Siasi Challenges, Qayadat Ka Imtehan
Arif Nizami92 News410
حکمران جماعت کو اقتصادی کے علاوہ سیاسی چیلنجز کا بھی سامنا ہے، اس کے باوجود کہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی اور پنجاب میں معمولی اکثریت ہے اس کے وزرا اور عمائدین زمینی حقائق کی پروا کیے بغیر اپوزیشن کو تو بے نقط سناتے ہی ہیں اپنے حواریوں کوبھی معاف نہیں کرتے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری جو اپنے لاابالی پن کی بنا پر بعض اوقات ایسے غیرذمہ دارانہ بیانات دینے سے بھی نہیں چوکتے جن سے اپوزیشن کو کوئی نقصان ہویا نہ ہو البتہ اپنی پارٹی کی پوزیشن ضرورخراب کردیتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال مسلم لیگ (ق ) سے فارورڈ بلاک کے متعلق بیان نے چودھری برادران کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ انھوں نے معذرت کی ہے کہ متذکرہ بیان روانی میں ان کے منہ سے نکل گیا تھا لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی مسلسل اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو وفا نہیں کر رہی۔ وزیراعظم ہاؤس کا کہنا ہے کہ چودھری برادران کے تمام تحفظات دور کر دیئے جائیں گے لیکن صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر نے وزارت کے معاملات میں مبینہ طور پر بے جا مداخلت پراستعفیٰ اپنی قیادت کو دے دیا ہے۔ پر ویزالٰہی کا کہناہے کہ اتحاد کے وقت ان کی جماعت سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ چودھری برادران برخوردار مونس الہٰی کو وفاقی وزیر بنوانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا لیکن سوال پید اہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) تحریک انصاف کی حکومت چھوڑ کر کدھر جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے کچھ لوگ خاموشی سے اِدھر اُدھر کھسک جائیں لیکن موجودہ صورتحال میں بات اتنی آگے جا چکی ہے کہ چودھریوں کا شریفوں کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد ممکن نظر نہیں آتا، گویا کہ اس تنخواہ پر نوکری کرتے رہیں گے، ویسے بھی چودھریوں نے تحریک انصاف کے اتحادی بنتے وقت اچھا سودا کیا تھا۔ قومی اسمبلی میں 5 اور پنجاب میں 7 ارکان ہونے کے باوجود پرویزالٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔ مرکز اور پنجاب میں ایک ایک وزارت بھی ان کے پاس ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) بھی تحریک انصاف کی حامی ہے لیکن بی این پی کے سربراہاختر مینگل قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے بنیچوں پر بیٹھتے ہیں۔ ان کا توکہنا ہے کہ ان کے ساتھ کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا اور وہ صرف میرٹ پرہی حکومت کو سپورٹ کریں گے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جبکہ حکمران جماعت سے اپوزیشن کی محاذ آرائی عروج پر ہے۔ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں حکمران جماعت کو سب سے بڑے اپوزیشن اتحاد کا سامنا ہے لیکن عملی طور پر حکومت اپوزیشن کو گھاس نہیں ڈال رہی، البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کی کمیٹیاں اتفاق رائے سے تشکیل پا گئی ہیں اور اب اصولی طورپر قانون سازی کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے فریقین کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ اسمبلی میں گالی گلوچ نہیں ہو گی۔ یقینا اس کے بعد قومی اسمبلی اپنے اصل کام قانون سازی کی طرف بھی توجہ دے گی، اپوزیشن کو چور چور کہہ کر وزیراعظم عمران خان اور ان کے حواریوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اکٹھے ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ نہ جانے یہ رٹ بار بار کیوں لگائی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی تمام تر سیاست این آر او کے گرد ہی گھومتی ہے۔ کونسا این آر او اور کس کے ساتھ این آر او اس کا جواب نہیں دیا جاتا۔ ایک وزیر سے یہ بات منسوب کی گئی کہ مجھ سے این آر او مانگا گیا تھا جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ حکمران جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن ان کے خلاف کسی تحریک یا اسمبلی میں تبدیلی لانے سے اجتناب کر رہی ہے۔ بعض ناقدین کے مطابق اپوزیشن اپنے جملہ اختلافات کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ وہ تحریک چلا سکے۔ مسلم لیگ (ن)کے ذمہ داران کا تو دعویٰ ہے کہ تحریک چلانے کی ہمیں کیا ضرورت ہے، حکمران جماعت اپنی نااہلی اور اندرونی تضادات کی بنا پر خود ہی گرجائے گی۔ اپوزیشن کی اس وقت سٹرٹیجک سوچ تو یہی ہے کہ رواں سال کے آخر تک مڈٹرم الیکشن کا نعرہ لگایا جائے۔ سڑکو ں پر جد وجہد نہ کر نے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کو مکمل ادراک ہے کہ مقتدر ادارے ’خلائی مخلوق، تحریک انصاف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور جب تک ایسا ہے حکومت گرانا آسان کام نہیں ہو گا۔ ابھی حال ہی میں سابق وزیر دفاع اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ 2014ء کے دھرنے میں کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر دھرنے کی حمایت کی، خواجہ آصف کے مطابق انہی عناصر نے حالیہ انتخابات میں بھی تحریک انصاف کی حمایت کی لیکن جیسا کہ ہونا بھی چاہیے موجودہ فوجی قیادت دامے درمے سخنے عمران خان کی حکومت کے ساتھ ہے اور شاید اسی برس نومبر میں فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد حالات بدل جائیں۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ سیاستدان خواہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے، افواج پاکستان کو زبردستی سیاست میں گھسیٹ کر متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجھے کے مترادف حکومت بنانا، چلانا سیاستدانوں کاکام ہے، فوج کا نہیں۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ بظاہر سب اچھا ہے کی رٹ مسلسل لگائی جا رہی ہے لیکن خود تحریک انصاف کے حلقوں میں خاصی بد دلی پائی جاتی ہے۔ وزرا اپنی گاڑیوں پر جھنڈے لہرا کر وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن جو وزیر نہیں ہیں وہ شاکی ہیں کہ انھیں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل نہیں ہے، اکثر وزیر پارلیمنٹ سے غائب رہتے ہیں، خود وزیراعظم اپنے پیشرو میاں نواز شریف کی طر ح پارلیمنٹ میں جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اب سنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے وعدے کے مطابق جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک روز خود سوالوں کا جواب دیا کریں گے، اب قدم رنجہ فرمائیں گے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ویسے تو شریف آدمی ہیں لیکن ان کی صوبے کے معاملات پر گرفت کمزور لگتی ہے جس کی وجہ سے صوبائی اسمبلی میں حکمران جماعت کے علاوہ اتحادی بھی تنگ نظر آتے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال حکمران جماعت کے حوالے سے بھی اچھی نہیں ہے۔ عمران خان کو معاملات پر گرپ مضبوط کرنا پڑے گی اور یہی ان کی لیڈر شپ کا امتحان ہے۔