Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Tajahul Arifana

Tajahul Arifana

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کو جوکسی تعارف کے محتاج نہیں، حسن کارکردگی کی بنیاد پر ایک اور ٹوپی پہنا دی گئی ہے۔ وہ احتساب، ایسٹس ریکوری یونٹ کے سربراہ ہونے کے علاوہ اب ایف آئی اے پر بھی نظر رکھیں گے۔ لگتا ہے کہ انھیں یہ اعزازات اپوزیشن کا مکو ٹھپنے کے انعام کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ موصوف کے بظاہر منتقمانہ عزائم غالباً وزیراعظم کو پسند آ گئے ہیں۔ نیب کی بوالعجبیوں کے باعث سیاسی مخالفین کے خلاف تابڑ توڑ مقدمات کے باوجود نواز شریف فیملی اور زرداری و بھٹو فیملی سے ابھی تک ایک پائی بھی ریکور نہیں ہو سکی۔ لیگی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اس تازہ تقرری سے اب ایف آئی اے کے ذریعے بھی سیاسی مخالفین کا پیچھا کیا جائے گا۔ تحقیقی صحافی عمر چیمہ نے حال ہی میں سابق ڈی جی، ایف آئی اے بشیر میمن پر دباؤ کے حوالے سے ہو شربا انکشافات کئے ہیں۔ ان کے مطابق بشیر میمن پر ہر وقت دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ شہبازشریف کو گرفتار کر لیں، ان کے اس ٹکے سے جواب پر کہ کس قانون کے تحت؟ لیکن نیب نے یہ کام کر دیا جس پر انھیں طعنہ دیا گیا کہ جو کام آپ نے نہیں کیا نیب نے ایک دن میں کر دکھایا۔ جب رانا ثناء اللہ تیکھی باتیں کرتے تو کہا جاتا کہ اس گستاخ کو گرفتار کر لو اس پر بھی وہ انکاری رہے۔ مریم نواز کو بھی ان کی سخت تقریروں کی بنا پر گرفتار کرنے کا کہا جاتا تھا۔ ظاہر ہے ایسے بااصول اور دلیر پولیس افسر کی موجودہ ماحول میں گنجائش کہاں؟۔ اسی بنا پر وہ 28ستمبر سے چھٹی پر تھے اور ریٹائرمنٹ سے6روز پہلے مستعفی ہو گئے کہ کہیں ان پر برطرفی کا دھبہ نہ لگ جائے۔

اب نئے ڈائریکٹر جنرل، ایف آئی اے واجد ضیاء جنہوں نے پاناما گیٹ کی تحقیقات کے حوالے سے شہرت پائی۔ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کے سربراہ تھے۔ موصوف نے نوازشریف کا پوری تند ہی سے پیچھا کیا، کئی ماہ ضائع کئے، بالآخر کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ جو اس وقت پاناما گیٹ کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ تھے نے سابق وزیراعظم نوازشریف کومافیا ڈان قرار دیا لیکن اقامہ رکھنے کو جواز بنا کر صادق وامین نہ ہونے کے جرم میں تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ اس دور میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ واجد ضیاء نے لندن میں مقیم اپنے کزن وکیل کے ذریعے دستاویزات تصدیق کرنے کے عوض ہزاروں پاؤنڈ کی ادائیگی کروائی تھی۔

