Sunjiyan Ho Jaan Galiyan
Arif Nizami92 News824
بعض مبصرین عرصے سے کہہ رہے تھے کہ جب سے آصف زرداری کے گرد حصار تنگ کیا جا رہا ہے ان میں دوبارہ خواہش ابھر رہی ہے کہ وہ کسی طرح جیل چلے جائیں۔ گزشتہ ویک اینڈ پر ان کے حیدرآباد کے جلسہ عام اور پریس کانفرنس سے پتہ چلتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔ ہفتے کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جن کی تین سال کی مد ت ملازمت ہے، انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کریں کیونکہ قوم کے بارے میں فیصلے صرف پارلیمنٹ کو کرنے چاہئیں۔ وہ انتہائی جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ تک کہہ گئے کہ ہماری جماعت کی کردار کشی کی جا رہی ہے لیکن جب ہم نے منہ کھولا تو قیام پاکستان سے اب تک کے غلط اقدامات کا کچا چٹھا کھول دیں گے۔ اگلے ہی روز اتوار کو پریس کانفرنس میں انھوں نے یہ وضاحت کی کہ ان کی پارٹی نہیں چاہتی کہ ادارے کمزور ہوں کیونکہ یہاں پر ایک اور "جارح طاقت "ہے اور یہ ایک جنونی سوچ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ہم انھیں طوہا ًوکرہاً برداشت کرتے ہیں۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر جانبدار رہیں، سیاسی طاقت ہم خود حاصل کر سکتے ہیں۔ پریس کانفرنس میں وضاحت کا اگر یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ جو کچھ انھوں نے حیدر آباد کے جلسے میں کہا وہ محض جذباتیت نہیں تھی بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ انھوں نے سابق ادوار میں فوجی قیادتوں کی سویلین حکومتوں کا تختہ الٹنے کی روش پر بلا واسطہ نکتہ چینی کی۔ انہوں نے ٹنڈ والہ یارمیں جلسہ عام اور صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس کواچانک طاقت مل جاتی ہے اس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے، عوام کا ساتھ رہا تو جلد ان سے جان چھڑائیں گے اور ان کو گھر بھیج کر ملک بنائیں گے۔ آصف زرداری نے کہا آپ نے بانی ایم کیو ایم کو بنایا آج وہ کسی اور کا بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیکھتے ہیں یہ میچ کہاں جاتا ہے اور کون کدھر نکلتا ہے، کٹھ پتلیاں کیوں بناتے ہو، نوازشریف کو بنایا پھر کیا ہوا؟ ، عوام کی جان ان حکمرانوں سے چھڑا کر قبل از وقت انتخاب کرائے جائیں گے اور پیپلزپارٹی کی حکومت بنائیں گے، پاکستان میں ہر دفعہ مذاق ہوا اور ہر دفعہ عجب کہانیاں لکھی گئیں، جب بھی کوئی سیاسی پودا لگتا ہے اسے کاٹ کر مصنوعی پودا کھڑا کردیتے ہیں۔ الیکشن شفاف ہوتے تو کپتان نہیں کوئی اور حکومت میں ہوتا، انہیں ووٹ ملا نہیں اس لیے حکمرانوں کو عوام کی پروا نہیں، دیکھتے ہیں کھیل کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ان کی سوچ میں صرف پسند ناپسند ہے، انہیں تکلیف صرف اٹھارھویں ترمیم کی ہے یہ مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں، میں مان بھی جاؤں تو پارٹی، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا نہیں مانیں گے۔ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ یہ کہتے ہیں ڈالر کا پتہ ہی نہیں تھا، روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کا حکمرانوں کو افسوس ہی نہیں، ڈالر اوپر جاتا ہے تو قرض بڑھ جاتے ہیں، سیاست دان جانتے ہیں عوام کے مسائل کیا ہیں؟ قبل از وقت الیکشن کا اشارہ مل رہا ہے جو جلد متوقع ہیں۔ ایوب خان نے اپنے دور میں بنیادی جمہوریت کا ڈرامہ کیا اور بھٹو ایوب خان سے لڑے، ہر مارشل لا کا پارٹی نے مقابلہ کیا، جب بھی عوام کا حق مجروح کیا گیا ہم نے آواز اٹھائی اب بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ سیاست سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے، میں انہیں انڈر 16 کہتا ہوں، انہیں کھیلنا آتا ہی نہیں، پکڑ دھکڑ چھوڑ دیں تو کوئی کام ہو، گرفتاریوں سے نہیں ڈرتے، حکومت بزنس مین کو مارنا چھوڑ دے تو دھندا بھی چلے، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ ایف بی آر سے کلیکشن نہیں کر پا رہے کیونکہ ڈنڈے سے وصولی نہیں ہوسکتی، اندھوں کی حکومت ہے جنہیں سمجھ ہی نہیں، صوبے مضبوط ہوں گے تو پاکستان مضبوط ہو گا، اسلام آباد مضبوط ہونے سے ملک مضبوط نہیں ہو گا۔ یہاں نہ سٹاک ایکسچینج چل رہا ہے نہ دکانیں چل رہی ہیں، آپ دکانیں توڑ رہے ہیں، لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا اور روزگار چھین رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ زرداری نے فوج کو شدید ہدف تنقید بنایا ہو۔ 16جون 2015ء کواسلام آباد میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ "ہمیں اگر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔"اس وقت جنرل راحیل شریف فوج کے سربراہ تھے اور میاں نوازشریف وزیراعظم۔ انہی دنوں انھوں نے فوج کے بارے میں یہ ریمارکس بھی دیئے تھے کہ بلا دودھ زیادہ پی گیا ہے اس کے فوری بعد آصف زرداری دبئی اور لندن جلاوطنی میں چلے گئے تھے۔ انھوں نے اپنا یہ تمام وقت بیرون ملک ہی گزارا، اس دوران آصف زرداری کو احساس ہو گیا کہ انھوں نے بہت سخت باتیں کہہ دی ہیں۔ اگست 2015ء میں مجھے چینل 24کی طرف سے ان کا انٹرویو کرنے کے لیے لندن بھیجا گیا۔ چرچل ہوٹل میں ہونے والے اس انٹرویو میں اپنے سابق ریمارکس کی تلافی کرنے کی کوشش کی لیکن معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ انٹرویو کے چند روز بعد ہی ان کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین جو انٹرویو کے دوران بھی چرچل ہوٹل میں زرداری صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ ٹرائل بیلون کے تحت واپس پہنچ گئے لیکن انھیں کراچی پہنچتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کچھ عرصہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور آصف زرداری نے جلاوطنی رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ وہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے پر ہی وطن واپس آئے لیکن اب چند ماہ سے ان پر دوبارہ ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ ان کے دست راست اور شوگر ملز چلانے والے انور مجید اپنے صاحبزادے سمیت جیل کاٹ رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ان پر سخت ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا تمام الزام بھی انہی پر تھونپا جا رہا ہے۔ ان پر اور ان کے اومنی گروپ پر جو افتاد پڑی ہے اس کا اصل ٹارگٹ بھی آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق بلاول بھٹو سخت تقریر کرتے ہیں تو ان کو بھی ایک نوٹس آ جاتا ہے۔ یقینا جہاں ایک طرف شریف فیملی اور ان کے حواریوں کے ارد گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو دوسری طرف زرداری اینڈ کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آصف زرداری فوجی قیادت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ اس نے براہ راست ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ سارا کچھ توعدالت عظمیٰ، نیب اور ایف آئی اے کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے 2015ء میں ہونے والی فوجی قیادت سے چپقلش کی نسبت موجودہ صورتحال دو لحاظ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اول تو یہ کہ عمران خان اور ان کے حکومتی ساتھی دن رات کہہ رہے ہیں کہ زرداری اور نوازشریف دونوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ بقول وزیراطلاعات فواد چودھری، نوازشریف اور زرداری کی سیاست ختم ہو چکی ہے ان کی جگہ اب جیل ہے یا گھر۔ 