عمران خان رطب اللسان ہیں کہ پابند سلاسل میاں نواز شریف، آصف زرداری سمیت کسی کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی۔ چند روز قبل بھی وزیراعظم نے اپنے اس عزم مصمم کا دو ٹوک اظہار کیا تھا، ان کے مطابق ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ احتساب کا عمل سیاسی مداخلت سے پاک ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے رہنما خاص طور پر نوازشریف کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ڈیل مانگ کون رہا ہے؟ ہم نے تو ڈیل مانگی نہیں، لیکن اس کے باوجود ہر شام ٹیلی ویژن چینلز پرٹاک شوز میں ڈیل ڈیل کی گردان ہوتی رہتی ہے۔ ڈیل کی ان خبروں کے بارے میں خود حکمران جماعت کے رہنما کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں۔ بالخصوص شیخ رشید کے ذومعنی جملے خاصے ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ کبھی شیخ صاحب کا واکھیان ہوتا ہے کہ شہبازشریف ڈیل کر رہے ہیں اور دیکھئے کیا ہونے والا ہے پھر وہ میاں نوازشریف سے ڈیل منسوب کردیتے ہیں اور کبھی ان کی صاحبزادی مریم نواز سے بعض حکومتی ترجمان بالخصوص ندیم افضل چن جو پیپلزپارٹی چھوڑ کر حکمران جماعت میں آئے تھے اور سرکاری ترجمانی کا پتھر چوم کر اب معذرت کر چکے ہیں نے حال ہی میں ایک چینل پر ارشاد فرمایا ہے کہ ڈیل نہیں ہو رہی کیونکہ عمران خان تو اس میں فریق ہی نہیں ہیں اگر ڈیل ہو گی توعدلیہ یا کسی اور سے ہو گی۔ ڈیل کی بات اتنے تسلسل اور تواتر سے ہو رہی ہے کہ یار لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ قید ہونے سے پہلے محترمہ مریم نواز نے بھی کسی ڈیل کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن ساتھ ہی ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں عمران خان فریق نہیں ہیں۔ ا س لحاظ سے دیکھا جائے تو خان صاحب درست ہی کہتے ہیں کہ کوئی ڈیل نہیں ہو گی۔ باخبر ذرائع کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے میاں نوازشریف کے حوالے سے سفار ش کی تھی کہ جہاں تک ترکی کے ساتھ میاں نوازشریف اورشہبازشریف کے پراجیکٹس کا تعلق ہے ان میں کوئی گھپلا نہیں ہوا لہٰذا ن کے کیس پر نظرثانی کی جائے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سفارش انھوں نے وزیراعظم سے کی تھی، آرمی چیف سے یا دونوں سے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب یہ کہتے ہیں کہ میں نظریاتی طور پراحتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو واقعی یہ ان کا حقیقی بیانیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم کے پاس اس کا اختیار نہ بھی ہو تو ویٹو پاور ضرور ہے۔
دوسری طرف جیل میں بیٹھے میاں نوازشریف کا دو ٹوک موقف کسی ڈیل کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ حال ہی میں برادر خورد شہبازشریف نے بیماری کی وجہ سے چند ہفتے آرام کے بعد ان سے ملاقات کی تو میاں صاحب نے واضح طور پر ہارڈ لائن اختیار کی۔ شہباز شریف کا موقف تو سیدھا سادا ہے کہ میاں صاحب ٹھنڈی کر کے کھائیں۔ فوج سے مسلسل محاذ آرائی جی ٹی روڈ کے مارچ سے آج تک ہمیںراس نہیں آئی لیکن میاں صاحب ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ انھوں نے شہبازشریف کو حکم دیا ہے کہ جائیںاور مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کریں اور دھرنے کی تیاری کریں۔ مولانا فضل الرحمن کی میاں شہبازشریف سے ملاقا ت کے بعد مسلم لیگ (ن) نے مولانا کے اسلام آباد مارچ کی اصولی طور پر حمایت کر دی لیکن اس بارے میں تفصیلات طے کرنے کے لیے 30ستمبر کومسلم لیگ (ن) کی مجلس عاملہ کا باقاعد ہ اجلاس ہو گا جس میں توقع ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف ) کا نمائند ہ بھی شرکت کرے گا۔ مولانا فضل الرحمن کا تازہ دعویٰ ہے کہ کوئی شرکت کرے یا نہ کرے ان کے لاک ڈاؤن میں پندرہ لاکھ افراد شریک ہونگے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اگر واقعی اسلام آباد پر چڑھائی کر دیں توکسی بھی حکومت کی چھٹی ہو جائے۔
