Sheikh Rasheed Banam Fawad Chaudhry
Arif Nizami92 News911
وزیر ریلوے شیخ رشید کی وزیر اطلاعات فواد چودھری کے حوالے سے پرانے اور نئے میڈیا پر لیک ہونے والی گفتگو سے چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ لگتا ہے کہ شیخ صاحب کا ریلوے میں دل نہیں لگ رہا اور اب ان کے دل میں وزارت اطلاعات کی خوا ہش مچل رہی ہے۔ شیخ رشید شاکی ہیں کہ وہ جب ایک پریس کانفرنس میں ٹرینوں کے کرائے بڑھانے کے پس منظر میں بات کر رہے تھے تو وہا ں ساتھ بیٹھے افرادکے ساتھ نجی گفتگو میں یہ ڈینگ مار رہے تھے کہ جمعے کو وزیر اعظم سے ان کی چار ملاقاتیں ہوئیں جس میں انھیں وزارت اطلاعات کی پیشکش کی گئی، میڈیا نے جب اس بابت شیخ صاحب سے سوال کیا تو ان کا فرمانا تھا وزیراعظم نے کہا تو میں کہوں گا ’آئی لو یو، تھینک یو ویری مچ، بعدازاں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ فواد چودھری آٹھ دن سے لندن میں پکنک منا رہے ہیں، میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ واپس آ جائیں۔ اب شیخ صاحب کے اس فقرے کی کس طرح تشریح کی جائے یا تو وہ کہہ رہے تھے شکریہ بہت بہت لیکن میری معذرت، یا یہ کہ میری خدمات حاضر ہیں۔ میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے، میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متذکرہ فقرہ ان کی معذرت تھی۔ موصوف کو گلہ ہے کہ میڈیا نے ان کی نجی گفتگو کو اچھالا لیکن شیخ صاحب سے بہترکون جانتا ہے کہ سیاستدان کے میڈیا پر منکشف ہونے والے ارشادات نجی ہوں یا علانیہ، خبر، خبر ہوتی ہے۔ وزارت میں آنے سے پہلے لال حویلی کے باہر شیخ صاحب کے انٹرویوزکرنے کے لیے نیوز چینلزکی لائن لگی ہوتی تھی۔ انھیں تو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ٹاک شوز کے شروع ہونے سے پہلے اور وقفوں کے دوران جب مائیک لگ گیا ہو یا پریس کانفرنس جہاں مائیک ہوں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، اس دوران کی جانے والی گفتگو کئی مرتبہ لیک ہو چکی ہے۔ شیخ رشید کے لیے وزارت اطلاعات کا قلمدان کوئی نیا نہیں ہے، وہ نوازشریف کی پہلی کابینہ میں وزیر اطلاعات تھے اور بعدازاں پرویز مشرف کے دور میں بھی یہ قلمدان ان کے پاس تھا۔ ان کے مطابق وہ چار مرتبہ وزیر اطلاعات رہ چکے ہیں۔ شیخ صاحب جب پہلی بار وزیر اطلاعات بنے تو ان کے باس نواز شریف میڈیا کی کھلی تنقید سے شاکی رہتے تھے۔ شیخ صاحب نے اس کا حل یوں نکالا کہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ایک میڈیا سیمینار کا انعقاد کر ڈالا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہری سندھ میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا، اس لسانی تنظیم نے الطاف حسین کے حکم پر’ڈان، اور’جنگ، کی تقسیم بند کر دی تھی مجھے بطور صدر سی پی این ای الطاف حسین کیساتھ رات بھر مذاکرات کرنا پڑے۔ اس موقع پرفرہاد زیدی صدر اے پی این ایس، ڈان کے اس وقت کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو حمید ہارون اور جنگ کے میر جاوید الرحمن جو میر خلیل الرحمان کے صاحبزادے ہیں بھی وہاں بنفس نفیس حاضر تھے۔ رات بھر مذاکرات کے نتیجے میں دونوں پبلشروں کی معافی تلافی کرائی گئی اور ڈان اور جنگ کی کراچی میں ترسیل بحال ہو گئی لیکن ساتھ ہی یہ خبر پہنچی کہ ہفت روزہ تکبیر کے دفتر پر حملہ ہو گیا ہے۔ اس پس منظر میں جب چند روز بعد میڈیا سیمینار بلایا گیا تو میں بطور صدر سی پی این ای نواز حکومت کے سرد مہرانہ رویے پر خاصا برہم تھا۔ شیخ صاحب نے وزیراعظم نوازشریف کی موجودگی میں سیمینار کے موقع پراخبارات کو خوب کوسا اور یہ جملہ بھی کہا کہ یہ اپنے خیالی پلاؤ کو تجزیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں نیز یہ کہ صحافی لفافے لیتے ہیں۔ شیخ صاحب کی تقریر سے مجھے تکلیف پہنچی، میں نے جواباً عرض کیا کہ لفافہ لینے کے علاوہ لفافہ دینے والوں کے بھی نام بتا دیں۔ مجھے بھی طوعاً و کرہاً ترکی بہ ترکی سخت جواب دینا پڑا۔ فطری طور پر سیمینار کے دوران تلخی میں مزید اضافہ اس وقت ہو گیا جب میاں نوازشریف اپنے صدارتی خطاب میں یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ ہم سرکاری اشتہارات صرف سرکاری ٹیلی ویژن پر دیا کرینگے۔ میاں صاحب نے شیخ صاحب کو اس بدمزگی کی سزا یوں دی کہ ان کی وزارت تبدیل کر دی۔ حال ہی میں جب وزیراعظم عمران خان نے کچھ میڈیا مالکان کو بریفنگ کیلئے وزیراعظم سیکرٹریٹ مدعو کیا تو شیخ رشید بھی وہاں موجود تھے۔ واپسی پر لفٹ میں وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ کسی لکھاری نے مشورہ دیا کہ شیخ صاحب آپ وزیر اطلاعات بن جائیں، شیخ صاحب نے شرماتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا اور توبہ توبہ کی لیکن وزارت اطلاعات شیخ صاحب کے میلان طبع کے عین مطابق ہے۔ وہ فقرے بازی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، انھیں وزارت اطلاعات اور حکومت کی ورکنگ کا بھی تجربہ ہے۔ فواد چودھری نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ پیشکش تو کر دی کہ وہ شیخ صاحب کے لیے وزارت اطلاعات چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تا ہم یہ بھی کہا کہ وزارت اطلاعات گناہ بے لذت ہے۔ تاہم وزارت اطلاعات کا ایک نشہ بھی ہے کیونکہ وزیر اطلاعات حکومت کا ترجمان ہوتا ہے اور میڈیا پر اس کا آنا جانا اپنے کابینہ کے باقی ساتھی ارکان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو فوادچودھری بطور وزیر اطلاعات کسی بھی وزیر کی پریس کا نفرنس میں ساتھ ہی براجمان ہوتے ہیں، شاید اس سے تھوڑا سا حسد بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قریبا ًہر وزیر خوشامد کی خاطر یا صدق دل سے یہ کہتا ہے کہ جناب وزیراعظم حکومت بہت اچھا کام کر رہی ہے لیکن اس کی صحیح پروجیکشن نہیں ہو رہی، یہ سب وزارت اطلاعات کا قصور ہے۔ فواد چودھری نے ایک دلچسپ بات کہی ہے کہ مخصوص ایڈورٹائزنگ لابی ان کو نکلوانے کے لیے سازش کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کے ذمے میڈیا کے اشتہاروں کی مد میں بہت سی رقم واجب الادا ہے۔ اس ضمن میں اخباری مالکان کی مخصوص لابی چاہتی ہے کہ ایک ایسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا مالک جو فراڈ کے الزام میں جیل میں ہے کے کلیم کو درست قرار دیکر رہا کر دیا جائے، غالبا ً فوادچودھری کا اشارہ اسی طرف ہے۔ یقینا اس معاملے میں وزیر اطلاعات کے درست استدلال سے اختلافات نہیں کیا جا سکتا لیکن وزیر موصوف کو میڈیا جس شدید مالی بحران کا شکار ہے اس کا بھی کچھ مداوا کرنا چاہیے۔ اس قسم کی نوک جھونک اور ارتعاش سے زیادہ گھبرانا بھی نہیں چاہیے۔ دنیا بھر میں حکومتی پارٹیوں، کابینہ اور اپوزیشن میں مختلف گروپ ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی پیپلز پارٹی میں ایک تو وہ گروپ تھا جو نظریا تی طور پر انقلابی کہلاتا تھا، شیخ محمد رشید اور معراج محمد خان اس کے سرخیل تھے۔ خورشید حسن میر بھی اسی گروپ میں تھے، ڈاکٹر مبشر حسن بھی ان کے ساتھ فلرٹ کرتے تھے جبکہ دوسری طرف غلام مصطفی کھر، مولانا کوثر نیازی تھے جنہیں پیپلزپارٹی کا دایاں بازو قرار دیا جا سکتا تھا، یہ گروپ خاصا طاقتور تھا۔ مسلم لیگ (ن) میں بھی گروپ بندی کوئی نئی خبر نہیں۔ خواجہ آصف اور چودھری نثار علی خان کی تو سالہا سال سے بول چال ہی نہیں تھی۔ جب میاں نوازشر یف جلا وطنی کاٹ رہے تھے تو نثار علی خان اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ جماعت میں ان کے مخالفین طنزاً کہتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) اب نوازشریف نہیں نثار ہیں لیکن آج چودھری نثار علی خان کہاں کھڑے ہیں؟ گروپ بندی یا دھڑے بندی نظریاتی بنیادوں پر بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ پیپلزپارٹی میں تھی۔ جمہوریتوں میں دھڑے بندی کوئی نئی بات نہیں ہے اور بھارت میں بھی یہی معاملہ ہے۔ بعض ناقدین کا تو خیال ہے کہ چانکیا کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو یا باس اختلافی نکتہ نظر رکھنے والوں کو برسرپیکار کروا کر ’اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، تاکہ کوئی بھی ایک گروپ اتنا طاقتور نہ ہو کہ وہ باس کو چیلنج کر سکے لیکن وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں ابال محض اس لیے ہے کہ وزراء کے پہلے سو روزہ امتحانات ہو رہے تھے اور کچھ لوگ ’دا، لگانے کی جستجو میں تھے۔ خان صاحب نے سب کو پاس نمبر دے کر جان چھڑا لی۔ ویسے بقول شیخ صاحب ان کی کارکردگی کو نمبر ون قرار دیا گیا۔