Tareekh Se Sabaq?
Arif Nizami92 News793
میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسزکے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ پرسوں ان دونوں مقدمات کے حوالے سے ان کے سیاسی مستقبل کے فیصلے پرمہر تصدیق ثبت ہو جائے گی۔ میاں نوازشریف نے اپنی آخری پیشی میں روسٹرم پر آکر کہا کہ ان کا ضمیر مطمئن ہے نہ وہ کرپشن کے پاس سے گزرے اور نہ ہی کرپشن۔ ساری کارروائی مفروضوں پر مبنی ہے، انھوں نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے کہا کہ میری خدمات کا صلہ یہی ہے؟ خدا اور قوم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ مایوس کن صورتحال کے باوجود اس امید کا اظہار کیا کہ ان کو انصاف ملے گا۔ نواز شریف کی ایمانداری اور راست بازی کے دعوؤں میں اگر کوئی حقیقت ہے تو ’پاناماگیٹ، میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئیے جانے اور مسلسل میڈیا ٹرائل کے نتیجے میں کوئی شخص یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ نواز شریف سر خرو بھی ہو سکتے ہیں اور نیب عدالت بری کر سکتی ہے۔ ویسے بھی جو فیصلے" آسمانوں " پرلکھے جا چکے ہیں انھیں خلق خدا تبدیل نہیں کر سکتی۔ ادھر برادر خورد شہبازشریف کے خلاف بھی ’آشیانہ ہاؤسنگ سکیم، کا ریفرنس اور سو صفحات پر مشتمل ضمنی ریفرنس بھی تیار ہے، آصف زرداری بھی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ فی الحال بینک اکاؤنٹس کیس میں بینکنگ کورٹ نے ان کی عبوری ضمانت میں 7 جنوری تک مزید توسیع کر دی ہے۔ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کی امریکہ میں جائیداد ہے جو انھوں نے الیکشن کمیشن میں ڈکلیئر نہیں کی لہٰذا حکومت ریفرنس دائر کررہی ہے کہ کیوں نہ انھیں آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دے دیا جائے بلکہ تحریک انصاف کراچی ڈویژن کے صدر اور ایم پی اے خرم شیرزمان نے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ آصف زرداری کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن سندھ کے دفتر میں الیکشن کمشنر محمد یوسف خٹک کے پاس درخواست دائر بھی کر دی ہے۔ اس طرح واضح طور پر لگتا ہے کہ رواں سال کے باقی دنوں میں ہی مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے رہنماؤں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے پرجوش کھلاڑی اس صورتحال پر پھولے نہیں سما رہے، ان کی دانست میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنی لیڈرشپ کے کرپشن کے الزام میں دھر لیے جانے کے بعد زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گی اور بقول ان کے ان میں بننے والے فاروڈ بلاک حکمران جماعت سے مل جائیں گے۔ بدقسمتی سے ان میں سے اکثر وطن عزیز کی سیاسی تاریخ سے نابلد ہیں یا روایتی حکمرانوں کی طرح انھیں اقتدار کے نشے میں اچھاہی نظر آتا ہے۔ اگر انتظامی اقدامات یا عدالتی فیصلوں سے سیاسی جماعتوں کا وجود ختم ہونا ہوتا یا ان کی سوچ کو ختم کیا جا سکتا ہوتا تو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کا وجود کب کا مٹ چکا ہوتا۔ پیپلزپارٹی کو ہی لیجئے، سب مانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو چیف جسٹس مولوی مشتاق کی سربراہی میں ہائیکورٹ کا پھانسی دینے کا فیصلہ جس کی اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان انوارالحق نے توثیق کر دی تھی، عرف عام میں "جوڈیشل مرڈر" قرار دیا جاتا ہے حتیٰ کہ کسی مقدمے میں بھٹو کیس کو ریفرنس کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سمیت ان کی باقی اولاد پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ بے نظیر بھٹو نے چار برس تک سکھر جیل کی ہوا کھائی اس کے بعد انھیں جلاوطن کر دیا گیا۔ سینکڑوں جیالوں نے کوڑے کھائے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپریل 1986ء میں جب بے نظیر بھٹو لاہور پہنچیں توان کا تاریخی استقبال کیا گیا، انھوں نے اپنی محنت شاقہ سے 1988ء کے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا۔ جنرل ضیاء الحق کی باقیات صدر غلام اسحق خان نے زیادہ دیر ان کی حکومت نہ چلنے دی۔ اس کے باوجود وہ1993ء میں دوبارہ اقتدار میں آئیں۔ میاں نواز شریف بھی جو ضیاء الحق کے شاگرد اول تھے، انھوں نے ضیاء الحق کی آشیرباد اور اس وقت کی آئی ایس آئی کی مدد سے محمد خان جونیجو کی پارٹی کو ہائی جیک کر کے اسلامی جمہوری اتحاد اور مسلم لیگ (ن) کی داغ بیل ڈالی۔ لیکن ضیاء الحق کی کو کھ سے جنم لینے والی یہ سیاسی قیادت بھی بالآخر فوج کی سویلین معاملات میں بے جا مداخلت سے تنگ آ گئی۔ 90ء کی دہا ئی کا یہ وہ دور تھا جب اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو لڑاکر اپنا الو سیدھا کرتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے آنے کے بعد ان دونوں پارٹیوں کی لیڈرشپ ڈیل یا ڈھیل کے ذریعے بیرون ملک چلی گئی۔ پھر لندن میں 2006ء میں دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت پردستخط ہوئے کہ آئندہ اس حد تک نہیں لڑیں گے کہ سسٹم ہی ختم ہو جائے۔ جنرل پرویز مشرف جب اکتوبر 1999ء میں اقتدار میں آئے تو وہ بھی اپنے پیشرو جرنیلوں کی طرح اپنی آمریت کا سویلین چہرہ سامنے لانے کے لیے کوشاں تھے۔ اسی بنا پر ان کے نورتنوں نے مشورہ دیا کہ احتساب کے نام پر نیب بنائیں اور نیب کے ذریعے ان دونوں پارٹیوں کے سیاستدانوں کا قبلہ درست کر کے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جائے۔ پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جب 1971ء میں بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا تو اس وقت آمر جنرل یحییٰ خان برسراقتدار تھا جس نے اپنے زیراہتمام کرائے گئے1970ء کے انتخابات کے باوجود انتقال اقتدار سے انکار کردیا۔ اسی دور میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو فارغ کر کے جعلی انتخابات کرائے گئے۔ مذاقاً کہا جاتا تھا کہ یحییٰ خان نے قومی اسمبلی میں نشستیں بسکٹوں کی طرح بانٹیں لیکن اس ماحول میں بھی جعلی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انھیں جوق در جوق امیدوار مل گئے لیکن یہاں تو معاملہ ہی اور تھا۔ چودھری برادران نے غیر مشروط طور پر اپنی خدمات پرویز مشرف کے سپرد کر دیں اور نیب کی کوششوں سے مسلم لیگ (ن) سے مسلم لیگ (ق) بنی اور پیپلزپارٹی سے پیٹریاٹس بنے۔ گویا کہ پرویز مشرف نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود جب پرویز مشرف کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولا تو یہ دونوں سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں دھڑلے سے پاکستان آئیں۔ پیپلزپارٹی سندھ میں دوبارہ حکومت بنا گئی اور شہبازشریف10 برس پنجاب میں وزیراعلیٰ رہے اور وفاق میں بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال پورے کیے۔ مجھ سے ایک نوجوان اینکر نے پوچھا جوشاید اس تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں لیکن بڑا متفکر تھا کہ ان جماعتوں کا شیرازہ بکھر جائے گا؟ ۔ میں نے کہا کہ تاریخ کچھ مختلف سبق سکھاتی ہے۔ غالباً تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا اور وہ غلطیاں جو ماضی میں سرزد ہوتی ہیں وہ ڈھٹائی کے ساتھ دوبارہ کی جاتی ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے سے جو سیاسی انجینئرنگ جاری ہے اس کے باوجود پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ سیاسی عمل کے ذریعے آئے افراد سیاسی طور پر ہی نکالے جاسکتے ہیں۔ نہ جانے حکومتیں یہ سبق کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کا اصل امتحان کارکردگی ہے جس ملک میں عوام سستی تعلیم، مفت علاج، پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں۔ ان کو یہ نوید سنائی جا رہی ہے کہ برٹش ایئر ویز کی پروازیں اگلے برس جون سے آنا شروع ہو جائیں گی لیکن دوسری طرف بے روزگاری اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ صوبوں کے درمیان احساس محرومی اتنا زیادہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ بھی ہیں ’سی پیک، کی میٹنگ میں بیجنگ جانے سے انکار کردیا ہے۔ یہاں عوام کو جھوٹا دلاسہ دیا جا رہا ہے کہ سب اچھا ہے، فکر نہ کریں جلد ہی دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اس تناظر میں اپوزیشن کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