وزیر ریلویز شیخ رشید احمد جیسے جغادری سیاستدان جنہوں نے اپنے محکمے کے علاوہ ساری حکومت کا بوجھ اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھا رکھا ہے کی حسب توقع ایک اور پیشگوئی نقش برآب ثابت ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے اسلام آباد پہنچتے ہی ان کا فرمانا تھا کہ" مولانا ایک دو روز تک چلا جائے گا"۔ بدھ کی شب دھرنے سے مولانا کے خطاب سے تو یہی لگتا ہے کہ کم از کم اتوار تک وہ اسلام آباد میں ہی ہیں اور عام خیال بھی یہی ہے کہ سردی اور ناموافق موسم کے باوجود مولانا اور ان کے کارکن پشاور موڑ پرہی رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے دھرنے کو اتوار 12ربیع الاول کو سیرت طیبہ کانفرنس میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی مولانا کے آزادی مارچ کے حوالے سے حکمت عملی واضح نہیں ہے۔ ایک طرف تو مذاکرات کیے جا رہے ہیں جن کے لیے سرکاری مذاکراتی ٹیم کی ناکامی کے بعد چودھری برادران کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی مولانا فضل الرحمن سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں لیکن فی الحال کوئی بریک تھرو نظر نہیں آ رہا کیونکہ مولانا اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں لیکن دوسری طرف حکومتی وزراء کی طرف سے اپوزیشن پر ذاتی قسم کے رکیک حملے پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید اور مولا بخش چانڈیو میں تلخ جملو ں کا تبادلہ ہوا اور بلاول بھٹو کو بے بی کہنے پر مولا بخش چانڈیو نے فیصل جاوید کو اٹھا کر باہر پھینکنے کی دھمکی دے دی۔ وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری کا ارشاد ہے افسوس ہوتا ہے کہ تیزبارش میں لوگ بیٹھے ہیں اور لیڈر شپ گھر میں بیٹھ کر حلوہ کھا رہی ہے۔ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، میاں نوازشریف کے ہسپتال سے گھر جانے پر بہت برہم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دھرنا کے کارکنان میدان میں جبکہ لیڈران بستر آرام پر ہیں، یہ کھلا تضاد ہے، عالم دین کا کام اصلاح ہوتا ہے کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا نہیں، مولانا فضل الرحمن سیاسی میدان میں مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔
اس پس منظر میں لگتا ہے کہ حکومت ،بیک فٹ، پر جانے کے لیے تیار نہیں اور مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ادھر مولانا اور ان کی اتحادی جماعتیں بھی پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں لیکن اگر مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور جلسے جو بالآخر دھرنے میں تبدیل ہو گیا ہے کے محرکات پر غور کیا جائے تو مولانا شاید حکومت تو نہ گرا پائیں لیکن انھوں نے جسد سیاست میں ہلچل پیدا کر کے ایسا مقام بنا لیا ہے جس سے یقینا انھیں سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ مولانا نے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں وہ کام کر دکھایا ہے جو بحیثیت مجموعی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کرنے سے قاصر رہیں۔ مثال کے طور پر وزیراعظم اور ان کی ٹیم جو پارلیمنٹ کو بالکل لفٹ نہیں کراتے تھے اور وہاں آنے کا نام بھی نہیں لیتے تھے اب پارلیمنٹ میں آنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں کے ذریعے ہی سہی حکومت کو میڈیا پر قدغن لگانے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ عدلیہ جو سیاست سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتی ہے جج صاحبان یقینا معروضی حالات کو بھی مدنظر رکھتے ہونگے۔ مولانا فضل الرحمن نے جس انداز سے قومی اداروں کو للکارا ان کی اس حکمت عملی سے اختلاف ہے لیکن انھوں نے فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو کچھ وضاحتیں دینے پر مجبور کر دیا۔ میجر جنرل آصف غفور کو اس موقف کا اعادہ کرنا پڑا کہ فوج ہر جمہوری حکومت کا ساتھ دیتی ہے نیز فوج حکومتی احکامات کی پابند ہے، آزادی مارچ میں فوج کے کردار کی باتوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا مولانا فضل الرحمن کا مارچ سیاسی سرگرمی ہے اس سے پاک فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔ فوج کا انتخابات میں کوئی کردار نہیں، اسے صرف سکیورٹی کے لیے بلایا جاتا ہے۔ حکومت اگر الیکشن میں نہیں بلائے گی تو نہیں جائیں گے۔ جنرل صاحب کا فرمانا ہے کہ 2014 ء کے دھرنے میں بھی فوجی قیادت نے حکومت کا ساتھ دیا تھا نیز یہ کہ افواج پاکستان ملکی دفاع اور سکیورٹی کے کاموں میں مصروف ہیں اور وہ کسی سیاسی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہیں۔ انھوں نے مولانا فضل الرحمن کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ سینئر سیاستدان ہیں اور ملک سے محبت کرتے ہیں انھیں خود بھی اندازہ ہے کہ دھرنے کے عالمی سطح پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور پاکستان کے امیج پر اس کا کیا اثر پڑا ہے۔
یہ درست ہے کہ 2014 ء کے دھرنے میں فوج نے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور خود کو غیر جانبدار رکھا تھا۔ خان صا حب دہائی دیتے رہے کہ تیسرا امپائر انگلی اٹھانے والا ہے لیکن انگلی نہیں اٹھی اور میاں نوازشریف کی حکومت بچ گئی۔ واضح رہے کہ اس دھرنے کے دوران موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 10کور راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے۔ یہ بات بھی اصولی طور پر درست ہے کہ فوج اس وقت سکیورٹی معاملات میں بری طرح الجھی ہوئی ہے اسے دھرنوں جلسوں کے لیے فرصت کہاں ہے۔ لیکن خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے، کیا وجہ ہے کہ بقول فوجی ترجمان اتنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے اور فوج کا 2018 ئکے انتخابات میں کوئی رول نہ ہونے کے باوجود بالخصوص اپوزیشن کے حلقوں میں یہ تاثر کیوں جاگزین کر گیا ہے کہ ان انتخابات میں " الیکٹ ایبل" سیاستدانوں پراپنی وفاداریاں بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس دوران اپوزیشن نے "خلائی مخلوق، کی اصطلاح متعارف کروائی۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ نئی برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف جس کی حکومت سیاسی حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا حالانکہ یہ سیاسی حکومت کا کام تھا کہ وہ اس ضمن میں غلط قسم کے اعتراضات کی نفی کرتی لیکن خان صاحب نیا پاکستان بنانے کی سعی لا حاصل میں لگے رہے اور ان کے نئے پاکستان میں نیب اتنی طاقتور ہو گئی کہ تمام اپوزیشن کی سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا۔ میڈیا کی آزادیوں پر قدغن لگ گئی اور ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اس پس منظر میں مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو خوفزدہ اپوزیشن ناں ناں کرتے ہوئے بھی سپورٹ کرنے پر تیار ہو گئی۔
اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے کہ گیم سیکولر سیاستدانوں سے نکل کر ایک عالم دین کے ہاتھ میں چلی جائے اور وہ خود عالم بھی مذہبی کارڈ استعمال کرنے کے بجائے حالات حاضرہ، معیشت کی ابتر صورتحال، خارجہ پالیسی اور دیگر معاملات پر کھل کر بات کرے اور قوم اس کی باتیں سنے۔ حکومت کے بعض نادان مشیر جو یہ کہتے رہتے تھے کہ مولانا تو ڈیزل پرمٹ اور منسٹرانکلیو میں کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے ناتے 22 نمبر مکان کی مار ہیں، اب منہ میں گھنگنیاں ڈالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ملک کا لبرل طبقہ جو خود تو سیاسی طور پر بانجھ ہو چکا ہے اب مولانا کے دھرنے پر نکتہ چینی نہ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ وطن عزیز میں جہاں ہمیشہ یہ نعرہ لگتا تھا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں اب اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے بلکہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ایسے انتخابات کرائے جس میں فوج کی کوئی مداخلت نہ ہو۔ یقینا یہ افسوسناک بلکہ صدمے کی صورتحال ہے۔