اگر زمینی حقائق کا جائز ہ لیا جائے تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے کہ مولانا کی تمام تر بڑھکوں کے باوجود ان کی یہ خواہش، خواہش موہوم ہی ثابت ہو گی اور ان کا دھرنا نہیں ہو پائے گا۔ پیپلزپارٹی تو پہلے ہی مولانا کو لال جھنڈی دکھا چکی ہے۔ برخوردار بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہم نے عمران خان کے دھرنے میں شرکت کی تھی نہ ہی طاہرالقادری کے اور نہ ہی تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں شرکت کی تھی۔ اصل بات کچھ اور ہے، میاںنوازشریف اور بلاول بھٹو کے راستے الگ الگ ہیں اور حالیہ چند ماہ میں ان دونوں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی خلیج وسیع ہو گئی ہے۔ اس کا ایک مظہر اپوزیشن کی واضح اکثریت ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ڈرامائی ناکامی تھی۔ اس موقع پر اپوزیشن کے 14 ارکان منحرف ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے بعض سینیٹرز نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ نہیں دیا جبکہ اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی کے منحرف ارکان کی تعداد زیادہ تھی۔ اتنی بڑی تعداد کا اچانک پینترا بدل لینا پارٹی کی قیادت کی آشیرباد کے بغیر ناممکن نظر آتا ہے گویا کہ پیپلزپارٹی کچھ بھی کہے لیکن وہ فضل الرحمن کی گود میں بیٹھ کر اپنی کشتیاں جلانے کو تیار نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مولانا کے زیر اہتمام اے پی سی میں شرکت کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اسلام آباد لاک ڈاؤن کے معاملے پرایک ہی صفحے پر ہوتیں۔ ظاہرہے کہ سندھ میں حکمرانی کے حوالے سے پیپلزپارٹی ایک سٹیک ہولڈر ہے جبکہ میاں نوازشریف جیل میں بیٹھے ہیں اور سب سے بڑی اور مضبوط اپوزیشن پارٹی ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے کئی قائدین جیل میں ہیں۔ شہبازشریف بھی اپنی مخصوص لائن کی بنا پر عضو معطل بنے ہوئے ہیں۔ وہ درست کہتے ہیںکہ اگر پیپلزپارٹی دھرنے میں شریک نہیں ہو گی تو ایسے دھرنے کا کیا فائدہ؟۔ دراصل ڈیل ہو یا دھرنا یہ اسی صورت کامیاب ہوتے ہیں جب مقتدر قوتیں درپردہ اس کی حمایت کریں۔ عمران خان کا 2014 ء میں 126 دن کا دھرنا بھی اسی لئے ناکام ہوا تھا کہ ان کی خواہش کے باوجود تیسر ے امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی تھی یا دوسری صورت میں عوام مہنگائی، بے روز گاری اور کسا بازاری سے تنگ آ کر سڑکوں پر نکل آئیں یا بزنس مین بھی معیشت کا پہیہ نہ چلنے کی بنا پر ادھار کھائے بیٹھے ہوں تو اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر شورش برپا ہو سکتی ہے۔
ادھر نیب کے ہاتھوں پیپلزپارٹی کے ایم این اے خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن نے اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کیا ہے، پارلیمنٹ کے باہر کیمپ بھی لگایا۔ قومی اسمبلی میںسابق اپوزیشن لیڈرکی گرفتاری کے بعد اپوزیشن بالخصوص پیپلزپارٹی جارحانہ موڈ میں آ گئی۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کشمیر کانفرنس میں تمام جماعتوں کے لوگ شریک تھے، خورشید شاہ کی گرفتاری سے کشمیر کانفرنس سے توجہ ہٹائی گئی، جب بھی کشمیر کے حوالے سے متحد ہوتے ہیں تو کوئی گرفتاری ہو جاتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری بھی متوقع ہے جس پر پیپلزپارٹی کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ کو ہٹایا نہیں جائے گا بلکہ وہ جیل سے ہی صوبہ چلائیں گے۔
اس کے باوجود کہ معیشت اور گورننس کی دگرگوں صورتحال ہے لیکن عوام کے خلاف اور شہری آزادیوں کے حوالے سے کوئی تشدد نہیں ہو رہا کہ وہ کمر باندھ کر سڑکوں پر نکل آئیں اور ویسے بھی جیسا کہ بلاول بھٹو اور کسی حد تک شہبازشریف بھی سمجھتے ہیں کہ معاملات اس نہج پر نہ پہنچائے جائیں کہ سسٹم ہی ڈی ریل ہو جائے۔ اس صورتحال میں حکمران جماعت پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن پر وہ عہدہ برآ ہونے سے بوجوہ قاصر ہے۔ اسے بھی اپوزیشن اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے صبر کا امتحا ن نہیں لینا چاہیے اور اس نازک مرحلے پر جبکہ ملک بیرونی خطرات میں بھی گھرا ہوا ہے اچھی گورننس اور بقائے باہمی کی پالیسیوں کو اپنانا ہو گا۔