معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان کا تازہ واکھیان ہے کہ وزیر اعظم نے میڈیا کے مسائل کے حل کے لیے سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے وہ خود سربراہ ہونگے۔ عمومی طور پرکمیٹیاں اس وقت تشکیل دی جاتی ہیں جب کسی معاملے کو داخل دفتر کرنا ہو۔ بہتر ہوگا کہ موجودہ حکومت آزادی صحافت اور اظہار کو یقینی بنائے اور میڈیا کے مالی حالات بہتر کرنے کے لیے سرکاری اشتہارات پر قدغن ختم کر کے اس کا حجم بڑھائے یا پھر میڈیا کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے نہ جانے کیوں اسے میڈیا سے چڑ سی ہو گئی ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہم میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہر چند ماہ بعد آزاد میڈیا پر کاٹھی ڈالنے کے لیے نت نئے حربوں کا استعمال شروع کر دیاجاتا ہے۔ موجودہ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری جب وزیر اطلاعات تھے تو انہوں نے پی اے ایم آر اے کا شوشہ چھوڑا جس کے مطابق پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے ایک ہی ریگولیٹری قانون تشکیل دینا تھا، جب ان سے کہا گیا کہ پرنٹ میڈیا کے لیے کوئی خصوصی قانون یا ریگولیٹری باڈی نہیں ہوتی جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے لیے میکانزم موجود ہوتا ہے، تو وہ بات سمجھنے سے انکار کرتے ہوئے اپنا موبائل فون لہرانا شروع کر دیتے تھے کہ اخبارات تو اب فرسودہ ہو چکے ہیں اب تمام خبروں کا منبع موبائل فون ہے۔
اخبارات کے لیے تو پہلے ہی پریس کونسل آف پاکستان موجود ہے لیکن یہ جس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی اسے پورا نہیں کر پائی۔ فواد چودھری کی وزارت تبدیل ہونے کے بعد پی اے ایم آر اے کا شوشہ اپنی موت آپ مرگیا۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان جو خاصے پاپڑ بیل کر معاون خصوصی اطلاعات بنی ہیں، کے لیے یہ وزارت نئی نہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف زرداری کی خوشنودی حاصل کرکے وزیر اطلاعات بنی تھیں۔ توقع تھی کہ وہ میڈیا کے معاملات کو بہتر طور پر ہینڈل کریں گی لیکن وہ دن میں کئی مرتبہ مختلف نیوز چینلز پر گفتگو کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کا بنیادی فریضہ یہی ہے کہ وہ حکومت کی ترجمان اعلیٰ بنی رہیں اور ان کو وزارت اطلاعات کے معاملات سے زیادہ دلچسپی نہیں لگتی۔ انہوں نے بھی چند ماہ قبل میڈیا کے لیے خصوصی عدالتوں کا شوشہ چھوڑا تھاحالانکہ وہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی جدوجہد سے یکسر لاعلم نہیں ہونگی۔ پریس اینڈ پبلی کیشنزآرڈیننس کے خلاف جدوجہد میں بطور صدر سی پی این ای میں بھی شریک تھا، بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اخبارات کے لیے خصوصی قانون، ضابطے اور عدالتیں نہیں ہونی چاہئیں لیکن میڈیا کو بھی مادر پدر آزاد نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا احتساب رائج قوانین کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ مشیر اطلاعات کی میڈیا کورٹس کی تجویز پر منفی ردعمل کے بعد دوبارہ اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اب نئی کمیٹی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی گفتن نشستن برخاستن سے زیادہ نہیں ہوگی کیونکہ وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت کہاں۔
اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ میڈیا پر نت نئی قدغنیں لگائی جاتی ہیں جن کی اونرشپ لینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ گزشتہ 15 ماہ میں کئی چینلز آف ائیر ہوئے، بعض سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز ٹرانسمیشن کے دوران روک دئیے گئے۔ دوسری طرف بعض اخبارات کی ڈسٹری بیوشن پر بھی رکاوٹیں کھڑی کرنا معمول کی کارروائی بن گئی ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ سزا یافتہ لوگوں کو چینلز پر نہ دکھایا جائے، لیکن اس کے ساتھ ایسے سیاسی رہنما جو سزا یافتہ نہیں ہیں اور ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں ان پر بھی پابندی لگانے کی باز گشت سنی جا رہی ہے اس حوالے سے حکومت اب پارلیمنٹ میں بھی قانون لانے پر غور کر رہی ہے۔ حکومتی زعما بڑے پولے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم تو کچھ بھی نہیں کر رہے پھر نہ جانیـ 'غائب' سے یہ پابندیاں کون لگا رہا ہے۔ جہاں تک میڈیا ورکرز کی تنخواہوں کا تعلق ہے وہ واقعی ایک حل طلب اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ بعض میڈیا ہاؤسز نے کارکنوں کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نیچے لگائی ہوئی ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے مالکان اقتدار کے ایوانوں کے قریب ترین ہیں اور ان کے اخبارات ان کے غیرسرکاری ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ یقیناً وہ میڈیا جو سرکاری اشتہارات بھی اینٹھتا ہے اور کارکنوں کو تنخواہیں نہیں دیتا اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اخبارات کے لیے اشتہارات کا کوٹہ بڑھائے اور ساتھ ہی ایسا میکانزم بھی بنایا جائے کہ اخبارات اور میڈیا ہاؤسز اپنی آمدنی سے کارکنوں کو بروقت تنخواہیں ادا کریں۔
ایک بات جو سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسی حکومت اور سیاسی جماعت جو آزاد میڈیا سے بھرپور طور پر مستفید ہوئی ہے اب اس میڈیا سے خائف کیوں ہے؟ 2014ء میں 126 دن کے خان صاحب کے دھرنے اور ان کے ساتھ ڈی چوک سے متصل ڈاکٹر طاہر القادری کے نسبتاً مختصر عرصہ کے دھرنے کی لائیو کوریج اسی میڈیا نے تو کی تھی، اس وقت کسی نے نہ تو پابندی لگائی اور نہ ہی اس بارے میں سوچا۔ ہر روز شام سات بجے سے نصف شب تک مختلف چینلز کے پروگرامز میں تحریک انصاف کے رہنما فروکش ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے ترجمانوں کی فوج ظفر موج بنا رکھی ہے جن کو وہ وقتاً فوقتاً خود ہدایات دیتے رہتے ہیں گویا کہ حکمران جماعت میڈیا کی اہمیت کوبخوبی سمجھتی ہے لیکن حکومتی اجلاسوں میں میڈیا پر تنقید بھی کی جاتی ہے، وہاں خان صاحب کویہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہماری حکومت تو بہت اچھے کام کر رہی ہے لیکن میڈیا اپنے منفی رویے کی وجہ سے ان کی تشہیر نہیں کرتا۔ اس ضمن میں ترجمانوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ میڈیا کی آزادی کا یہ جن ایک دہائی قبل بوتل سے باہر آچکا ہے، اب اسے واپس بوتل میں بند کرنے کی کوشش خود حکومت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ حکمران جماعت کے ذمہ داران کے اس رویے کی تازہ مثال وزیر بحری امور علی زیدی کی حالیہ پریس کانفرنس ہے جب ان سے ایک صحافی نے ان کی وزارت کی گزشتہ 15 ماہ کی کارکردگی کے حوالے سے سوال کیاتو وہ برہم ہو گئے اور جواب دینے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ رویہ غیر جمہوری ہے۔ معلومات تک رسائی میڈیا کا حق ہے اور حکومتوں کو آئینہ دکھانا اس کا منصبی فریضہ ہے۔ میڈیا کو بھی اپنے اوپر حکومتی نکتہ چینی سے نہیں گھبرانا چاہیے، اگر ہم خود کسی پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو اپنے اوپر تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ بھی تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہیے کہ صحافی کوئی عقل کل نہیں ہیں، ان میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ صحافتی آزادی کو ذمہ داری سے استعمال کرنا چاہیے بصورت دیگر کہیں وہ عناصر جو اسے سلب کرنے کے در پے ہیں شب خون مارنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