Riyasat Ki Writ
Arif Nizami92 News885
بالآخر تحریک لبیک کی حال ہی میں محبوس کی گئی قیادت خادم حسین رضوی، افضل حسین قادری، عنایت الحق شاہ اور حافظ فاروق الحسن کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔ دیر آید درست آید، بعداز خرابی بسیار ریاست کی رٹ کو بحال کرنے کے لیے یہ ناگزیر قدم اٹھانا ہی پڑا۔ اگر گزشتہ برس ہی اسلام آباد میں فیض آباد پر تحریک لبیک کے قریباً تین ہفتے پر محیط دھرنے کے ساتھ منت سماجت کے بجائے سختی سے کام لیا جاتا تو ایک سال بعد سپریم کورٹ سے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف دوبارہ قریباً سارا پاکستان شٹ ڈاؤن نہ ہوتا۔ اس مرتبہ بھی منتیں کر کے صورتحال پر قابو پایا گیا لیکن یہ تنظیم جس کا آج سے ایک سال سے زیادہ عرصے پہلے کسی نے نام تک نہیں سنا تھانے آرمی چیف، چیف جسٹس سمیت آسیہ کیس کا فیصلہ کرنے والے بینچ کے خلاف فتوے جاری کر دیئے اور عوام کو بغاوت پر اکسایا۔ اسی بنا پر ملک کے باشعور طبقے میں مایوسی پیدا ہوئی کہ کیا ہمارے ادارے بالکل ہی لیٹ گئے ہیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار فنڈ ریزنگ کے لیے لندن میں تھے تو ایک صحافی نے ان کے سامنے اداروں کی مبینہ کمزوری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا جس کے جواب میں چیف جسٹس نے بڑا معنی خیز جواب دیا۔ انتظار کیجئے، دیکھئے کیا ہوتا ہے اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ وطن عزیز میں انتہا پسندی چاہے لسانی ہو، مذہبی یا سیاسی اس کے خلاف قدم اٹھانے کے معاملے میں ریاستی ادارے اتنی لیت ولعل سے کیوں کام لیتے ہیں اورا ن کی طرف سے راست اقدام اس وقت کیا جاتا ہے جب یہ گروپ اژدہا بن کر پھنکارنے لگتے ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں ریاست کو للکارنے والے کئی ایسے عناصر کو جو محض دھونس اورطاقت کے ذریعے بزعم خود ویٹو پاور بن جاتے ہیں اور آئین پاکستان کی کھلم کھلا دھجیاں اڑانے سے نہیں چوکتے کو جب زیر کیا گیا تو ان کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ پاکستان میں سب سے بڑی تشدد پسند اور جرائم پیشہ لوگوں کو پناہ دینے والی جماعت ایم کیو ایم تھی۔ اس کا بانی الطاف حسین لندن بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہتا تھا، اس کے ایک اشارے پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ ٹیلی ویژن چینل اور کیبل آپریٹرز اس کی ان تقریروں کو براہ راست دکھانے پر مجبورہوتے تھے۔ اخبارات میں ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں چھپتا تھا لیکن جب 2013ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے مل کر کارروائی کی تو یہ نام نہاد شیر، شیر قالین ثابت ہوا۔ اب کراچی کی روشنیاں بحال ہو چکی ہیں۔ بھتہ مافیا، لینڈ مافیا، چوری اور لوٹ مار کرنے والے عناصر اب اس طرح کھل کھیل نہیں سکتے جیسا کہ پہلے تھا۔ اب ایم کیو ایم سیاسی طور پر بھی کئی گروپوں میں بٹ چکی ہے اور حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں ایم کیو ایم کے شہری سندھ پر غلبے نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہی حال تحریک طالبان پاکستان کا تھا، جسد سیاست، میڈیا اور ماضی میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ میاں نواز شریف کی حکومت کو ہی لیجئے، وہ تحریک طالبان سے مذاکرات کرنے چلی تھی اور جب تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں مارے گئے تووزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ٹسوے بہائے کہ یہ ڈرون حملہ امن مذاکرات پر ہواہے۔ اس وقت خود عمران خان بھی مذاکرات کے حامی تھے۔ اگرچہ تحریک طالبان کے خلاف عسکری قیادت کا واضح آپریشن آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کے دور میں سوات کو ملا فضل اللہ کے تسلط سے آزاد کرانے سے شروع ہوا لیکن اس کا اصل کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے جنہوں نے بھرپور طریقے سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کارروائیاں کیں۔ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشتگردوں کے حملے نے جہت ہی بدل کر رکھ دی۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی یہ بھرپور کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے اس پالیسی کو مربوط اور موثر انداز سے آ گے بڑھایا۔ اس دوران ہمارے عسکری اداروں، پولیس اور شہریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج یہ صورتحال ہے پاکستان کاشمار ان چند ممالک میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے دہشت گرد ی کا مردانہ وار مقابلہ کر کے امن بحال کیا۔ تاہم یہ کہنا تو درست نہیں ہو گا کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو چکا ہے لیکن مقام شکر ہے کہ اب دہشت گردی کی وارداتیں آ ٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہیں۔ اس کا کریڈٹ نواز شریف حکومت کو نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔ یقینا ملک کو حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بنانے کے لیے انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے کے علاوہ اس سوچ کو بھی بدلنا ہو گا۔ اور یہ مقصد محض گولی اور ڈنڈے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے جیو اور جینے دو کے فلسفے پر مبنی بیانیے کو فروغ دینا ہوگا۔ ریاست کو بردباری سے تو کام لیناہی چاہیے لیکن ایسے عناصر کو نہ تو پالنا چاہیے اور نہ ہی ان کے خلاف کارروائی کر نے میں لیت ولعل سے کام لینا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہاؤس لاہور کی دیواریں گرانے کا حکم صادر کیا ہے۔ نہ جانے اقتصادی طور پر قلاش حکومت کو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ واضح رہے کہ ایکڑوں پر محیط گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے پر کروڑوں کا خرچہ ہو گا اور اس کی جگہ آہنی جنگلے لگانے پر بھی لاگت اس سے کئی گنا زیادہ ہو گی اور سکیورٹی کے جو مسائل پیدا ہونگے وہ اپنی جگہ پر۔ گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے ضرور کھولا جائے لیکن اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ یہ تاریخی اثاثہ ہے اگر دیواریں گرانے کی رسم چل نکلی توپھر ایچی سن کالج جو اشرافیہ کے بچوں کے لیے مخصوص ہے کی قریباً تین سو ایکڑ پر محیط دیواریں گرا کر غریب عوام کے بچوں کے لیے کیوں نہ کھول دیا جائے۔ شاید ایسا اس لیے نہیں کیا جائیگا کہ عمران خان اور ان کے بہت سے ساتھی اسی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں لیکن اصل کام جو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا وہ پنجاب کے بابوؤں کی آماجگاہ، جی او آر لاہور ہے۔ مال روڈ پر واقع اس کالونی کو بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر کے نوگو ایریا بنا دیا گیا۔ وہاں پر رہنے والے نازک اندام وزرا اور بیوروکریٹس عوام کے لیے سہولت کار ہونے چاہئیں نہ کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے خود کو عوام سے ایسے کاٹ لیں کہ وہاں چڑیا بھی پھڑک نہ سکے۔ اس’دیوار برلن، کو تو فوری طور پر مسمار کرنا چاہیے۔