے مثبت جواب دیا۔ بھا رت کی اس جنگجوانہ ذہنیت میں جو خطرات پاکستان کے لیے مضمر ہیں یقینا ہمارے پالیسی سازوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونگے۔ حالیہ بھارتی شرارت کے بعد حکومت پاکستان کا رویہ مصالحانہ تھا جس کی دنیا میں بھی تعریف کی گئی لیکن اس امر کے باوجود ایک اور بحث چل نکلی ہے کہ اسلام آباد سفارتی طور پر قریبا ً تنہا ہے۔ امریکہ کے ماضی کے برعکس جب بل کلنٹن نے براہ راست مداخلت کرکے کارگل کی لڑائی ختم کرائی تھی اس مرتبہ امریکہ نے محض بالواسطہ رول ادا کیا، چین نے بھی پاکستان کے موقف کی دوٹوک حمایت کرنے کے بجائے متوازن قسم کے بیانات دیئے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ہے، اس پر پاکستان نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ کانفرنس نے پاکستان کی تجویز کردہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرارداد تو منظور کر لی لیکن مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر گول کر دیا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی طرف سے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے اورایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان پر پابند ی لگانے کے خطرات مسلسل منڈلا رہے ہیں۔ انہی کی روشنی میں وزیراطلاعا ت فواد چودھری نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ پاکستان جہادی تنظیموں پر ازخود پابند ی لگانے کا فیصلہ کر چکا ہے اور یہ فیصلہ کسی کے دباؤ پر نہیں بلکہ موجودہ بحران سے پہلے کیا گیا تھا۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے وقت کا فیصلہ سکیورٹی فورسز کریں گی۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اگر اصولی فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے تو اس پر عمل درآمد جلد ہو جانا چاہیے۔ سنا ہے کہ پاکستان کی بالآخر آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر کے پیکیج کی بیل منڈھے چڑھ رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں اگر بھارت کا مقابلہ کرنا ہے اور ایسا نہ بھی ہو تو تب بھی پاکستانی عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اکانومی کے جام پہیے کو دوبارہ چلانے کے لیے خاصے لوازمات کرنا باقی ہیں جن پر تحریک انصاف کی حکومت توجہ نہیں دے رہی۔ بھارت کے برعکس پاکستانی اپوزیشن اور حکومت نے موجودہ بحران پر سیاست نہیں کھیلی، اسی بنا پر پاکستان کا جسد سیاست ایک ہی صفحے پر تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دوبارہ اپوزیشن سے منہ ماری شروع ہو جاتی ہے یا وسیع تر قومی مفاد میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر معاملات افہام تفہیم سے چلائے جاتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran