Sao Din
Arif Nizami92 News803
تحریک انصاف کی حکومت کے اپنے ہی مقرر کردہ پہلے سو دن کی مدت عنقریب پوری ہونے والی ہے جب وہ اپنے حسن کارکردگی یا عدم کارکردگی کا آ ڈٹ کرے گی۔ ویسے تو وطن عزیز میں کسی بھی حکومت سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ پہلے سو دن میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدے گی لیکن وزیر اعظم عمران خان نے چونکہ خود ہی کارکردگی کے حوالے سے اپنی حکومت کا تین ماہ سے کچھ زائد عرصے کا ہدف مقرر کیا تھا اس لیے اس کا جائزہ لینا فطری امر ہے۔ دیکھا جائے تو حکومت نے اس مدت میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی اور نہ ہی کوئی بڑی ناکامی سامنے آئی ہے تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ آئندہ کے لیے تحریک انصاف کا طرز حکومت کیا ہو گا۔ اپوزیشن کے ساتھ بقائے باہمی اس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ عمران خان کے نزدیک پیپلزپارٹی ہویا مسلم لیگ(ن) دونوں ہی کرپٹ ہیں اور ان کو اپنے کردہ گناہوں کی سزابھگتنا پڑے گی۔ ان کا برملا طور پر کہنا ہے کہ ہم نے تو الیکشن ہی کرپشن کے خاتمے کے نعرے پرجیتے ہیں، لہٰذا ہم اس مشن سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ غالباً اسی لیے ڈنکے کی چوٹ پر اپوزیشن کو کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔ لفظوں کی جنگ اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ پارلیمنٹ کا چلنا محال نظر آرہاہے۔ حکومتی ترجمان بالخصوص وزیر اطلاعات فواد چوہدری تندوتیز بیانات کی سیاست کو خوب پروان چڑھا رہے ہیں اور آخری حدیں چھونے سے بھی نہیں چو کتے اور ایسا کیونکرنہ ہو جبکہ وہ اپنے لیڈر کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ چند روز قبل ہی فواد چوہدری کا چیئرمین سینیٹ صا دق سنجرانی نے سینیٹ کے باقی ماندہ سیشن میں داخلہ بندکر دیا۔ یہ انتہائی قدم تھا جواس سے پہلے شاید ایک بار خواجہ محمد آصف کو اس وقت کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے دس یوم کے لیے سینیٹ سے نکال دیا تھا۔ جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس میں اپوزیشن نے فواد چوہدری کے قابل اعتراض جملوں پر احتجاج کیا تو چیئرمین نے رولنگ دے دی کہ فوادچوہدری معافی مانگیں ورنہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ بجائے کہ اس معاملے کو افہام وتفہیم سے طے کیا جاتا بقول فواد چوہدری وزیر اعظم کا کہنا ہے کسی کو وزراء کی تضحیک کا حق نہیں، میں منتخب ہو کر آیا ہوں لاکھوں لوگوں نے مجھے ووٹ دیئے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر نہیں آئے اگر چیئرمین سینیٹ ایوان میں توازن نہیں لا سکتے تو پھر حکومت بھی اپنا لائحہ عمل بنائے گی۔ ان کی یہ ملفوف دھمکی پورے ایوان کی توہین کے زمرے میں ہی آئے گی۔ واضح رہے کہ صادق سنجرانی اس وقت تحریک انصاف کی تائید وحمایت اورپیپلز پارٹی کے ووٹوں سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔ فی الحال تو ان کواس لیے برداشت کرنا پڑے گا کہ تحریک انصاف سینیٹ میں اکثریتی پارٹی نہیں ہے لیکن بحیثیت مجموعی حکومت کو یہ سوچنا پڑے گا کہ اگر اس نے اپنا قانون سازی کا ایجنڈا آگے بڑھانا ہے تو اس کے لیے اپوزیشن سے کچھ نہ کچھ بقائے باہمی کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔ ویسے تو سیاسی طور پر شاید عمران خان کو بھی تقسیم کرواورحکومت کروکے فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی سے بنا کر رکھنی چاہیے تھی لیکن وہ اس قسم کی مصلحتوں سے بالاتر ہیں۔ ان کی اسی حکمت عملی کی بنا پر ماضی میں ایک دوسرے کے سیاسی حریف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قریب آ تے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف آصف علی زرداری جن کے گرد پرا نے کیسز کھول کر احتساب کے نام پر گھیراتنگ کیا جا رہا ہے، بھی کچھ اکتا سے گئے ہیں۔ انھوں نے بدین میں یہ کہہ کر میں سندھی کے بجائے اردو میں تقر یر کر رہا ہوں تا کہ اسلام آباد والوں کوسمجھ آ جائے انھوں نے کہا کہ جعلی مینڈیٹ والے ڈیلیور نہیں کرسکتے۔ غالباً ان کا مخاطب فوجی قیادت ہے۔ اس سے پہلے بھی جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے تو آصف زرداری کو’بلا دودھ پی جاتا ہے، والی تقریر کی پاداش میں جلا وطنی میں لندن جاناپڑ گیا تھا۔ فی الحال عمران خان کا کلہ مضبوط ہے ان کا عسکری قیادت سے تال میل مثالی ہے جس کی ماضی قریب میں سیاسی حکومتوں کے دور میں مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم بلا روٹوک اپناکام کر رہے ہیں اور فوج اپنا لیکن آپس میں دوستانہ مشاورت کاعمل جاری وساری ہے۔ اسے یقینا نئی حکومت کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ فوادچوہدری نے کابینہ کے حالیہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ نوید سنائی کہ حکومت کے ذمے اخبارات کے بقایاجات 230ملین جلد ادا کر دیئے جائیں گے۔ ساتھ ہی یہ واکھیان بھی دیا کہ میڈیا کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے اصول کے تحت اپنا بزنس ماڈل بنایا چاہیے۔ نہ جانے یہ لیکچر صرف میڈیا کو ہی کیوں دیا جا رہا ہے۔ حکومت کئی نجی صنعتوں کو ہر قسم کی مراعات جن میں سبسڈی، ڈیوٹیزمیں چھوٹ، سستی بجلی اور گیس شامل ہے دے رہی ہے تو کیا میڈیا کو اس بات کی سز ادی جا رہی ہے کہ اس کے ایک غالب حصے نے پچھلی حکومت سے اشتہارات اینٹھ کر اس کی دامے درمے سخنے حمایت کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ گندم کے ساتھ گیہوں کو بھی پیس دیا جائے۔ حکومت کو میرٹ کی بنیا د پر میڈیا پالیسی مرتب کرنی چاہیے اور سرکاری اشتہارات کا حجم بڑھانا چاہیے۔ اخبارات کا انحصار پرائیویٹ سیکٹر اور سرکاری اشتہا رات پر ہوتاہے اور اس وقت ملک میں نجی شعبے کا جوحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس بنا پر میڈیا بھی سسک سسک کر مررہا ہے۔ حکومت کے لیے سو دنوں میں سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی کا ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ سابقہ حکومت بیڑہ غرق کر گئی تھی نہ عوام کے پیٹ بھرتے ہیں اور نہ ہی روزگار فراہم ہوتا ہے۔ انھیں تو یہی نظر آتا ہے کہ روپے کی قدر کو یکدم گرادیا گیا اور بجلی اور گیس کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف جو اقتدار میں آنے سے پہلے کہتی تھی ہم قر ضے لینے سے بہتر ہے خود کشی کر لیں، کشکول لے کردنیا بھر میں پھر رہی ہے۔ ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں ہوئی کہ دوست ملک چین سے ہمیں کیا ملا ہے اور سعودی عرب کے پیکج کی جزئیات کیا ہیں۔ دوسری طرف بجٹ کا خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ آسمان سے باتیں کر رہاہے۔ اس سال ماہ اکتوبر اور گزشتہ برس اکتوبر کے ایک سال کے عرصہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری55فیصد کم ہو گئی ہے۔ یقینا جب مقامی سرمایہ کاروں کو نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہو اور سب کو چور اور لیٹرے تصور کیاجارہا ہو، جو حکومت کے بقول اپنی دولت بیرون ملک لے گئے ہیں۔ ایسے ماحول میں کون سرمایہ کاری کرے گا بلکہ اس وقت بہت سے مقامی سرمایہ کار دل برداشتہ ہو کر گھربیٹھے ہیں یا خاموشی سے ملک چھوڑنے کی تیاری کررہے ہیں یا چھوڑچکے ہیں۔ ویسے بھی جب مقامی سرمایہ کاری ہی نہیں ہو گی تو باہر سے سرمایہ کاری کیسے ہو گی۔ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ اسلام آباد میں مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ یہ پیکج کتنا ہوگا اور اگر ملا بھی تو کن شرائط پر۔ معیشت کی یہ صورتحال قابل ستائش نہیں ہے اور عمران خان جہاں سودن پورے ہونے پراپنے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے انھیں وزیر خزانہ اسدعمر کی پرفارمنس کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ اقتصادیات کے ساتھ ساتھ گورننس کا مسئلہ بھی ہے جو پاکستان کی قریباً تمام سیاسی حکومتوں میں کمزور رہا ہے اورموجودہ حکومت بھی اس حوالے سے کوئی بڑی کامیابی نہیں دکھاسکی۔ یہ کہنا کہ بیوروکریسی ہمارے حکم کے تابع ہے، صحیح اپروچ نہیں ہے۔ یقینا بیوروکریسی اور پولیس کو سیاسی حکومتوں کے احکامات پر عمل درآمد کرنا چاہیے لیکن اس میں غیرقانونی فیصلوں پرکورنش بجالانا شامل نہیں کیونکہ سرکاری ملازم ریاست پاکستان کے ملازم ہیں، سیاستدانوں کے ذاتی ملازم نہیں۔"خان صاحب نے جوبات بھی کی خداکی قسم لاجواب کی"۔ ان کا تازہ واکھیان ہے کہ یوٹرن لینا اچھے لیڈر کی نشانی ہے جو یوٹرن نہ لے وہ سیاستدان ہی نہیں۔ صرف احمق ہی اپنی بات پر ڈٹ جاتا ہے۔ خان صاحب ذرا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس فرمان پر ہی غور کر لیں۔"Think a Hundred times before you take a decision، but once that decision is taken، stand by it as one man."گویا کہ بابائے قوم خاکم بد ہن قیام پاکستان کے کے مطالبے سے ہی یوٹرن لے جاتے تو پھر پاکستان ہی نہ بنتا۔