Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Trump Muqabla Imran Khan

Trump Muqabla Imran Khan

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستا ن کے وزیراعظم عمران خان کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں۔ ٹرمپ کے متنازعہ انٹرویو کے جواب میں عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ٹرمپ کے دعوے جھوٹے ہیں، ہم وہی کرینگے جو پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔ ایک روز قبل ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھرپاکستان پر خوب برسے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہم سے اربوں ڈالر اینٹھتا رہا ہے لیکن اس کے عوض اس نے ہمارے لئے رتی بھر (Damn thing)کام نہیں کیا۔ اس سے پہلے نئے سال کے موقع پر اپنے ٹویٹ میں ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی یہ بہت بڑی حماقت ہے کہ گزشتہ برسوں میں اس نے پاکستان کو 33ارب ڈالر کی اقتصادی وفوجی امداد فراہم کی۔ اس کے بدلے میں اس نے ہمیں جھوٹ اوردھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ٹرمپ نے سوال کیا کہ کیا پاکستان سمجھتا ہے کہ ہم بے وقوف ہیں؟ اس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٹرمپ کو اپنا ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 123ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 75ہزار سے زائد جا نیں قربان کیں۔ ٹرمپ کسی اور اتحادی کی قربانی کی ایسی مثال دے سکتے ہیں؟ امریکہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرے۔ امریکہ پتہ چلائے کہ ایک لاکھ چالیس ہزار نیٹوافواج کی تعیناتی کے باوجود جنگ کیو ں نہ جیتی؟ ۔ عمران خان کے ٹویٹ کے 15منٹ بعد ٹرمپ نے اپنے دوسرے ٹویٹ میں پھر پاکستان کو ہدف تنقید بنا یا تو عمران خان نے پھر جواباً ٹویٹ میں کہہ دیا کہ ٹرمپ کا جھوٹ پر اصرار ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ٹرمپ سے پہلے جو امریکی انتظامیہ رہی ہیں ان کا بھی یہی گلہ رہاہے کہ اسلام آباداور راولپنڈی وعدے تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی سرزمین پر افغانستان میں دہشت گردی کے لیے پناہ گا ہیں مسلسل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ہمارا اصرار ہے کہ ہم تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے بڑ ی کامیابی سے دہشت گردی کی سرکوبی کی ہے لہٰذا ہم کیوں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرینگے۔ دوسری طرف امریکی صدر مصر ہیں کہ ہم سے اینٹھی ہوئی امداد سے افغانستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر کے امریکی شہر یوں کو ہی مارا جا رہا ہے۔ یکم مئی 2011ء کو اسامہ بن لادن کاامریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں مارے جانے کا ٹرمپ نے ’فاکس نیوز، کو انٹرویو میں خصوصی طور پرذکر کیا۔ انھوں نے یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ اسامہ بن لادن جو آ ٹھ برس سے ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول کے قریب ہی پناہ لیے ہوئے تھے کا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو علم ہی نہیں تھا۔ ٹرمپ کے مطابق اسامہ بن لا دن پاکستان کی آشیر باد سے ہی وہاں بیٹھا تھا۔ ان الزامات کے اعادے سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کو اب امریکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ ابھی دوما ہ قبل ہی پاکستان کی تین سو ملین ڈالر کی فوجی امداد بھی بند کی جا چکی ہے۔ غالباً پاکستان کی اشک شوئی کیلئے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم دہشتگردی کے خلاف اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کے معترف ہیں لیکن امریکہ کی اصل پالیسی وہی ہے جس کا صدر ٹرمپ نے دوبارہ اظہار کر دیاہے۔ کم از کم امریکی صدر کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ انہوں نے بلا کم و کاست اور لگی لپٹی رکھے بغیر وہ بات کہہ دی جو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے حقیقت ہے۔ سیکرٹری خارجہ محترمہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی سفیر پال جونز کو دفتر خارجہ بلا کر صدر ٹرمپ کے اس بیان پر جس میں ان کے مطابق بلاجواز اور بلاتصدیق پاکستان پر سنگین الزام تراشی کی گئی ہے، پر کہا ہے کہ امریکہ یہ بات بھول گیا ہے کہ پاکستان کی ابتدائی معلومات کے ذریعے ہی اسامہ بن لادن کا کھوج لگایا گیا تھا۔ سیکرٹری خارجہ کی یہ بات جزوی طور پر تو درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آخر اسامہ بن لادن آٹھ برس تک ایبٹ آباد میں کاکول اکیڈمی کے قریب بڑے مکان میں کیسے چھپا بیٹھا تھا۔ کیا یہ ہمارے اس وقت کے انٹیلی جنس اداروں کی لاعلمی تھی؟ یہ بات آج تک معمہ ہے۔ ٹرمپ کی تازہ دھمکی کی ٹائمنگ اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ ملکی اقتصادیات سخت بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی مو ڈیز نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی سطح کم ترین سطح تک پہنچنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، اس کے مطابق یہ ذخائر دو ماہ کی درآمدات کو بھی پورا نہیں کر سکتے۔ موڈیز کے مطابق پاکستان کو منگولیا، مالدیپ اور سری لنکا جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ممالک بھی چین کے ون بیلٹ روڈمنصوبے کا حصہ ہیں۔ گویا کہ امریکی صدر ہوں، موڈیز ہو یا آئی ایم ایف سب ہی چین کی اقتصادی اور سٹرٹیجک حکمت عملی سے خائف لگتے ہیں۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف نے "بیل آؤٹ پیکیج"دینے کیلئے انتہائی کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ جس کا سب سے بڑا مالی معاون امریکہ ہے کڑی شرائط پر ہی قرضہ دے گا۔ سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر آ چکے ہیں جبکہ چین اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہاں سے بڑی رقوم ملنے والی ہیں۔ تاہم یہ ڈالر خرچ کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی چال وہی بے ڈھنگی ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی معیشت کا پہیہ بھیک مانگ کر غیر ملکی قرضوں سے چل پڑے گا تو یہ بہت بڑی خام خیالی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جب وزیر اعظم عمران خان، ان کے ترجمان فواد چودھری، عدلیہ اور نیب سب کہہ رہے ہیں کہ پکڑو، پکڑلو، جانے نہ پائیں، اس ماحول میں جبکہ تمام چیدہ چیدہ صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کے کچے چٹھے کھولے جارہے ہوں وطن عزیز میں کون احمق سرمایہ کاری کرے گا۔ اسی لیے یہ خبر، خبر نہیں ہے کہ گزشتہ ایک برس میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 55فیصد کم ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار ملکی سرمایہ کاروں کی آشیرباد، مشورے اور اکثر اوقات شراکت داری کی بنیاد پر ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ تین ما ہ میں افراط زر کی شرح چار سے چھ برس کے مقابلے میں سب سے زیادہ بڑھی ہے۔ اسی طرح ما ہر ین اقتصادیات کا اندازہ ہے کہ شرح نمو میں بھی بدترین کمی واقع ہو رہی ہے۔ شاید اسی بنا پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے حال ہی میں کہا ہے" دس کی روٹی پندرہ روپے کا نان، یہ ہے نیا پاکستان"۔ بلاول نے تو یہ بات طنزاً کہی ہے لیکن حکمرانوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ اگر بے روزگاری اورمہنگائی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تواس خدشے کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا کہ خدا نخواستہ اکتائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔ عمران خان کو حکومت میں بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چا ہیے۔ ویسے بھی وہ حکومت کے سو دن پورے ہوتے ہی اپنی ٹیم کی سودن کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے ہیں۔ انھیں نہ صرف اپنی انفرادی ٹیم میں ردوبدل کرنا چاہیے بلکہ اپنے طر ز حکمرانی میں بھی تبدیلی لانا ہو گی کیونکہ ان حالات میں صنعت کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے، بیوروکریسی کام نہیں کر رہی اور حکمران محض گالی گلوچ کی سیاست کررہے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran