Shehbaz Sharif Ki Zamanat
Arif Nizami92 News818
سابق وزیراعلیٰ پنجاب، مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں کی جسٹس ملک شہزاد احمد اور جسٹس مرزا وقاص رؤف پر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کی طرف سے ضمانت پر رہائی نے یکدم سیاسی منظر بدل کر رکھ دیا ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا موقف مان لیا جائے تو کوئی بھی رکن اسمبلی ترقیاتی کام نہیں کرائے گا، شہباز شریف رمضان شوگر ملز کے کبھی چیف ایگزیکٹو نہیں رہے، آپ نے حمزہ کی ضمانت کی درخواست میں کہا کہ اس کی گرفتاری کی ضرورت نہیں، جو مرکزی فائدہ حاصل کرنے والا تھا اسے کہتے ہیں کہ اس کی گرفتاری کی ضرورت نہیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمد نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم نے دیکھنا ہے یہ تمام تحقیقات کن پیرا میٹرز پر ہو رہی ہے، وجہ تو اس کے پیچھے کوئی اور ہے، اس کو گرفتار نہیں کرنا تو کیا اس کے باپ کو گرفتار کر لیں؟ ۔ بینچ کے ضمانت منظور کرنے کے ساتھ ساتھ ریمارکس سے لگتا ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کے دونوں کیسوں میں جان نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما"آزاد عدلیہ"کے حق میں ڈونگرے برسا رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی صفوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ شہبازشریف کے خلاف نیب کا کیس بھی اس کے ہتھ چھٹ رویے کی عکاسی کرتا ہے، جس انداز سے شہبازشریف کو گزشتہ برس اکتوبر میں صاف پانی کیس میں نیب لاہور کے ہیڈ کوارٹرز بلا کر آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں دھر لیا گیا تھا، ناقدین کے مطابق اس سے انتقامی کارروائی کی بو آتی تھی۔ نیب نے 80 روز تک تو ان کو اپنے پاس ریمانڈ پر رکھا اور بعدازاں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں شہبازشریف پر الزام تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ایک ایسی پراکسی فرم کو ٹھیکہ دیا جس کی وجہ سے یہ ہاؤسنگ سکیم ناکام ہو گئی اور یہ سب کچھ نہ صرف بدنیتی پر مبنی تھا بلکہ کمپنی کے ایکٹ کی بھی خلاف ورزی تھی۔ اسی طرح رمضان شوگر ملز کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں 20 کروڑ روپے خزانے سے خرچ کر کے ایک ڈرین بنائی گئی۔ ہائیکورٹ کے بینچ کے سربراہ جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا کہ ضلع چنیوٹ میں اور ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں؟ تو شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ سیوریج اور اس سے متعلقہ دیگر کام بھی ہوئے ہیں، ان کی پنجاب اسمبلی اور کابینہ نے باقاعدہ منظوری دی تھی۔ شہبازشریف کے وکیل نے طبی بنیادوں پر بھی ضمانت کی درخواست دی تھی کہ 1994ء سے انہیں شاٹیکا کی شکایت ہے جس کیلئے انہیں باقاعدہ فزیو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب نے ریفرنس دائر کئے بغیر انہیں 6 دسمبر تک اپنی تحویل میں رکھا کیونکہ جوڈیشل ہونے کے بعد ملزم کی ضمانت ہو سکتی ہے۔ نیب کے اس اقدام سے بھی انتقام کی بو آتی ہے۔ بعض مبصرین کا تو یہ کہنا تھا کہ میاں نوازشریف اس وقت ضمانت پر رہا تھے لہٰذا بیلنس کرنے کیلئے شہبازشریف کو پکڑنا ضروری ہو گیا تھا۔ پی ٹی آئی اس فیصلے پر سخت برہم ہے، کابینہ کی سطح پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے اور فواد چودھری فرما رہے ہیں کہ نیب نااہل ہے۔ برادر خورد کی رہائی سے وہ لوگ جن میں شیخ رشید پیش پیش تھے کہ ایک ملزم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کیسے بن سکتا ہے کے پراپیگنڈے سے ہوا نکل گئی ہے۔ چند ہفتے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کیساتھ بقائے باہمی کیلئے شہبازشریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی دی تو اس وقت بھی وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چودھری اس پر سخت معترض تھے، شیخ رشید تو اپنے تحفظات کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے رہے اور انہوں نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان بھی کر دیا جبکہ فواد چودھری خاموشی اختیار کر گئے لیکن بعدازاں اچانک شہبازشریف کے منی بجٹ پر ریمارکس کہ عمران خان سیلیکٹڈ وزیراعظم ہیں کے بعد پوری کابینہ نے ہی ان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کو مسترد کر دیا اور مطالبہ داغ دیاکہ شہبازشریف مستعفی ہو جائیں۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی ڈٹ گئی کہ اگر شہبازشریف کو ہٹایا گیا تو پوری اپوزیشن نہ صرف بنیان مرصوص بن کر اس کی مخالفت کریگی بلکہ خورشید شاہ کے بقول پارلیمنٹ کو بھی نہیں چلنے دے گی۔ ویسے تو اب بھی کہا جا سکتا ہے کہ شہبازشریف ضمانت پر رہا ہوئے ہیں اور تاحال نیب کے ملزم ہیں لہٰذا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حقدار نہیں ہیں اور انہیں یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہئے، لیکن اب اس استدلال میں کوئی وزن نہیں رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمران جماعت اور اس کے سربراہ عمران خان سیاسی محاذ آرائی میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ اپنا نفع نقصان بھی نہیں دیکھتے۔ شیخ رشید کی مہم کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ انہیں ریاض فتیانہ کی جگہ اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن بنایا جائے۔ شیخ رشید نے سپیکر اسد قیصر پر بھی رکیک حملے کئے جس کے جواب میں انہوں نے پلہ نہ پکڑاتے ہوئے صاف کہا کہ میں قانون، قواعد و اصولوں کے تحت کام کرتا ہوں اور شیخ رشید کی دھمکیوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ راجہ ریاض اور ریاض فتیانہ توکھل کر سامنے آئے، اس کے علاوہ تحریک انصاف کے بعض دیگر ارکان نے بھی شیخ رشید کی اس روش کا برا منایا۔ سپیکر اسد قیصرکا شمار تحریک انصاف کے بانی ارکان میں ہوتا ہے، وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر بھی رہ چکے ہیں، ان کے خلاف عدم اعتماد کی دھمکیوں کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ دوسری طرف شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ ان کی اس مہم کو وزیراعظم عمران خان کی آشیرباد حاصل ہے۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک حلیف جماعت کا واحد رکن قومی اسمبلی وزیراعظم سمیت پوری حکمران جماعت کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے۔ شیخ رشید سمیت مسلم لیگ ن کے مخالفین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حوالے سے اپنی مہم جوئی جاری رکھ سکتے ہیں لیکن جیسا کہ پنجاب کے وزیر ہاؤسنگ محمود الرشید نے بجا طور پر کہا ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم کوئی انتقامی کارروائی نہیں کر رہے اور ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کسے پکڑو اور کسے چھوڑ دو۔ تحریک انصاف کے سنجیدہ رہنماؤں کا یہی طرز عمل ہونا چاہئے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ اپوزیشن اور حکومتی پارٹی بیٹھ کر ایوان کو جس میں ابھی تک کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہو سکی کو خوش اسلوبی سے آگے چلانے کیلئے حکمت عملی تیار کریں۔ اس ضمن میں سپیکر کی سربراہی میں ایتھکس کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں آصف زرداری اور شہباز شریف بھی شامل ہیں کو فعال کرنا چاہئے اور شیخ رشید کو بھی اپنے محکمے ریلویز کی طرف زیادہ توجہ دینی جسے اب تک وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے میانوالی تک ٹرینیں چلانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ مزید برآںحکومتی جماعت اور اپوزیشن کو مل کر نیب قانون میں انصاف کے آفاقی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ترامیم کرنی چاہئیں۔