اب اس سیٹ اپ میں انتقامی جذبے سے سرشار نئے وزیر مملکت برائے داخلہ اور واجد ضیاء کیا گل کھلائیں گے اس کا ادراک مشکل نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ وزیر داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجازشاہ خود بھی اس گورکھ دھندے میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اب یہ کہہ کر کہ ان کی صحت اچھی نہیں شہزاد اکبر پر یہ کاٹھی ڈال دی گئی۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ کیا ایف آئی اے اب وزیر داخلہ سے بالا بالا شہزاد اکبر سے ہدایات لے گی یا وزارت داخلہ میں اختیارات کی رسہ کشی شروع ہو جائے گی۔ اگر کسی کو یہ امید تھی کہ اب حکومت اپوزیشن کی طرف دست تعاون بڑھائے گی تاکہ پارلیمنٹ کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت اورتوسیع کے حوالے سے شرائط اتفاق رائے سے طے ہو جائیں گی، یہ خام خیالی ثابت ہو رہی ہے۔ نیب عدالت نے شہبازشریف، ان کی بیگمات اور صاحبزادوں کے نام جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات سمگلنگ کیس میں کچھ نہ ملنے کے بعد نیب نے ان کے نئی خلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔ سندھ کے وزیر نثار کھوڑو اور سپیکر آغا سراج درانی کے خلاف بھی تحقیقات میں تیزی آ گئی ہے۔ لگتا ہے کہ اب نیب اور ایف آئی اے میں مقابلہ ہو گا کہ کون کتنے موثر انداز سے حکومت کی توقعات کے مطابق نتائج دکھاتا ہے۔ نیب نے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف ریفرنس دوبارہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب کی کارکردگی کا یہ حال یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس شہبازشریف کی ضمانت پر اپیل اس وقت واپس لینا پڑ گئی جب چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ آشیانہ کیس میں سابق وزیراعلیٰ ایک اچھے شخص کی حیثیت سے سامنے آئے جبکہ لاگت بڑھنے کی صورت میں اس منصوبے سے حکومت پنجاب کو ہونے والا 3 ارب 34 کروڑ روپے کے نقصان کا خدشہ تھا، جو نقصان ہوا ہی نہیں اس کا کیس بنا دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے بجا طور پر سوال کیا ہے کہ شہبازشریف کی ڈیکلیئرڈ اور وراثتی جائیدادیں منجمد کرنے کا کیا جواز ہے؟۔ ان کے مطابق حکومت کے سازشی رویوں کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے اب اپوزیشن وزرا کی سطح پر بات نہیں کرے گی۔ جائیدادیں ضبط کرنے کا معاملہ تو یقینا اعلیٰ عدالتوں کے پاس جائے گا لیکن ایسا صرف نیب کے قانون کے مطابق ہی ہو سکتا ہے کہ ملزم کو پہلے روز سے ہی مجرم بنا دیا جائے، ہنوز متذکرہ افراد کو ابھی تک کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی لیکن یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چل رہا ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں فی الحال چھ ماہ کی توسیع کے بعد خان صاحب خود کو بہت طاقتور محسوس کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بھی عملی طور پر ٹھس ہو چکا ہے، وہ غالباً سمجھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں معمولی عددی اکثریت ہونے کے باوجود وہاں سے اپنے ڈھب کی قانون سازی سٹیم رول کر کے کام چلاتے رہیں گے لہٰذا انھیں اپوزیشن کے تعاون کی چنداں ضرورت نہیں۔

کون کہتا ہے کہ ہماری اقتصادی حالت پتلی ہے؟ہماری اکانومی تو اب باقاعد ہ ایوارڈ یافتہ ہو گئی ہے۔ موڈیز اور بلومبرگ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر قرار دے دیا ہے جس پر ہمارے اقتصادی مشیر پھولے نہیں سما رہے۔ بدھ کی شام مشیر خزانہ حفیظ شیخ، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور اقتصادی امور کے وزیر حماد اظہر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح اقتصادی محاذ پرستوں خیراں ہیں۔ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا اور اگلا مرحلہ اقتصادی ترقی میں تیزی کا ہے۔ یقینا یہ بہت اچھی خبر ہے، اب عوام کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ مشیر خزانہ نے یہ تو تسلیم کیا کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے لیکن یہ سب کچھ بھارت کا کیا دھرا ہے۔ حکومتی ترجمانوں جن کے سربراہ وزیراعظم خود ہیں کا کہنا ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک اورسابق حکومتوں کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ جس خرابی کا ذمہ دار سابق حکومتوں کو گردانا جاتا ہے اب اسی کا اعادہ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں چار برس کے دوران جتنے قرضے لئے گئے موجودہ حکومت نے ایک سال میں ہی اس کی کسر پوری کر دی۔ اس دور میں تو کچھ ترقی بھی ہوئی چین کی مدد سے لگنے والے بجلی کے منصوبوں سے لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل ہوئی اور انفراسٹرکچر میں بھی سرمایہ کاری ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ سابق حکومتیں ڈکار مارے بغیر ہی سب کچھ ہضم کر گئیں لیکن اب ہمارے اقتصادی کار پردازان پھولے نہیں سما رہے کہ پاکستان کی قر ضے لینے کے صلاحیت بڑھ گئی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں چالیس فیصد اضافے، بجلی اور گیس کے ریٹ بڑھنے اور ملک میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ کساد بازاری اور بے روز گاری کے باعث زمینی حقائق وہ نہیں ہیں جو اقتدار کے ایوانوں اور پریس کانفرنسز کر کے دھوم دھڑلے سے بتائے جاتے ہیں۔ شبر زیدی صاحب کی "حسن کارکردگی" ملاحظہ فرمائیں کہ رواں ما لی سال میں ریونیو ٹارگٹ میں ملکی تاریخ میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے جس کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ درآمدات میں کمی کی بنا پر محصولات میں کمی ہوئی ہے۔ مشیر خزانہ نے ڈینگ ماری ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہیں جائے گی لیکن ماضی میں قریباً آئی ایم ایف کے کسی پروگرام کو ہم پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے اور اسے بیچ میں چھوڑنا پڑا۔ اس مرتبہ بھی آئی ایم ایف نے طوعاًوکرہاً ٹارگٹ نامکمل ہونے کے باوجود قرضے کی دوسری قسط دی ہے۔ دعا ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر پھلے پھولے لیکن زمینی حقائق سے مسلسل پردہ پوشی کو نرم سے نرم الفاظ میں تجاہل عارفانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran