موجودہ سیاسی ماحول میں 2019 کے اواخر میں بڑ ی خبر شاید یہی تھی کہ حکومت نے بالآخر نیب کے قانون میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کردی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن لیڈر شپ کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم تحریک انصاف کی صفوں میں موجود کر پٹ لوگوں کو بچانے کے لیے کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بسیار کو ششوں کے باوجود ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ سابق حکومت کے شروع کئے گئے بعض پراجیکٹس کا ازسرنو افتتاح کر کے انویسٹمنٹ ظاہر کرنے کی کوششیں جاری و ساری رہتی ہیں۔ اسی طرح"ہاٹ منی" یعنی پاکستان میں شرح سود بہت زیادہ ہونے کی بنا پر غیر ملکی سرمایہ کار وقتی طور پر بانڈز کے ذریعے یہاں سرمایہ کاری لا رہے تھے کیونکہ مغرب میں انھیں اس قسم کامنافع نہیں مل سکتا تھا اسے بھی سرمایہ کاری کہنا زیادتی ہو گی کیونکہ اس قسم کا پیسہ جس سرعت سے آتا ہے اسی سرعت سے واپس چلا جاتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے۔ اسی بنا پر انھوں نے چند ماہ قبل ملک کے ممتازصنعت کاروں اور تاجروں کی میٹنگ بلائی جس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کر کے بزنس مینز کو اس کی دسترس سے نکال دیا جائے گا۔ بالآخر چندروز قبل کا بینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے ایسا کردیا۔ حکومت کے ہر فیصلے کی طرح اس فیصلے میں بھی کنفیوژن پیدا کی گئی، پہلے کہا گیا کہ نیب ریمانڈ کی مدت نوے روز سے کم کر کے 14 روز کر دی گئی ہے لیکن بعدازاں اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا حالانکہ قتل کے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت بھی14روز ہے لیکن نیب کیس کے ملزم کی نوے روز تک کوئی شنوائی نہیں ہو سکتی، بہر حال نئے آرڈیننس کے تحت اختیارات کے غلط استعمال پر کیس نہیں بن سکے گا۔ ٹیکس کے معاملات پر بھی نیب کاکیس نہیں بنے گا بلکہ یہ ایف بی آر کاکام ہو گا۔
ویسے تو ایک ڈکٹیٹر کی دین نیب کا یہ آرڈیننس ملک میں مروجہ قانون کی حکمرانی کے تصور سے متصادم تھا کیونکہ اس کے تحت پکڑے جانے والے لوگ روز اول سے ہی مجر م قرار دے دیئے جاتے تھے اور جب تک ان کے خلاف تحقیقات جا ری رہتیں وہ مجرم ہی رہتے تھے، اسی بنا پر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس قانون میں ترمیم کے بجائے اسے یکسر ختم ہی کر دینا چاہیے۔ ویسے بھی نیب کی کا رکردگی ہے کیا؟ تمام تر بلند بانگ دعوؤں اور شور وغوغے کے باوجود نیب سیاستدانوں سے لوٹی ہوئی دولت میں سے ایک پائی بھی بازیاب نہیں کر سکا۔ بہر حال نئے آرڈیننس سے سیاستدانوں کو شاید ریلیف مل جائے گا لیکن یک نہ شد دو شد کے مصداق جے آئی ٹی کے متنازعہ سر براہ واجد ضیاء کے ڈی جی، ایف آئی اے بننے کے بعد یہ ادارہ سیاستدانوں کے خلاف استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حال ہی میں مسلم لیگ(ن) کے ماڈل ٹاؤن میں ہیڈکوارٹر زپر ایف آئی اے کا چھاپہ اوروہاں سے ہارڈ ڈرائیو کو قبضے میں لینا حکومت کے منتقمانہ ایجنڈے کی ہی ایک کڑی ہے۔
تمام تر دعوؤں کے باوجود 2019 عام آدمی کے لیے اقتصادی بدحالی، جمہوری اصولوں کی عدم پاسداری اور میڈیا کی آزادی پر شب خون مارنے کا سال ثابت ہوا۔ اب تبدیلی کے پیامبر نے عندیہ دیا ہے کہ 2020 کا سال حقیقی تبدیلی اور ترقی کا دور ثابت ہوگا لیکن پی ٹی آئی حکومت کے گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اقتصادی ترقی اور اخلاقی اقدار کے نئے دور کے آغاز کے دعوے نقش برآب ثابت ہو ئے۔
سال کی ایک بڑی خبر اعلیٰ عدالتوں کی آزادروی بالخصوص سابق آمر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کے الزام میں خصوصی عدالت کی طرف سے سزائے موت سنانے کا فیصلہ تاریخی نوعیت کا ہے۔ اس فیصلے پر خاصی ہاہاکار مچی، افواج پاکستان نے تو اس کا سخت برا منایا، حکومت نے بھی اس فیصلے کی سرتوڑ مخالفت کر کے مضحکہ خیز صورتحال پیداکردی۔ اس کیس میں حکومت کا استغاثہ تھا لیکن حکومت کی اعلیٰ لیگل ٹیم پرویز مشرف کی دفاعی ٹیم بن گئی۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جاتے جاتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی منفرد فیصلہ کر گئے۔ عدالت عظمیٰ کا کہناتھا کہ اس بارے میں قوانین موجود ہی نہیں، آرمی چیف کو 6 ماہ کی توسیع دیتے ہوئے ہدایت کی کہ پارلیمنٹ اس عرصے میں اس ضمن میں قانون سازی کرے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ بالآخر حکومت کو ا س ضمن میں قانون سازی کے لیے اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا ہی پڑے گا۔
گزشتہ سال کے دوران جہاں احتساب کے نام پر اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا وہاں پارلیمنٹ کی بھی اس لحاظ سے بے توقیری ہوئی کہ دو چار مرتبہ کو چھوڑ کر وزیر اعظم نے وہاں جانے کی زحمت ہی نہیں کی اور ان کی ٹیم کے ارکان بھی وہاں شاذ ہی جاتے ہیں کیونکہ تمام اہم فیصلے پارلیمنٹ سے بالا بالا ہو جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر قانون سازی سے بچنے کے لیے آمرانہ ادوار کی روایت یعنی آرڈیننس پر آرڈیننس جاری کر نے کواپنایا گیا۔ اپوزیشن کی اپنی حالت زار بھی ہر چند ہے کہ نہیں ہے کے مترادف ہے۔ ا س حوالے سے سب سے بڑی خبر یہی تھی کہ مسلم لیگ(ن) کے صاحب فراش رہبر میاں نواز شریف کو مخدوش صحت کی بنا پر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ میاں نوازشریف کے لندن جانے کے بعداز خرابی بسیار وزیر اعظم عمران خان نے کھلم کھلا اس شک کا اظہار کیا کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں غنچہ دے کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ یقینا نوازشریف کی صحت خراب ہے، اسی بناپراکتوبر کے اواخر میں رات گئے نیب نے انھیں ایمرجنسی میں سر وسز ہسپتال پہنچا دیا جہاں ان کے پلیٹ لیٹس بہت کم بتائے گئے لیکن لندن میں نواز شریف کی سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ ان کی صحت مخدوش ہے لیکن نزعی نہیں کیونکہ تادم تحریر انھوں نے ایک رات بھی کسی ہسپتال میں نہیں گزاری لیکن برادر خورد شہبازشریف بڑے بھائی کے علاج کے بہانے لندن میں ہی مقیم ہیں، ان کی وہاں اتنا عرصہ ٹکے رہنے کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یقینا یہاں پر حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے پارٹی رہنما سوچتے ہونگے کہ ہم یہاں صعوبتیں اٹھا رہے ہیں لیکن پارٹی کے صدر لندن میں کر سمس اور نیو ائیر منا رہے تھے۔
گزشتہ برس کی ایک اہم سیاسی تبدیلی مسلم لیگ (ن) کے حکومت اور عسکری قیادت کے بارے میں جا رحانہ بیانیے کی جگہ کامل خاموشی تھی۔ میاں نوازشریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز جوان کی سیاسی جانشین بھی کہلاتی تھیں ضمانت پر رہا ئی کے بعد یکسر خاموش ہو گئیں۔ وہ سیاسی بیان تو کجا کوئی تعزیتی بیان بھی نہیں دے رہیں اور ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ بھی خاموش ہو گیا ہے۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا جی ٹی روڈ والا بیانیہ بدلنے اور انھیں لندن بھجوانے میں شہباز شریف کا کلیدی کردار ہے۔ پرویز مشرف کو سزائے موت اور آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے فیصلوں پر جو شہبازشریف کے بیرون ملک ہونے کے دوران سنائے گئے انھوں نے مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔ غالباً شہبازشریف کو اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ہے اور جلد یا بدیر خان صاحب کو گھر جانا پڑے گا۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں کسی بھی منتخب وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ شہبازشریف کی طرف سے مائنس ون فارمولے کو پذیرائی بخشنے کا اعلان بھی اسی تناظر میں ہے۔ وہ غالباً لندن میں بیٹھے انتظار کررہے ہیں کہ اقتدارکا ہما کب ان کے سر پر بیٹھتا ہے لیکن ہنوز دلی دوراست۔
2019 میں آصف علی زرداری بھی رہا ہوئے لیکن بلاول شعلہ نوائی کر رہے ہیں تا ہم وہ عسکری قیادت کے بارے میں اختیاط برت رہے ہیں۔ ویسے پیپلزپارٹی کے چیئرمین اس وقت واحد اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ان کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت لیاقت باغ میں 27 دسمبر کا کامیاب جلسہ اس حقیقت کا مظہر ہے۔ گزشتہ سال کا بہت بڑا سیاسی واقعہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا تھا لیکن یہ ستم ظریفی تھی کہ اس میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے نیم دلانہ ٹوکن شرکت کی اور یوں مولاناکا دھرناناکام ہو گیا، اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں بھی ٹاپ لیڈر شرکت نہیں کرتی رہی۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن چاہتی تو ہے کہ خان صاحب کی چھٹی ہو لیکن یہ گیم طاقت کے توازن میں تبدیلی اور پارلیمنٹ کے ذریعے ہوکیونکہ معاملات سڑکوں پر آ گئے تو اپوزیشن کے ہاتھوں سے بھی نکل جائیں گے۔
پی ٹی آئی حکومت کی بدانتظامی، خراب گورننس اپنی جگہ لیکن ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آ ئے کہ فوجی قیادت نے خان صاحب کا سامان باندھنے کا فیصلہ کر لیا ہو لیکن اگر موجودہ حکومت مزید عرصہ ڈلیور نہ کر پائی اور بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ ترین ہوتے گئے تو یہ ہنی مون جو پہلے ہی متزلزل ہے، ختم بھی ہوسکتا ہے۔ خان صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں جس قسم کی حمایت ملی ان کے پیشرو وزیر اعظم ایسا خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ سال 2020 ان کے لیے میک یا بریک ثابت ہو سکتا ہے۔