برطانوی شاہی جوڑے ڈیوک آف کیمبرج شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ ڈچز آف کیمبرج کیٹ میڈلٹن کو اپنے دورہ پاکستان کے دوران خاصی پذیرائی ملی، دورے سے برطانوی اور سوشل میڈیا پر پاکستان کی خاصی تشہیر ہوئی اور مجموعی طور پر پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوا۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک جس میں دلکش قدرتی مناظر، برف پوش پہاڑ، کہساروں کا سینہ چیرتے اور میدانی علاقوں میں پرسکون دریا، بلند آبشاریں، نیلگوں جھیلیں، میدان، ریگستان اور نخلستان سب کچھ موجود ہیں۔ یہاں کے عوام مختلف قسم کی ثقافت اور روایات میں عمومی طور پر اسلام کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کا مغربی میڈیا میں جب نام لیا جاتا ہے تو دہشت گردی، فرقہ واریت، قنوطیت اور بنیاد پرستی کے حوالوں سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت انتہائی مہمان نواز، میانہ رو اور غیر ملکیوں کو جی آیاں نوں کہنے والی ہے حتیٰ کہ بھارت جس سے پاکستان کی تاریخی مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں ہے وہاں کے شہری بھی جب پاکستان آتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ کس انداز سے امیر سے لے کر غریب تک ہر شہری ان کا والہانہ استقبال کرتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے جہادی پالیسیوں اور مخصوص سٹرٹیجک پیراڈائم کی بنا پر مغرب میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ پاکستان تو القاعد ہ، طالبان سمیت انواع و اقسام کے جہادیوں کی پناہ گاہ ہے۔ اس غلط تاثر کو بھارت اور اس کے میڈیا نے اپنے منفی پراپیگنڈے کے ذریعے بھی خاصی تقویت پہنچائی ہے ا ور ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے متواتر واقعات نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاک فوج اور سیاسی حکومتوں نے جن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی شامل ہے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مربوط جنگ کی جس کے نتیجے میں بالخصوص سرحدی قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کی کمین گاہوں کو ختم کیا گیا ہے لیکن دنیا اب بھی ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان ایک پرامن اور محفوظ ملک ہے۔ یہاں فرسٹ کلاس کرکٹ کا قریباً خاتمہ ہو چکا ہے، سری لنکا کی ٹیم حال ہی میں پاکستان آئی تو کھلاڑیوں نے بہت نخرے کئے اورچوٹی کے سری لنکن کھلاڑی اس ٹیم میں شامل نہیں تھے۔ خان صاحب کے دور میں دنیا کی صف اول کی ٹیم کامناسب مواقع نہ ہونے کی بنا پر یہ حال ہو گیا ہے کہ ٹی ٹونٹی کا چیمپئن ہونے کے باوجود ہم سری لنکا کی "بی، ٹیم سے بھی ہار گئے۔ اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حکام پاکستان آنے سے گھبراتے ہیں اور دبئی میں میٹنگز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ خود ہمارا بیانیہ بھی اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کیونکہ ہم خود کو ایک قومی سلامتی کی ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیت استعمال بھی کر سکتے ہیں گویا کہ ہم مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔
اس وقت حکومت ملکی اقتصادیات کو درست سمت پر استوار کرنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیل رہی ہے۔ پاک فوج نے بھی ان کاوشوں میں اپنا ڈول ڈالا ہے کیونکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کے رکن بھی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ملک کے چیدہ چیدہ صنعت کاروں اور تاجروں کوعشایئے پر مدعو کر کے یقین دہانی کرائی کہ نیب انھیں تنگ نہیں کرے گا۔ ہر روز آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے نئے نئے جائزے ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی شرح نمو اور دیگر اقتصادی اعشاریئے اس خطے میں سب سے کم ہیں اور معیشت کا حال پتلا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کیا جائے جس کی طرف ماضی میں پورا دھیان نہیں دیا گیا۔ اب زمینی حقائق بہت بہتر ہو چکے ہیں اور اس کام کے لیے وزیراعظم عمران خان بہترین شخصیت ہیں۔ ایک کرکٹر اور مغرب میں مقبول اور پسندیدہ شخصیت ہونے کی بنا پر وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں، پہلی بیوی جمائما کے حوالے سے وہ برطانیہ کے داماد بھی رہ چکے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کی تقریبات وہیں منعقد کرتے رہے ہیں اور برطانوی رائلٹی سے ان کی قربت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حوالے سے برطانوی سرکار اور پاکستان میں متعین ان کے ہائی کمشنر تھامس ڈریو کو بھرپور کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے مغرب کے لیے پاکستان کے دروازے کھولنے کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی یورپی یا امریکی ائیر لائن سکیورٹی خدشات کی بنا پر پاکستان نہیں آتی حتیٰ کہ سنگاپور ائیرلائن نے بھی پاکستان کے لیے اپنی فلائٹس شروع کر کے دوبارہ بند کر دیں لیکن تھامس ڈریو کی کوششوں سے برٹش ائیر ویز کی فلائٹس اب اسلام آباد باقاعد گی سے آتی جاتی ہیں۔ برطانیہ کا ترقیاتی ادارہ ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کا دنیا میں سب سے بڑا فٹ پرنٹ پاکستان میں ہی ہے۔ انھوں نے تعلیم پر تکنیکی تعاون کے علاوہ پاکستان کو لاکھوں پاؤنڈز سالانہ دیئے ہیں۔ شہزادہ ولیم اورشہزادی کیٹ میڈلٹن اسلام آباد کے جس پبلک سکول میں گئے وہاں بھی DFIDکے پروگرام کا عملی تعاون شامل ہے۔
ڈیوک و ڈچز آف کیمبرج کے لیے دورہ پاکستان کی جذباتی اہمیت بھی تھی۔ پرنس ولیم کی والدہ لیڈی ڈیانا کا پاکستان اور پاکستانیوں سے ایک مخصوص لگاؤ تھا جس کا اس دورہ کے موقع پر بھی برطانوی میڈیا میں خاصا ذکر ہوا۔ ڈیوک نے اسلام آباد میں ایک تقریب میں اپنی والدہ اور والد کے دورے کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ میڈلٹن نے پاکستانی لباس زیب تن کر کے انسٹا گرام پر اپنے لاکھوں پرستاروں کے دل موہ لئے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب لیڈی ڈیانا آخری بار 1996ء میں پاکستان آئیں تو جس فیشن ڈیزائنر نے ان کا لباس تیار کیا تھا اسی فیشن کے ادارے نے ان کی بہو شہزادی کیٹ میڈلٹن کا بھی لباس تیار کیا۔ واضح رہے کہ شہزادی ڈیانا نے1990ء میں پاکستان آنے کا پروگرام بنایا لیکن بے نظیر حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں ان کا دورہ منسوخ ہو گیا لیکن اگلے سال ہی وہ پاکستان آئیں تو وہ ایسے عوام میں گھل مل گئیں جیسے اب شاہی جوڑا ان کے درمیان لطف اندوز ہوتا رہا، خاص طور پر چترال میں کیلاش کی وادی بمبوریت میں جہاں انہوں نے مقامی لوگوں کیساتھ بیٹھ کر چترالی رقص بھی دیکھا۔ واضح رہے کہ لیڈی ڈیانا بھی چترال کا دورہ کر چکی ہیں۔
ولیم کی والدہ کا پاکستان سے اصل ناتا اس وقت قائم ہوا جب 1995ء میں وہ رائل برامپٹن ہسپتال میں جہاں ان کی ایک دوست کا علاج ہو رہا تھا ایک پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان کے عشق میں مبتلا ہو گئیں۔ اس وقت ان کی اپنے شوہر شہزادہ چارلس سے ناچاقی کی خبریں زبان زد عام تھیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ چارلس شروع سے ہی ایک اور شادی شدہ خاتون لیڈی کمیلا پارکر بالز سے محبت کرتے تھے۔ بالآخر چارلس اور ڈیانا کی شادی ٹوٹ گئی اور اب پارکر بالز ان کی اہلیہ ہیں۔ اس تناظر میں لیڈی ڈیانا ڈاکٹر حسنات خان کی والدہ سے ملنے کے لیے 1996ء میں لاہور آئیں۔ اس موقع پر زمان پارک میں عمران خان کی اقامت گاہ پر عشایئے میں میری بھی ان سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر حسنات کے ماموں معروف ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر جواد ساجد نے مجھے بعد میں بتایا کہ ڈیانا حسنات خان کی غالباً ماڈل ٹاؤن والی اقامت گاہ پران کی والدہ کے پاس کئی گھنٹے بیٹھی رہیں لیکن ڈاکٹر حسنات بوجوہ ڈیانا کے ساتھ شادی کرنے سے گریزاں رہے۔ غالباً خان صاحب کی ڈاکٹر حسنات سے دور کی رشتہ داری بھی ہے۔ مزید برآں برطانیہ کے مشہور بزنس مین اورسوشلائٹ گولڈ سمتھ کی صاحبزادی جمائما کی لیڈی ڈیانا سے گہرے دوستی تھی۔ 2000ء میں عمران خان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے لیڈی ڈیانا کی حادثے میں ہلاکت سے صرف تین ماہ قبل حامی بھری تھی کہ وہ لاہور سے لندن جا کر اپنے کزن ڈاکٹر حسنات سے ملیں گے۔ خان صاحب نے اس حوالے سے چینل فائیو کی ایک ڈاکومینٹری" ڈیانا ہرلاسٹ لو، میں انکشاف کیا کہ وہ حسنات سے پوچھنا چاہتے تھے کہ وہ آخر کیوں ڈیانا سے شادی کرنے سے گریزاں ہیں لیکن قدرت نے انھیں موقع ہی نہیں دیا اور وہ1997ء میں پیرس میں مشہور مصری بزنس مین الفائد کے صاحبزادے ڈودی الفائد کے ساتھ اس وقت ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں جب سارا فوٹو گرافر میڈیا ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ڈیانا کا ڈوڈی سے معاشقہ محض حسنات میں حسد کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے تھا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ڈیانا کے دونوں بیٹوں ولیم اور ہیری کا پاکستان سے جذباتی تعلق ہے۔ ولیم اور کیٹ کے حالیہ دورے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے اگر پاکستان کے سافٹ امیج اور ٹورازم کو اجاگر کیا جائے تو ملک کو سرمایہ کاری اور سیاحت کے لیے کھولنے کا کہیں زیادہ فائدہ ہوگا۔