Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Pohnchi Wahin Khak

Pohnchi Wahin Khak

سابق وزیراعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو نے بھی بالآخر کنگز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ’پہنچی وہیں خاک جہاں کا خمیر تھا،۔ منظور وٹو اپنی سیاست کے آغاز سے اب تک ہر بڑی سیاسی جماعت میں رہتے ہوئے اپنے اندر وہ سب کچھ سموئے ہوئے ہیں جو ہمارے جسد سیاست کی بنیادی خرابی ہے۔ انھوں نے مسلم لیگ جونیجو میں خاصا عرصہ گزارا۔ منظور وٹو 1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل اوکاڑہ منتخب ہوئے اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی رہے، لیکن وزیراعلیٰ بننے کی چنگاری ان کے دل میں ہمیشہ سلگتی رہی۔ اپریل 1993ء میں جب نوازشریف نے غلام اسحق خان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو 58۔ ٹو بی سے لیس صدر مملکت نے انھیں فارغ کر دیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے میاں نوازشریف کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو میاں صاحب نے پنجاب میں اپنی رٹ بحال کرنے اور وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کو سہارا دینے کے لیے رینجرزکو بھی طلب کیا لیکن رینجرز نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے قرعہ فال منظور وٹو کے نام نکلا اور قریبا ً ساری کی ساری مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی لوٹا بن کر سپیکر ہاؤس میں جمع ہوئے تھے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب کے درمیان مسلسل چپقلش کے نتیجے میں 16نومبر 1996ء کو وٹو صاحب کی مستقل چھٹی ہو گئی۔ 1995ئمیں منظور وٹو نے اپنی مسلم لیگ (جناح) بنائی لیکن جلد ہی محترمہ بے نظیر بھٹو ان سے اکتا گئیں اور انھوں نے منظور وٹو کو نکیل ڈالنے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل (ر) راجہ سروپ کو پنجاب کا گورنر بنا دیا۔ ایک دن راجہ سروپ نے مجھے گورنر ہاؤس میں ناشتے پر مدعو کیا تو میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ وٹو سے کچھ تنگ لگتے ہیں تو انھوں نے کھل کر کہا کہ طوطا چوری زیادہ کھا گیا ہے، اس کی گردن مروڑنی پڑے گی۔ جب یہ خبر میں نے نوائے وقت کے پہلے ڈاک ایڈیشن میں فائل کی تو اس وقت کے ڈی جی پی آر اکرم شہیدی نے منت سماجت کی کہ یہ خبر نہ لگائیں ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔ اسی بنا پر یہ خبر باقی ایڈیشز سے روکنی پڑی۔ راجہ سروپ نے منظور وٹو کو جلد ہی فارغ کر دیا اور مسلم لیگ (جونیجو) کے صدر حامد ناصر چٹھہ کی آشیرباد سے سردار عارف نکئی ان کی جگہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے ان پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ احتساب عدالت سے انھیں دس سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کی سزا بھی ہوئی لیکن ایک برس بعد اپیلٹ کورٹ میں منظور وٹو کی سزا ختم ہو گئی۔ بعدازاں جب جنرل پرویز مشرف نے نیب کے ذریعے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر’کنگزپارٹی، ق لیگ بنائی تو جنرل پرویز مشرف کے کہنے پر ہی منظور وٹو نے اپنی پارٹی مسلم لیگ جناح کو اس میں ضم کر دیا اور وہ ق لیگ کے سینئر نائب صدر بھی بن گئے۔ چوہدری برادران پرویز مشرف کے کہنے پر طوہا ً وکرہا ً انھیں واپس لینے پر آمادہ ہو گئے۔ پرویز الٰہی کو ہمیشہ گلہ تھا کہ منظور وٹو نے اپنے دور میں ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رکھی تھیں۔ اسی بنا پر منظور وٹو کو نئی ’کنگز پارٹی، میں پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ 2008ء کا الیکشن موصوف نے بطور آزاد امیدوار لڑا اور قومی اسمبلی کے دو حلقوں 146-47سے خود جبکہ ان کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو پی پی 188سے جیت گئیں اور ان کے مقامی دست راست معین وٹو اور ملک عباس کھوکھر بھی الیکشن جیت گئے۔ اب منظور وٹو کے پیپلزپارٹی میں پوں بارہ تھے۔ وہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار اور پھر وزیر امورکشمیر و شمالی علاقہ جات بن گئے اور صاحبزادے خرم وٹو کو اپنی چھوڑی ہوئی ایک سیٹ پر جتوا کر پارلیمانی سیکرٹری بنوا لیا۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری منظور وٹو کی سیاسی کاریگری کے اتنے معتقد ہو گئے کہ انھیں 2012ء میں پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر بنا دیا۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پیپلزپارٹی اس وقت ختم ہو چکی تھی۔ شاید آصف زرداری کا خیال تھا کہ یہاں شریف برادران سے ٹکر لینے کے لیے وٹو سے بہتر کوئی شخصیت نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق سپیکر اور وزیراعلیٰ گفتگو کے بادشاہ ہیں اور سیاسی مذاکرات میں اپنے مدمقابل کو قائل کرنے کے ماہر ہیں۔ نہ جانے انھوں نے زرداری صاحب کو کیا گیدڑسنگھی سنگھائی کہ انھیں یہ قطعا ً احساس نہیں ہوا کہ جیالے ذہنی طور پر ایسے شخص کو قبول نہیں کرتے جو خود جیالا نہ ہو۔ منظور وٹو کا شمار ان سیاستدانوں میں نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے بہت سے جیالوں کی طرح سیاسی جدوجہد کے دوران جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہوں یا کوڑے کھائے ہوں یا کسی آمر کے خلاف جدوجہد کی ہو۔ منظور وٹو پیپلزپارٹی کی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ انھوں نے حالیہ عام انتخابات سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کو لال جھنڈی دکھا دی، ان کے صاحبزادے خرم جہانگیر اور بیٹی روبینہ شاہین جو پیپلزپارٹی کے عہدیدار تھے، نے تحر یک انصا ف میں شامل ہو کر اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ اس کے علاوہ ان کے داماد بلال ورک مسلم لیگ ن سے مراجعت کر کے تحریک انصاف میں چلے گئے اور انھیں بھی انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ منظور وٹو نے بطور آزاد امیدوار حالیہ انتخابات میں حصہ لیا اور اپنی روایتی جوڑ توڑ کی سیاست کرتے ہوئے تحریک انصاف سے مقامی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی لیکن پھر بھی اس بار ان کے خاندان کا روایتی جادو نہ چل سکا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے باوجود پارٹی نے ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر فرحت اللہ بابر نے تاویل پیش کی ہے کہ منظور وٹو تو اپنی سیاسی موت خود ہی مر جائے گا۔ اس لیے ان کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ انوکھی منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ حالیہ انتخابات میں پارٹی کو چھوڑنے کے باوجود پیپلزپارٹی نے ان کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ہماری سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا جنازہ اس وجہ سے نکل چکا ہے کہ ایسے لوگ جو ہر دور میں اپنی وفاداریاں بدل لیتے ہیں مسلم لیگ (ن) سمیت سب جماعتیں انھیں جی آیاں نوں کہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل بھی اسی قسم کی طالع آزماؤں کی باقیات کی مرہون منت ہے۔ جب بھی حکمران جماعت کا سنگھاسن ڈولا یہ لوگ سامان باندھ کر اگلی حکمران جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور کوئی بھی ان کو برا نہیں کہے گا۔ حالیہ انتخابات میں جس انداز سے مقتدر اداروں نے الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کرانے کے لیے ان کی پذیرائی کی اس کے بعد تو نہ خوب بھی خوب ہو گیا۔ ادھر اطلاعات ہیں کہ جہانگیر ترین نے منظور وٹو کو فیصل آباد این اے 103 سے ضمنی الیکشن لڑنے کا کہا ہے جس پر انہوں نے پارٹی میں شمولیت کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کی درخواست بھی دے دی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک میں ایک نئی سیاست متعارف کرا دی ہے یعنی کہ وہ الیکٹ ایبلز جو عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں انہیں نوازنے کیلئے ضمنی الیکشن لڑا کر ہر صورت آ گے لانا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran