Takmeel Pakistan Ka Khwab
Arif Nizami92 News661
79 برس پہلے منٹو پارک لاہور میں آج کے دن برصغیر کے طول و عرض سے جمع ہونے والے مسلمانوں کے عظیم الشان اجتماع نے قائداعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں علیحدہ مملکت کے حصول کی قرارداد منظور کی تھی اور یہی پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ منٹو پارک جسے بعد میں مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے نام سے منسوب کیا گیا، اسی گریٹر اقبال پارک میں بلند قامت مینار پاکستان اسی قرارداد کی یاد دلاتا ہے۔ علامتی طور پر تو یہ سب ٹھیک ہے لیکن عملی طور پر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کا خواب دیکھنے اور قربانیاں دینے والوں کا روڈ میپ اب بھی نامکمل ہے۔ ویسے تو مقام شکر ہے کہ برصغیر کے مسلمان جو پاکستان کے باشندے ہیں، انگریز اورہندو تسلط کا طوق گلے سے اتار کر آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ کہنا بھی مبنی بر حقائق نہیں ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستانیوں نے کوئی ترقی نہیں کی تاہم پاکستان ترقی کی اس معراج تک نہیں پہنچ سکا جس کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا۔ یقینا پاکستان میں عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور انتہائی پیشہ وارانہ مہارت والی دنیا کی چھٹی بڑی فوج کا حامل ہے۔ پاکستان ووٹ کے ذریعے بنا تھا اور یقینا جمہوریت کے ذریعے ہی پنپ سکتا ہے۔ قائداعظم ؒ کے بنائے ہوئے پاکستان میں بانیان پاکستان کے نظرئیے کے مطابق خاکی یا سویلین آمریت یا پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس کے باوجودکہ وفاقی جمہوریت جس میں شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں کا واضح نقشہ ہمارے پاس موجود تھا لیکن بانی پاکستان کی آنکھیں بند ہوتے ہی بلکہ کئی لحاظ سے ان کی زندگی میں ہی سازشی عناصر کھل کھیلنے لگے اور بالآخر وہ قومی ایجنڈا کنٹرول کر نے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ مذہبی عناصر بھی جو پاکستان کے قیام کی مخالفت میں پیش پیش تھے پاکستان کے مامے بن بیٹھے، ان کا نکتہ نگاہ تو واضح تھا کہ اسلامی نظام کو جغرافیائی حدود میں قید نہیں کیا جاسکتا لہٰذا خاکم بدہن پاکستان غلط بنا ہے۔ وہ پاکستان کی بانی لیڈر شپ کو بھی دل سے قبول نہیں کرتے تھے۔ پاک فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان فوج کو سیاسی حکومت کے تابع بنانے کے بجائے سازشی سیاستدانوں کی ملی بھگت سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی سازش کے سرغنہ بن گئے۔ یہ ستم ظریفی نہیں توکیا ہے کہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے اقتدار پر شب خون مارنے کے نتیجے میں وطن عزیز کا نصف مدت فوجی آمریتوں کے سائے میں گزرا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاکہ وہ جاگیردار اور سیاستدان جن کا بہت بڑا حصہ تحریک پاکستان سے الگ تھلگ رہا یا اس کی مخالفت کرتا رہا نے قیام پاکستان کے بعد مفادات کے حصول میں خوب ہاتھ رنگے، اصولوں کو بالائے طاق رکھ کراقتدار پرقبضہ کرنے اور پاکستان کو مثالی فلاحی مملکت بنانے کی ہرکوشش کو سبوتاژ کرنے میں یہ فیوڈل سیاستدان پیش پیش رہے۔ ایوب خان نے ترقی اور نسبتاً سیکولر نظام لانے کے دلآویز وعدوں کے تحت دس برس سے زیادہ عرصہ پاکستان پر حکمرانی کی۔ وہ اس نظریے کے حامی تھے کہ امیر کو امیر تر بناؤ تو غریب خود ہی امیر ہوجائیں گے۔ ان کی اس Trickle down تھیو ری سے مخصوص طبقے اور مخصوص علاقے میں ارتکاز دولت ہونے کے نتیجے میں بدنام زمانہ بائیس خاندان معرض وجود میں آئے اور پاکستان کا مشرقی حصہ جو تحریک پاکستان میں مغربی حصے سے زیادہ متحرک تھا احساس محرومی کا شکار ہوتا چلا گیا اور بالآخر جب مغربی پاکستان کی لیڈر شپ نے بنگالیوں کو ان کے حقوق نہ دیئے تو بھارت کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان دولخت کر کے بقول اس کے ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا۔ ضیاء الحق کی آمریت پاکستان کی اساس کے لیے ایوب خان سے بھی زیادہ زہر قاتل ثابت ہوئی اور آج تک وطن عزیز ’باقیات ضیا، کی وجہ سے کراہ رہا ہے۔ ضیاء الحق کا نعرہ تو یہ تھا کہ اسلام میں پارلیمانی جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ اقتدار کے بھو کے بعض سینئر سیاستدان جن کے اپنے بزرگ تحریک پاکستان میں شامل تھے، ضیاء الحق کے ایجنڈے کے پرچارک بن گئے۔ پہلی مرتبہ ضیاء الحق کی شکل میں مذہبی لابی کو عملاً ویٹو پاور حاصل ہو گئی۔ 1973ء کے آ ئین کی شکل اس حد تک بگاڑی گئی کہ آج بھی یہ آئین مکمل طور پر پارلیمانی، وفاقی اور جمہوری نہیں بن پایا۔ پاکستان کے آخری ڈکیٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی ’روشن خیال جمہوریت، کے نام پر دس سال تک اقتدار کے خوب مزے لوٹے اور جمہوری اداروں کو تباہ کرنے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ پوری کر دی۔ کہنے کو تو پاکستان میں اب جمہوریت اور جمہوری اداروں کا راج ہے لیکن سیاستدانوں کی نئی کھیپ کی ذہنیت پر بھی آمرانہ دور کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ اس بات کادرست طور پررونا رویا جاتا ہے کہ آج بھی پاکستان میں سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا لیکن اس میں کسی حد تک خود سیاستدان بھی قصوروار ہیں۔ ویسے یہ انڈا پہلے یا مرغی والی بات ہے۔ آج کل سیاستدانوں کو چور اچکا کہنا سیاسی طور پر فیشن ایبل ہے لیکن اس بات کا بہت کم ذکر ہوتا ہے کہ طالع آزماؤں نے کس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ادارے تباہ کئیسیاستدان ایک دوسرے پر فلاں آمر کی باقیات ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن معدودے چند کو چھوڑ کر قریباً سب ہی نے اپنی سیاست کا آغاز فوجی ادوار میں ہی کیا۔ پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی کو کھ سے جنم لیا لیکن ایوب خان کو ان کے دور اقتدار میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے جس پارٹی کی بنیاد رکھی اس نے اگر عوام کو اپنے نظریے کے مطابق روٹی، کپڑا اورمکان نہیں دلوایا تو کم از کم بات کرنے کی آزادی اور عزت نفس کا احساس ضرور دلایا۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے وہ تو خود باقیات ضیاء ہیں اور انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعدبھی دو عام انتخابات انہی کے نعرے پر لڑے لیکن بعداز خرابی بسیار انھیں بھی احساس ہو گیاکہ یہ ملک جمہوریت کے نام پر بنا ہے لہٰذا یہاں کسی کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہونی چاہیے، یہ محض حسن اتفاق نہیں ہے کہ میاں نواز شریف جو تین مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں، آج بھی کرپشن کے الزام میں پابند سلاسل ہیں کی اپنے دور اقتدارمیں کسی بھی آرمی چیف سے نہیں نبھی۔ جہاں تک موجودہ وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے، یہ بات وہ تکلفاً بھی نہیں کہتے کہ وہ ملک میں سویلین اداروں کی بالادستی کے حامی اور موئید ہیں، عمران خان تو جنرل پرویزمشرف کے زیرسایہ وزیراعظم بننے کو تیار تھے۔ اصل بات یہ نہیں کہ فلاں سیاستدان نے کس آمر کی کوکھ سے جنم لیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ادوار میں خود پر بھی جمہوریت نافذ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسی بنا پر نام کو تو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن یہاں ابھی تک فیوڈل آمرانہ رویوں کا راج ہے۔ پارلیمانی بالادستی کی مالا توسب جپتے ہیں لیکن ان کے نزدیک پارلیمنٹ کا کام صرف وزیراعظم کو منتخب کرنا ہے، اس کے بعد خواہ نوازشریف ہوں یا عمران خان ان کے لیے پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہو تی۔ جہاں تک ملکی اقتصادیات کا تعلق ہے، آج کل پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں، کسی حدتک دیکھا جائے توتکمیل پاکستان کے ایجنڈے کی سب سے بڑی ناکامی یہی شعبہ ہے۔ 22کروڑ عوام کے ملک میں محض چودہ لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں، اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاستدان برائے نام کے علاوہ زرعی ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ بد قسمتی سے ارکان، اسمبلیوں میں تنخواہیں بڑھانے کے سواکسی قسم کی قانون سازی پر اکٹھے نہیں ہو پاتے۔ اسی بنا پر موجودہ حکومت کے بھی سات ماہ مکمل ہونے کے باوجود کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی، سیاستدان بھی اپنے مفاد کی آبیاری کیلئے قانون سازی کرنے کے بجائے ترقیاتی فنڈز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ جب تک وطن عزیز میں صحیح معنوں میں جمہوریت کا احیا نہیں ہوتا اور غریب آدمی کے حالات زندگی بہتر نہیں ہوتے تکمیل پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