عالمی وبا Covid-19 سے جس نے، ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اب تک قریباً 52 لاکھ افراد متاثر اور 3لاکھ 35 ہزار سے زائد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں یہ موذی وبا ان دعوؤں کے باوجود کہ اموات ابھی تک1100 کے قریب ہیں گزشتہ تین ہفتوں میں جوں جوں لاک ڈاؤن نرم کیا گیا ہے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں۔ یکم مئی کو کورونا کے کل کیسز 18092تھے جو تین گنا بڑھ کر51 ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ اسی عرصے میں اموات 417 سے بڑھ کر 1075ہو گئی ہیں۔ اس کے باوجود دنیا میں کسی کو یہ علم نہیں کہ کورونا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک کاروبار زند گی اور معیشت کی بحالی کے لیے لاک ڈاؤن کو نرم کر رہے ہیں۔ اکثر ملکوں نے اس کے پھیلاؤکے رکنے اورمتاثر ہونے والے افراد اور اموات کی شرح میں کمی کے بعد ایسا کیا ہے لیکن پاکستان میں غریبوں کے نام پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کی بنا پر متاثرین اور اموات کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک اور فرق بھی خاصا واضح ہے کہ مغربی اور بعض افریقی ممالک میں بڑے مربوط طریقے سے کاروبار زند گی معمول پر لائے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو یا شاپنگ مالز ہوں، ایس اوپیز پر رضا کارانہ عمل ہو رہا ہے اور جہاں خلاف ورزی ہو سخت کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لاک ڈاؤن کی عملی طور پر کوئی پروا نہیں کی جا رہی، اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی کوئی احتیاط نہیں کرتے، اس پر مستزاد ہمارے علما کرام اور مذہبی لوگ بھی اجتماعی عبادات کی خاطر کسی قسم کی پابندی سرے سے قبول کرنے کو تیار ہی نہیں۔ حالات کی پروا کئے بغیر منافع خوری کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ ٹرانسپورٹر حضرات کھلی چھٹی چاہتے ہیں کہ وہ پہلے سینی ٹائزر فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری نہ ہو۔
کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے والی کئی کمپنیاں دعوے کر رہی ہیں کہ اس سال ستمبر تک کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ برس ڈیڑھ برس میں ویکسین کی تیاری تاریخ میں ایک ریکارڈ ہی ہو گا کیونکہ کامیاب ویکسین بنانے میں کئی کئی برس لگ جاتے ہیں۔ فی الحال سوائے مروجہ احتیاطی تدابیر کے کورونا وائرس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو پاگل پن کی حد تک لاابالی پن کا اظہار کرنے میں یکتا ہیں کب سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں تیار ہونے والی دوا کلوروکوین کورونا کا تیز بہد ف علاج ہے جبکہ اکثر طبی ماہرین کی ریسر چ کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے لیکن امریکی صدر جن کے کچھ وائٹ ہاؤس سٹاف ممبرز بھی اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ کلوروکین لے رہے ہیں۔ بعض طبی ماہرین کے مطابق اس دوا کے بہت خطرناک سائیڈ ایفیکٹس ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے پیشگوئی کی ہے کہ یہ وبا پورے سال تک رہے گی، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ کورونا وائرس رواں اور گزشتہ صدی کی مہلک ترین وبا ثابت ہو رہی ہے۔ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پراگست 1945ء میں ایٹم بم پھینکے تو ان سے 2لاکھ 26ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ کورونا وائرس دنیا میں 3لاکھ35 ہزار افراد کی جان لے چکا ہے۔ اس لحاظ سے یہ وبا نیو کلیئر تباہی سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی ہے اور ابھی اس سے نجات کا راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک بات تو مسلمہ ہے کہ کورونا وائرس سے جب بھی چھٹکارا حاصل ہوگا دنیا بھر میں زندگی کے اکثر بنیادی حقائق تبدیل ہو جائیں گے۔ دسمبر1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی کیمونزم بھی ختم ہو گیا تھا، اب دنیا میں صرف سرمایہ دارانہ نظام رہ گیا ہے۔ حتیٰ کہ باقیات سوویت یونین روس اور چین نے اپنی اپنی کیمونسٹ پارٹی کی حکمرانی کو بحال رکھا لیکن معیشت کیلئے سرمایہ دارانہ نظام ہی اپنایا۔ اب امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور سرمایہ دارانہ نظام کی موید بن گئی ہے، کامیابی کا معیار صرف یہ بن کر رہ گیا ہے کہ آپ کتنی دولت کماتے ہیں اور اس ضمن میں ایک اور چیز جس نے دنیا کو محصور کر کے رکھ دیا ہے وہ ٹیکنالوجی ہے۔ مثال کے طور پر جہاں دنیا بھر کی ائر لائینز اپنی جگہ منجمد ہو کر رہ گئی ہیں وہیں Zoom جس کے ذریعے کمپیوٹرز پر باقاعدہ میٹنگز ہوتی ہیں کی ویلیو ان سے زیادہ ہو گئی ہے۔ سرمایہ داری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین امریکہ کے مدمقابل بن کر کھڑا ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا آغازہو گیا ہے۔ امریکہ، چین ہوں یا دنیا کے دیگر ممالک، ایک بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے جن لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور دولت کے ارتکاز کو مذہب مان لیا تھا انہیں اب بعداز خرابی بسیار اپنے گھروں میں قرنطینہ یعنی محصور ہو کر یقینا یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ ایک نظر نہ آنے والی ایسی طاقت ہے جس کے سامنے زمینی خداؤں کا بس نہیں چلتا۔
کورونا کے تلخ پس منظر میں نئی دنیا میں زیادہ انسان دوست نظام وضع کرنا پڑے گا۔ تیل سے مالا مال ممالک جو زیادہ تر دنیائے عرب کی خلیجی ریاستیں ہیں، ان کے حکمرانوں نے کبھی جمہوریت اور جمہوری اقدار کا پاس نہیں کیا اور انہیں اپنی تیل کی دولت کا اتنا گھمنڈ تھا کہ وہ پاکستان جیسے اسلامی ملک جو ان کی سکیورٹی کا ضامن رہا ہے، کو بھی کچھ نہیں سمجھتے بلکہ حقارت سے اسے مسکین کہتے ہیں اور ہمارے حکمران معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ان کے سامنے دوزانوں ہو کر جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے اب امریکی تیل ہو یا عربوں کا ایک مرحلے پر تو یہ قر یباً مفت ہو گیا تھا۔ انڈسٹریل اور ٹرانسپورٹ کی آلودگی بھی لاک ڈاؤن کے دوران بہت کم ہو گئی تھی۔ خود پاکستان میں لاہور، بھارت میں نئی دہلی سمیت بعض شہروں میں آلودگی اتنی زیادہ تھی کہ ہر موسم میں کئی کئی دن صاف سورج ہی نظر نہیں آتا تھا، اب قدرتی مناظر اور موسم محسوس کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر شاید امیروں کو بھی احساس ہوا ہے کہ ان کے قیمتی ڈیزائنزڈ لباس، گھڑیاں، جوتے اور مہنگی مہنگی گاڑیاں سب بیکار ہیں، اصل مسئلہ جان ہے تو جہان ہے۔
پاکستان کے نظام کو ہی لے لیں، غریب کے لیے ایک پاکستان، امرا اور حکمرانوں کے لیے الگ پاکستان ہے۔ پر تعیش شاپنگ کے علاقے اور شاپنگ مالز جہاں متمول طبقے کی ریل پیل رہتی ہے وہ ایک پاکستان ہے اور دوسرے پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت غریب طبقے پر مشتمل ہے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود غریبوں کے نام پر سیاست کی جاتی ہے، موجودہ حکومت سمیت کسی حکومت نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل صحیح کہا تھاکہ صحت پر بہت کم پیسے خرچ کئے گئے ہیں، یہ ایک ایسی اجتماعی کمزوری ہے جس کی بنا پر جی ڈی پی کی بہت معمولی شرح صحت سمیت سوشل سیکٹر پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے اکثر ممالک میں اسلحہ اندوزی اور نئے نئے ہتھیار بنا کر تیسری دنیا کو فروخت کرنے پر کھربوں ڈالر خرچ کئے جا تے ہیں۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ کورونا وائرس کی آفت کو جس کے سامنے بڑی بڑی دفاعی، میزائلوں سے لیس، سرمایہ دار طاقتیں یکسر بے بس ہیں، ممالک اور حکومتیں اپنے ماضی کے رویوں کو ترک کر کے کوئی نیا نظام وضع کرنے کی سعی کریں۔ کیا اس بات کا امکان ہے کہ مختلف قومیں اپنے ماضی کی غیر صحت مندانہ روایات اور غلط ثابت ہونے والے رویوں پر نظرثانی کریں گی؟ ۔ ابھی تو شاید کورونا کی آ گ بجھانے کی کوششوں میں اس طرف پوری طرح توجہ نہ دی گئی ہو لیکن اگر کورونا سے پہلے کا رویہ جوں کا توں اختیار کیا گیا تو یہ انتہائی بد قسمتی ہو گی، وقت آ گیا ہے جنگ وجدل اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے رویوں میں تبدیلی لائی جائے کیونکہ یہی وقت کی آواز ہے۔