موجودہ حکومت کے مخصوص طریقہ کار کے تناظر میں اٹارنی جنرل انور منصور خان کا استعفیٰ بھی قطعاً حیران کن نہیں ہے۔ جس انداز سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا اور بعدازاں اس کی پیروی کی گئی اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ قاضی صاحب کی چھٹی کرانا مقصود تھا کیونکہ وہ ایک آزاد منشں جج ہیں اور آئندہ چیف جسٹس بھی بنیں گے۔ لیکن جس نالائقی سے یہ کیس لڑا گیا وہ حکومت کی قانونی ٹیم کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ اس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے میں آئی جب اٹارنی جنرل انور منصور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔ اس وقت چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ان کی قانونی لغزشوں کو بعض اوقات نظر انداز بھی کیا اور بعض مواقع پر ان کی سرزنش بھی کی اور کئی مرتبہ عدلیہ کو ہی انھیں قانونی راستہ دکھانا پڑا۔ انور منصور نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے نام اپنے ارسال کردہ استعفے میں کہا ہے کہ وہ اس وجہ سے مستعفی ہو رہے ہیں کہ پاکستان بار کونسل جس کے وہ چیئرمین بھی ہیں نے 19 فروری کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اٹارنی جنرل نے قاضی فائز عیسٰی کے ریفرنس کے لیے بنائے ہوئے بینچ کی ہیئت ترکیبی پر اعتراض کیا تھا بلکہ انور منصور نے ججوں کی نیت پر ہی شبہ کا اظہار کر دیا۔ اسی حوالے سے پاکستان بار کونسل نے آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت ان کے خلاف بدھ کو توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی تھی۔ توہین عدالت کی اس پٹیشن میں وہ ساری روداد بیان کی گئی ہے جن کی وجہ سے اٹارنی جنرل کی چھٹی ہوئی۔ انھوں نے استعفیٰ دیا نہیں بلکہ ان سے لیاگیا ہے۔ پٹیشن کے مطابق جب اٹارنی جنرل سے کہا گیا کہ آپ بینچ کی نیت پر شبہ کرنے والے الفاظ واپس لیں یا اس ضمن میں تحریری طور پر شکایت کریں انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور انتہائی رعونت کے ساتھ کہا میں نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے2ارکان پر اعتراض کیا تھا کہ ان کے فارغ ہونے سے ان دو ججوں کو فائد ہ پہنچ سکتا جس پر ان فاضل ججوں نے بینچ سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ اس کے4ماہ بعد نہ جانے انور منصور صاحب کو نئے بینچ پر اعتراض کرنے کی کیونکر سوجھی۔
توہین عدالت کی درخواست میں اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا گیا ہے کہ انور منصور کے اس توہین آمیز رویے پر وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب فروغ نسیم کا کہناہے کہ انور منصور کا موقف جھوٹ پر مبنی ہے ہمیں ججوں پر الزاما ت کا پتہ نہیں تھا اور حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ انور منصور نے وزیر قانون کو جھٹلاتے ہوئے کہا ہے کہ میرا بیان حکومت کے موقف کے مطابق تھا اوروہ اس سے بخوبی آگاہ تھی۔ فروغ نسیم جو خود بھی عدالت میں موجود تھے کا دعوی ہے کہ وہ بطور وزیر قانون نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں عدالت میں موجود تھے۔ فروغ نسیم صاحب کابھی طرفہ تماشا ہے کہ وہ سروسز ایکٹ میں آرمی چیف کی پیروی کرنے کے لیے ان کے وکیل بن گئے تھے اور کیونکہ وہ عہد ے سے استعفیٰ دیئے بغیر ایسا نہیں کر سکتے تھے لہٰذا وہ اپنے عہدے سے عارضی طور پر سبکدوش ہو گئے تھے۔ بعدازاں مقدمے کے اختتام کے بعد انھوں نے دوبارہ وزارت کا حلف اٹھا لیا۔ حکومت کے اعلیٰ ترین لاء افسر کا اتنے حساس اورپیچید ہ کیس کے موقع پر عدالت میں موجود ہونا محض اتفاق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس حوالے سے ان کی کوئی ذاتی حیثیت ہے۔ اب سارا ملبہ اٹارنی جنرل پر ڈال دیا گیا ہے۔
وزیر قانون کا ارشاد ہے کہ قاضی فائزعیسیٰ کیس میں اٹارنی جنرل کی کارکردگی اچھی نہیں تھی اور ان کی خراب کارکردگی نے ہی ججوں کو غصہ دلایا۔ جس بناپر ان سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا جبکہ انور منصور کا اصرار ہے کہ وہ پاکستان بار کونسل کے مطالبے پر مستعفی ہوئے ہیں۔ حکومت نے ججوں کے خلاف اٹارنی جنرل کے بیان سے لاتعلقی کا موقف سپریم کورٹ جمع کرادیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے واضح طورپر کہا ہے کہ عدلیہ کا مقام ہر طرح سے مقدم ہے اور اس ضمن میں کوئی بیان بازی نہ کی جائے۔ ڈسپلن کی مزید خلاف ورزی کرنے پر سخت کارروائی ہو گی۔ خان صاحب کی یہ وارننگ بروقت ہے کیونکہ مختلف حکومتی ترجمانوں کا وتیرہ رہاہے کہ جب حکومت کے حق میں کوئی فیصلہ آئے تو کہا جائے کہ عدلیہ آزاد ہے لیکن اگرفیصلہ خلاف ہو تو عدلیہ پر مختلف تہمتیں لگائی جائیں۔ مثال کے طور پر جب عدالت کی طرف سے میاں نواز شریف کو بغرض علاج باہر جانے کی اجازت دی گئی تو حکومت کے ترجمانوں نے خوب ہاہا کار مچائی حتیٰ کہ مشیر اطلاعا ت محترمہ فردوس عاشق اعوان کو اسلام آباد کی عد الت عالیہ سے معافی مانگنی پڑی۔ پاکستان بار کونسل کی توہین عدالت کی درخواست میں انور منصور خان اور محترمہ فردوس عاشق اعوان کے علاوہ وزیر قانون فروغ نسیم اور معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر پر الزام لگایا گیا ہے کہ جب کوئی فیصلہ حکومت کے موافق نہ ہو تو یہ حکومتی اہلکار عدلیہ کو نیچا دکھانے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر نے کو تیارہو جا تے ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ وہ فروغ نسیم صاحب کو اب فارغ کر دیں کیونکہ اگر یہ سب کچھ دانستہ طور پر نہیں کیا جا رہا تھا جیساکہ دعویٰ کیا جا رہا ہے تو پھر اسے پرلے درجے کی نالائقی ہی تصور کیا جائے گا۔