نریند رمودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے احمد آباد کے سٹیڈیم میں ایک لاکھ سے زائد افراد اکٹھے کرلئے۔ مودی نے جتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کیا وہ ان کے لیے شاید امریکہ میں ممکن نہیں۔ سٹیڈیم نمستے ٹرمپ، کے نعر وں سے گو نجتا رہا۔ واضح رہے گزشتہ برس 23ستمبر کومودی نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران ہیوسٹن کے سٹیڈیم میں پچاس ہزاربھارت نژاد امریکیوں کا اجتماع کیا تھا جس سے ٹرمپ نے بھی خطاب کیا تھا۔ اس وقت نعرہ Howdy Modi تھا۔ پاکستان کے برعکس بھارت امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے، تاہم مبصرین کے مطابق اس دورے سے بھارت کو کوئی فوری فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے بھارت سے سٹیل اور ایلو مینیم کی درآمدات پر ڈیوٹی لگا دی تھی جس کے جواب میں بھارت نے امریکہ سے زرعی آلات اور میڈیکل کے شعبے کے سازو سامان پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ امریکہ نے کئی دہائیوں سے نافذ ڈیوٹیوں پر خصوصی رعایت کا پروگرام ختم کر دیا تھا۔ بھارت کو زیادہ امید نہیں ہے کہ یہ تجارتی تنازع حل ہو پائے گا کیونکہ ٹرمپ ایک انتہائی شاطر بزنس مین ہیں جو ہر قیمت پر امریکی کسانوں اور صنعت کاروں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ البتہ اس دورے کے دوران 3 بلین ڈالرکی جدید ترین دفاعی سامان بشمول ہیلی کاپٹر اور خطرناک ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ بھارتیوں کو امریکہ میں روز گار فراہم کرنے کے لیے ایچ آئی بی ویزے دیئے جائیں گے، اس کے کوٹے کا ستر فیصد پہلے ہی بھارت کوملتا ہے۔ گویا کہ محض دفاعی سامان بیچنے کے لیے صدر ٹرمپ کو بھارت آنے کی ضرورت نہیں تھی۔
امریکی صدر کے لیے رواں سال الیکشن کا سال ہے، گزشتہ الیکشن میں امریکہ میں مقیم تقریباً 40 لاکھ بھارتی ووٹروں میں سے محض 6 فیصد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ کیا ٹرمپ کی بھارت یاترا اور احمد آباد میں جلسہ عام سے خطاب سے امریکی انڈین متاثر ہو جائیں گے۔ امریکی ووٹر زبھارتی ہوں یا پاکستانی مقامی مسائل کے پیش نظر رکھ کر ہی ووٹ دیتے ہیں۔ ماضی میں بھارت کا دورہ کرنے والے امریکی لیڈروں کے برعکس ٹرمپ نے تاحال پاکستان کو کوئی گالی نہیں دی بلکہ یہ کہا ہے کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور امید ہے کہ خطے میں کشیدگی کم ہوگی، ہم پاکستان کے ساتھ بڑی پیش رفت کے آثار دیکھنا شروع ہوگئے ہیں اور ہم کشیدگی میں کمی، وسیع استحکام اور جنوبی ایشیا کی تمام اقوام کے لیے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات مودی اور ان کے سخت گیر چیلوں کو جو جلسے میں سفید ٹوپیاں پہنے موجود تھے اچھی نہیں لگی ہو گی۔ شاید اسی لئے بہت سے حاضرین ٹرمپ کی تقریر کے دوران ہی جلسہ گاہ سے جانا شروع ہو گئے۔ مجموعی طور پر بھارت کا دورہ کرنے والے امریکی زعما یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنا چھوڑ دے لیکن ٹرمپ نے یہی بات انتہائی ملفوف انداز میں کہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور بھارت دہشت گردوں کو روکنے اور ان کے نظریئے کی بیخ کنی کے لیے کوشاں ہیں۔ اسی بناپر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب سے ان کی انتظامیہ اقتدار میں آئی ہے وہ بڑے مثبت انداز سے پاکستان کے ساتھ کام کر رہی ہے تا کہ اس کی طرف سے آپریٹ ہونے والے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے۔
خارجہ امور کے بعض ماہرین کا تو کہنا ہے کہ ٹرمپ کو بھارت کے بجائے پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ اسلام آباد نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں اس وقت افغان طالبان اور امریکہ کے دوران سیز فائر ہو چکا ہے جس کے بعد امن معاہدے پر با قاعدہ دستخط ہو جائیں گے اور 18سالہ جنگ جس میں اڑھائی ہزار کے قریب امریکی مارے گئے کو ختم کرنے میں پاکستان کے کلیدی رول کو سراہنے کے لیے خیرسگالی کا اظہار ہو سکتا تھا۔ لیکن ویسے نہیں جیسے مارچ 2000ء میں اسلام آباد کو شٹ ڈاؤن کر کے اس وقت کے امر یکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کا چند گھنٹے کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کی قیادت کو جلی کٹی سنا کر واپس امریکہ روانہ ہو گئے تھے لیکن ایسا ہونا شاید اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی "خدمات" کے باوجود امریکی اسٹیبلشمنٹ Frenemy گویا پاکستان کودوست بھی دشمن بھی سمجھتی ہے۔
برسہا برس کے پراپیگنڈے اور ہماری حکومتوں کی غلط ترجیحات اورنا قص پالیسیوں جنہیں بھارت نے ہمارے خلاف خوب استعمال کیا کے باعث پاکستان کا کبھی سافٹ امیج نہیں بن سکا اور اسے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہی تصور کیا جانے لگا۔ ہماری یہ دلیل کہ ہم تو خود دہشت گردی کا نشانہ ہیں کو مغرب میں کوئی پذیرائی نہیں ملی اب بھی جبکہ پاکستانی فوج اور سویلین حکومتوں کی کاوشوں سے دہشت گردی کو قریباً ختم کر دیا گیا ہے کا دنیا ہمیں بہت کم کریڈٹ دینے کو تیار ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ کسی غیر ملکی طاقت یا فوج کی مدد سے نہیں بلکہ ہماری سکیورٹی فورسز کی کاوشوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ گزشتہ برس 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر پوری طرح لاک ڈاؤن اور کرفیو کی حالت میں ہے، جہاں قابض بھارتی افواج کشمیریوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہی ہیں۔ دوسری طرف مودی کے اسلام اور مسلمان دشمن قانون شہریت کے باوجود صدر ٹرمپ مودی کو جپھیاں ڈال رہے ہیں، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ اور بھارت کے سٹرٹیجک اور کاروباری مفا دا ت ملتے جلتے ہیں، دونوں ممالک چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور اس حوالے سے پاکستان کے چین کے ساتھ سی پیک، کے تحت اقتصادی روابط نیز دفاع وسٹرٹیجک میدان میں قربت سے خائف ہیں۔ بھارت امریکہ کے لیے بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ چار سو ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ کے ذخائر ہونے کی بناپر نئی دہلی امریکہ کا سامان حرب نقد خرید سکتا ہے۔ بھارت کی بہت بڑی مڈل کلاس امریکہ کے لیے مارکیٹ ہے۔ وہاں پر امریکی ملٹی نیشنلز کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے جبکہ پاکستان اقتصادی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، مانگ تانگ کر بھی اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہیں۔ پاکستان کی تجارتی حالت اتنی پتلی ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک نے اگلے روز صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ہم برآمدات کے معاملے میں افغانستان، سوڈان، یمن اور ایتھوپیا کے ساتھ کھڑے ہیں، ہماری برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے دس فیصد سے بھی کم ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کے باوجود کہ امریکی صدر ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں جن کے والد بھی بہت امیر کبیر تھے، ان کی کمپنی کی سرمایہ کاری بھی بھارت میں موجودہے۔ دوسری طرف مودی جو چائے والا کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ان دونوں میں نظریاتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ مودی تو کھلم کھلا اسلاموفوبیا کاشکار ہے لیکن ٹرمپ کی پالیسیاں بھی بالخصوص اسرائیل کی بھرپور حمایت اور اعانت کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام دشمنی ہی کہلائیں گی ایسے موقع پر جبکہ بھارت میں میڈیا پابند ہے، شہری آزادیاں مسدودکی جا رہی ہیں۔ اس پس منظر میں بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے، پاکستان کے لیے اچھا موقع تھا کہ وہ ایک معتدل جمہوری ملک کے طور پر اپنا امیج بنا سکتا تھا لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ نام نہاد احتساب کے ناتے تمام اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جاچکا ہے اور میڈیا پر بھی طرح طرح کی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، یہ پراپیگنڈا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے سہارے چل رہے ہیں اور ان کے لانے والے بھی وہی لوگ تھے، پاکستان کو صحیح معنوں میں جمہوری ملک تصور نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ اچھا موقع تھا کہ ہم اپنا جمہوری اور معتدل تاثر نمایاں کر کے دنیا کو متاثر کرتے۔