منگل کے روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کی گرفتاری کے لیے ان کی ماڈل ٹاؤن میں اقامت گاہ پر نیب کے ناکام چھاپے سے جو ڈرامہ شروع ہوا تھا وہ اگلے ہی روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق عباسی اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 2 رکنی بینچ کے کورٹ روم میں اس وقت ختم ہو گیا جب فاضل ججوں نے 17جون تک ان کی عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کر لی۔ تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود شہبازشریف نیب کے ہتھے نہ چڑھے اور وہ انہیں جُل دینے میں کامیاب رہے لیکن اس سے احتساب کے اس ادارے کی حیثیت جو پہلے ہی متنازعہ چلی آ رہی تھی، مزید خراب ہوئی ہے۔ بعد دوپہر شہبازشریف کی اقامت گاہ کو پولیس کی بھاری نفری کے ذریعے حصار بنا کر غیر رسمی طور پر نو گو ایریا بنا دیا گیا اس سے وہاں کی رہائشی آبادی میں رہنے والے لوگ بھی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے، نیب کے اہلکار جن میں تین خواتین بھی شامل تھیں جس انداز سے سابق وزیر اعلیٰ کے گھر میں زبردستی گھس گئے یہ بھی ہماری سماجی روایات کے خلاف ہے۔ تمام تر کوششوں اور موقع پر موجود مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ سے ہاتھا پائی کے باوجود مطلوب ملزم جسے نیب پہلے ہی مجرم قرار دے چکی ہے برآمد نہ ہو سکے۔ ماڈل ٹاؤن میں سرچ آپریشن کے بعد جاتی امرا اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سہیل شوکت بٹ کے ڈیروں پر چھاپے بھی بارآور ثابت نہ ہوئے۔ باخبر حلقوں کے مطابق اس آپریشن کے دوران شہبازشریف اپنے گھر میں ہی موجود تھے لیکن ایک پیغام ملنے کے بعد پولیس وہاں سے چلی گئی۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نیب کس کے حکم پر شدید ہذیانی کیفیت طاری کرتی ہے کہ شہبازشریف کو ہر حال میں پکڑنا ہے اور یہی صورتحال لاہور ہائیکورٹ کے ارد گرد اگلے روز جہاں شہبازشریف نے پیش ہونا تھا جاری رہی حتیٰ کہ رانا ثناء اللہ کے بقول جو پہلے ہی مبینہ منشیات سمگلنگ کے کیس میں ضمانت پر ہیں کی ریگل چوک پر گاڑی روکنا اور اس کی تلاشی لینے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ رانا ثناء اللہ نے بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان پر پھر کہیں 15کلو ہیروئن نہ ڈال دی جائے، میڈیا کی موجودگی کے بغیر تلاشی دینے سے انکار کر دیا۔ شاید نیب کی کوشش یہ تھی کہ شہبازشریف کو عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے حالانکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ غالباً عدلیہ کے حکم پر ہی پولیس کو ہائیکورٹ کے ارد گرد اپنا حصار ختم کرنا پڑا اور شہبازشریف وقت مقررہ سے کچھ دیر بعد ہی عدالت میں پیش ہو گئے۔
اس افسوسناک ڈرامے سے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ شہبازشریف نے کورونا وبا کو جواز بنا کر پیشی کے بجائے اپنا جواب نیب میں جمع کرا دیا تھا اور سکائپ کے ذریعے مزید تفتیش پرآمادگی کا اظہارکیا تھا، انہیں گرفتار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ۔ خادم اعلیٰ بھی نیب کے مخصوص طریقہ کار سے اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ اکتوبر2018ء میں انہیں صاف پانی کمپنی کے کیس میں بلا کر آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کیس میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ 133دن کے جسمانی اور جوڈیشل ریمانڈ کے بعد جب گزشتہ سال فروری میں لاہور ہائیکورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تو معزز عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں نیب کے بارے میں انتہائی سخت ریمارکس دیئے تھے اور شہبازشریف پر جو کیس سامنے بنائے گئے تھے انہیں بے جان قرار دیا تھا۔