2015ء میں اگرچہ میاں نوازشریف نے مصلحت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں میں کیوں آؤں، آ صف زرداری کی کوئی بھی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا حتیٰ کہ ان کی شعلہ نوا تقریر کے بعد زرداری کو ظہرانے کی دعوت بھی بغیر وجہ بتائے منسوخ کر دی تھی۔ بعدازاں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر بھی زردرای صاحب شاکی تھے کہ میاں نوازشریف نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ اس امر کے باوجود میاں نوازشریف آ صف زرداری کو اس طرح گرانا نہیں چاہتے تھے جیسا کہ تحریک انصاف کی حکومت اب کر رہی تھی، مزید برآں اس وقت عدالت عظمیٰ ان کے ’احتساب، کے حوالے سے کوئی رول ادا نہیں کر رہی تھی۔ اب معاملہ مختلف ہے، اسی بنا پر آصف زرداری نے جلسہ عام میں اپنے خطاب میں بغیر نام لیے ملفوف انداز میں عدلیہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا آپ کیوں مختلف جگہوں پر گھومتے رہتے ہیں اور سوال اٹھاتے رہتے ہیں، بھئی!آپ کا واسطہ کیا ہے؟ ابھی تو جوڈیشل سسٹم میں لاکھوں کیسز فیصلے کے منتظر ہیں اور پھر یہ تک کہہ گئے کہ آپ کی مد ت ملازمت بھی پوری ہونے والی ہے۔ اس صورتحال میں آصف زرداری کی برہمی اور ان کی جارحانہ حکمت عملی پوری طرح آشکار ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس میاں نوازشریف مٹی کے مادھو بنے بیٹھے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں اقتدار کھونے کے بعد فوج اور عدلیہ کے خلاف’مجھے کیوں نکالا، کی بنیاد پر حکمت عملی کو یکسر تج کر چکے اور احتساب عدالت کے باہر سخت ترین زبان استعمال کرتے تھے، اب یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ میں تواپنی اہلیہ کلثوم نواز کے انتقال کے بعد سے حالت غم میں ہوں، ابھی چند روز قبل انھوں نے ایک جذباتی جملہ بولا تھا کہ ہنسوں کیا میں تو رو بھی نہیں سکتا۔ دوسری طرف ان سے بھی زیادہ عقابی باتیں کرنے والی ان کی صاحبزادی نہ صرف عنقا ہیں بلکہ منظر سے غائب ہو چکی ہیں اور شہبازشریف جو بھائی جان کو ہمیشہ کہتے تھے کہ ٹھنڈ ی کر کے کھائیں لیکن انھیں خود ٹھنڈی کر کے کھانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا اور وہ بلا کسی ٹھوس ثبوت کے جیل کاٹ رہے ہیں۔ انھیں بلحاظ عہدہ لیڈر آف اپوزیشن کچھ نہ کچھ صاف گوئی سے کام لینا پڑتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اگر میاں نوازشریف باقی دو ریفرنسز میں دھر لئے گئے تو وہ پھر جیل کی ہوا کھائیں گے اور شاید شہبازشریف خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہا ہو جائیں۔ لگتا ہے کہ آصف زرداری جس طرح نئے نت کیسز میں پھنس رہے ہیں، انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے جارحانہ حکمت عملی کو ہی اپنا بہترین دفاع تصور کر لیا ہے۔ اس صورتحال میں مستقبل قریب میں جیل جانا ہی مقدر لگتا ہے اور جیل جانا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ وہ شریف برادران کے برعکس آٹھ برس سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان اور ان کے حواری پھولے نہیں سماتے ہونگے کہ’ گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے،۔