مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد کی طرف رواں دواں آزادی مارچ اور سروسزسپتال میں داخل شدید علیل میاں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت ہونے پر حکومتی حلقوں میں گھبراہٹ کے آثارنمایاں ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو ہاہاکا ر مچی ہوئی ہے جس کا بلاواسطہ نشانہ عدلیہ ہے کہ وہ میاں نوازشریف کو ملنے والا ریلیف عام آدمی کوکیوں نہیں دیتے۔ پیر کو وزیر اعظم عمران خان نے وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجازشا ہ(ر)کے علاقے ننکانہ صاحب میں بابا گرونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب میں گلہ کیا کہ یہاں امیر کے لیے الگ قانون ہے اور غریب کے لیے الگ۔ انھوں نے کہا کہ عدالت نے وفاق اور صوبائی حکومت سے پوچھا کہ آپ نوازشریف کی زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟۔ عمران خان نے کہا میں تو اپنی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا، کسی کی جان کی ضمانت کیسے د ے سکتا ہوں، جہاں طبقاتی نظام ہو گا وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔
یہ انوکھی منطق ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم ملکی قوانین میں سقم موجود ہونے کا گلہ کررہا ہے، یہ بات تو اپوزیشن کے کرنے کی ہے، مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویداروں کو نظام میں خرابیاں دور کرنی چاہئیں اور اپوزیشن کی مدد سے پارلیمنٹ میں ایسے قوانین لانے چاہئیں جو یہ امتیازی سلوک ختم کر سکیں۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کوئی مارچ کرے یا بلیک میل کرنے کا نیا طریقہ اپنا لے، جب تک زندہ ہوں کسی کو این آر او نہیں دونگا۔ اس وقت تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور این آر او نہ دینے کی آواز اقتدار کے ایوانوں سے گونج رہی ہے جبکہ اپوزیشن مصر ہے کہ ہم نے کوئی این آر او مانگا ہی نہیں بلکہ این آر او عمران خان مانگ رہے ہیں۔ میاں صاحب کے لیے بنائے گئے سرکاری میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز کہہ رہے ہیں کہ مریض کی حالت تشویشناک ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق نوازشریف نے اس امر کے باوجود کہ ہائیکورٹ نے انھیں رعایت دی کہ وہ جہاں سے چاہیں علاج کر اسکتے ہیں، علاج کے لیے بیرون ملک جانے سے تاحال انکاری ہیں۔ سوشل میڈیا پرعجیب کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں کہ ڈیل ہو گئی ہے اور اتنے ارب ڈالر کی سرمایہ کاری فلاں ملک کی طرف سے آ جائے گی۔ جتنے ارب ڈالروں کا مسئلہ بتایا جا رہا ہے اگر بحث کی خاطرہی دیکھا جائے تو میاں نواز شریف، شہبازشریف اور آصف زرداری کے خاندانوں سے وصول ہو بھی جائیں تو گویا پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے سٹیٹ بینک کے پاس 7 ارب 89 لاکھ اور مجموعی ذخائر جو15ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں زیادہ سے زیادہ دوگنا ہو جائینگے اور یہ محض اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر سواچار سوارب ڈالر سے زیادہ ہیں جبکہ سابق مشرقی پاکستان بنگلہ دیش جسے ہماری حکمران اشرافیہ حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی کے ذخائر تقریباً 33ارب ڈالر ہیں۔ نیب کے چیئرمین سمیت حکمران جس ہن کے برسنے کا خواب دکھا رہے ہیں وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یقینا لوٹی ہوئی دولت واپس لانی چاہیے لیکن عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا کیا فائدہ؟۔
پیمرا نے جو آہستہ آہستہ سنسر شپ کا ادارہ بنتا جا رہا ہے، اتوار کی چھٹی کے روز عدلیہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر نیوز چینلز کے لیے تازہ ہدایت نامہ جاری کیا جس کے مطابق نیوز چینلز مالکان کوکہا گیا کہ ٹاک شوز میں اچھی شہرت اور وسیع تجربہ رکھنے والے مہمان بلائیں، عدالتوں میں زیر سماعت معاملات پر رائے زنی نہ کی جائے۔ عدلیہ یا کسی ادارے کے خلاف غیر مناسب تجزیہ آرائی، متعصبانہ اور منفی پراپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ چینلز مالکان پر ایک انوکھی پابندی لگانے کی کوشش کی گئی کہ ریگولر شوز کی میزبانی کرنے والے اینکرز دیگر ٹاک شوز میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اچھی شہرت اور وسیع تجربہ رکھنے والے مہمان کون ہیں۔ گویا کہ غالباً انہی لوگوں کو چینلز پرجی آیاں نوں کہا جائے جوسب اچھا کی نوید سناتے رہیں۔ فطری طور پر پیمرا کے اس ہدایت نامے کا شدید ردعمل ہوا۔ سی پی این ای نے اس کی شدید مذمت کی اور فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔ حتیٰ کہ بعض حکومتی وزرا نے بھی اس پابندی پر منفی ردعمل کا اظہار کیا البتہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اپنے مخصوص انداز میں اس پابندی کی مدافعت کرتی رہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بجا طور پر نوٹس لے لیا کہ اس معاملے میں عدالت کا نام کیوں گھسیٹا گیا؟طوعاً و کرہاً حکومت کو یہ حکم نامہ واپس لینا پڑا۔ شاید حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ اس قسم کی پابندیاں آئین میں دی گئی تحریر وتقریر کی آزادی کے خلاف ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ بعض ہتھ چھٹ اینکروں اور نام نہاد تجزیہ کا روں کو احتیاط برتنی چاہیے کہ زیر سماعت کیسز پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرنے سے گریز کریں لیکن اس معاملے میں تو عدلیہ خود کا رروائی کرنے کی مجاز ہے جیسا کہ میاں نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران فاضل ججوں نے کچھ اینکروں کو طلب کر کے ان کی قیاس آرائیوں پر متنبہ کیا۔ لیکن حکومت کی گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ عدلیہ کانام استعمال کر کے میڈیا پر ناروا پا بندیاں لگانے کی مذموم کوشش کی گئی۔
حکومت کی بوکھلاہٹ کا ایک اور مظہر جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمد اللہ جو تین سال تک بلوچستان کے وزیر صحت اور چھ برس تک سینیٹر رہ چکے ہیں کے بارے میں انکشاف ہو اکہ وہ پاکستان کے شہری ہی نہیں، نادرا نے ان کا شناختی کارڈ بھی منسوخ کر دیا۔ پیمرا نے جس عجلت میں ان کی ٹاک شوز میں شرکت پر پابندی لگائی اس سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ حکومت مختلف چینلز پر حکمرانوں پر کڑی تنقید کرنے والے سیاستدانوں کو مولانا کے آزادی مارچ کے دوران مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس پابندی کو اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے توکوئی غیر ملکی شہری بھی پاکستان کے نیوز چینلز پر مدعو نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر ڈاکٹرطاہرالقادری جنہوں نے اپنے کینیڈین پاسپورٹ کوبرقرار رکھنے کی خاطر سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا ہے، قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں، مزید برآں 2014ء میں عمران خان کے دھرنے سے متصل اور اس سے پہلے2012ء میں بھی دھرنا دے چکے ہیں، اس وقت تو یہ تیر بہدف نسخہ نہیں آزمایا گیا۔ مقام شکر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کے اس مضحکہ خیز فیصلے کو بھی معطل کر دیا۔
جوں جوں اپوزیشن کی حکومت کے خلاف یلغار تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے توں توں جمہوریت کے تحت شہریوں کو حاصل آزادیوں کو محدود کرنے کی کوشش تیز تر ہو گئی ہے۔ اس کی ایک اور تازہ مثال فریئر ہال کراچی میں آرٹسٹ عدیلہ سلیمان کی جانب سے "کلنگ فیلڈ آف کراچی" کے عنوان پر بنائے گئے فن پاروں کی نمائش پر اچانک پابندی لگا دی گئی۔ نمائش میں شہر میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے 444 افراد کی فرئیرہال کے صحن میں علامتی قبریں بنائی گئی تھیں۔ ہال میں ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر ڈی جی پارکس کراچی نے صاف کہا کہ ہمارا اس پابندی سے کوئی تعلق نہیں۔ بعد ازاں آرٹسٹ جبران ناصراورعد یلہ سلیمان کی پریس کانفرنس رکوانے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہ لوگ مبینہ طور پر اپنے فن پاروں کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ ماورائے عدالت قتل ماضی میں پاکستان کے جسد سیاست کا ایک ناسور جس کی وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں شدید مذمت کرتے رہے ہیں۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ خان صاحب نے اپنی جدوجہد کے دوران جس جس معاملے کوناخوب کہا تھا وہی اب خوب ہوتاجا رہا ہے۔