شہبازشریف کی دوبارہ گرفتاری کے حوالے سے ضمانت کا فیصلہ حیران کن نہیں ہے۔ جب سے میاں صاحب لندن سے دو ماہ قبل کورونا سے لڑنے کا اعلان کر کے وطن واپس آئے ہیں ان کے ارد گرد حصار تنگ کیا جا رہا ہے۔ منی لانڈرنگ، آمدن سے زیادہ اثاثوں کے حوالے سے حالیہ ہفتوں میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر دو پریس کانفرنسیں کر چکے ہیں جن میں شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے فرنٹ مینوں کے بیانات علاوہ کچھ دستاویزات بھی دکھائی ہیں۔ اس پر مستزاد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی مسلسل گردان کہ عید کے بعد نیب دو طرفہ ٹارزن بنے گا واضح ہوتا جا رہا تھا کہ شہبازشریف کو دوبارہ پکڑنے کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ میاں صاحب جب سے لندن سے واپس لوٹے ہیں انہوں نے خود کو اپنی اقامت گاہ تک محدود کر رکھا ہے۔ لیپ ٹاپ پر چند انٹرویو دینے کے علاوہ عملی طور پر ان کی کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہے، اسی طرح ان کے سٹاف کے چند ارکان کے مبینہ طور پر کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد انہوں نے اپنے لیے کورنٹین کو مزید سخت کر دیا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں بتایا تھا کہ شہبازشریف کے نیم دروں نیم بروں رویئے پر خود ان کی پارٹی میں سوالات اٹھ رہے تھے۔ نوازشریف لند ن میں کافی پی رہے تھے اور شہبازشریف کورونا سے لڑنے کے باوجو د خودکو گھر میں محصور کر کے بیٹھے تھے جس سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت غیر فعال ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ صورتحال جس میں شہبازشریف اچھے بچے، بنیں حکومت کو سوٹ کرتی تھی لیکن جس اندازسے اب انہیں ٹارگٹ کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ حکومت اپوزیشن لیڈر کو اب بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے غالباً اس بنا پر کہ وہ شاید اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول ہیں۔ اس لیے انہیں گندا کر کے اندر کرنا کورونا جیسی موذی وبا جو حکومت کی اپنی رپوٹوں کے مطابق ملک بالخصوص پنجاب میں تیزی سے بڑھ رہی ہے پر قابو پانے سے زیادہ اہم میاں شہبازشریف کا احتساب کرنا ہے۔
میاں صاحب کو یقینا کرپشن کے الزامات کا شق وار تفصیلی جواب دینا چاہیے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے شہزاد اکبر کی باسی کڑی میں ہر چند ماہ کے بعد کیوں ابال آتا ہے جیسا کہ وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری نے92 نیوز پر میرے پروگرام ہو کیا رہا ہے، میں کہا کہ" نوازشریف کے باہر جانے سے ہمارے احتساب کے بیانیے کو زد پہنچی، یہ تو سب جانتے ہیں کہ ان پر کوئی کیس جھوٹا نہیں لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کیس پہلے ہوئے ہیں ان کا کوئی نتیجہ نکلنا چاہئے، لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب کا کردار گورنمنٹ ود ان گورنمنٹ ہے، یہ تصور ہے کہ روزانہ نئے کیس آ جاتے ہیں لیکن پچھلے مقدمات کا کوئی پتہ ہی نہیں، ہمارے اختیار میں پراسیکیوشن ہے نہ انویسٹی گیشن، نیب نے اپنا دائرہ کار اتنا بڑھا دیا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں لگ رہی کہ کونسا کیس منطقی انجام تک پہنچانا ہے، اگر گورنمنٹ نیب گٹھ جوڑ ہوتا تو نوازشریف اور شہبازشریف کو سزائیں ہو چکی ہوتیں "۔ فواد چودھری کی بات اپنی جگہ لیکن اس معاملے میں حکومتی ترجمانوں کے بے سروپا بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں، ان کا یہ کہنا کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کے سربراہ آصف زرداری اورنوازشریف نے مل کر مقرر کئے تھے محض ایک عذر لنگ ہے جسے کوئی شخص تسلیم نہیں کرے گا، ایک لحاظ سے شہبازشریف کی سیاست کا چولہا جو بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا نیب اور کچھ حکومتی ارکان نے اسے دوبارہ گرم کرکے ان پر بہت احسان کیا ہے۔