Ye Wo Sahar To Nahi?
Arif Nizami92 News879
پاکستان کی 13ویں قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا۔ باقی مراحل کی تکمیل کے بعد عمران خان ہفتہ کو وزیراعظم کا حلف بھی اٹھا لیں گے۔ یہ قومی اسمبلی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ متوقع وزیراعظم اور ان کی جماعت تبدیلی کے علمبردار ہیں لیکن جس تبدیلی کا ڈنکے کی چوٹ پر دعویٰ کیا جا رہا ہے، موجودہ صورتحال میں نظر آنا شروع نہیں ہوئی اور جیسے نامساعد ملکی حالات ہیں ان میں کوئی بڑا انقلاب برپا ہوتا بھی نظر نہیں آتا۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے والوں میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے بلاول بھٹو سے مصافحہ کر کے اچھا کیا، کہنے کو اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر ہے لیکن شہبازشریف مغربی سوٹ زیب تن کیے ہوئے گہری سوچ میں گم اُکھڑے اُکھڑے سے نظر آئے۔ انھیں آصف زرداری اور برخوردار بلاول بھٹو کو Reachout ریچ آؤٹ کرنے کے علاوہ متوقع وزیراعظم عمران خان کو مبارکباد بھی دینی چاہیے تھی۔ تاہم عمران خان نے بلاول بھٹو کا پرتپاک استقبال کیا، اس کے علاوہ آصف زرداری اور میاں شہبازشریف سے بھی مصافحہ کیا۔ شاید" سابق خادم اعلیٰ "خود کو ہال میں اجنبی سے محسوس کر رہے تھے کیونکہ انھیں شاید عوام کے ایوانوں میں بیٹھنے کی زیادہ عادت نہیں، وہ صوبائی اسمبلی میں بھی شاذ ہی قدم رنجہ فرماتے تھے۔"اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں " کے مترادف شاید معاملات درستگی کی طرف جانا شروع ہوجائیں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ عین اس وقت جب نومنتخب اسمبلی کے ارکان حلف اٹھا رہے تھے ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے نوازشریف کو جس نے سیاست کے تمام مدوجزر دیکھے ہیں، بطور قیدی اڈیالہ جیل سے بکتربند گاڑی میں پیشی بھگتنے کیلئے عدالت لایا جا رہا تھا۔ جہاں ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ یہ"حسن سلوک" جیسے کہ وہ ایک دہشت گرد ہو انتہائی قابل مذمت ہے وہیں یہ تمام سیاستدانوں کے لیے سبق آموز اور عبرت کا مقام ہے۔ اگر کوئی یہ تصور کر بیٹھتا ہے کہ وہی پاکستان میں حکومت کرنے کا ہی ٹھیکیدار ہے اور نورتن اس کے سامنے کورنش بجا لاتے رہیں گے اور ووٹرز ہمیشہ اس کے وفادار رہیں گے تو یہ بہت بڑی کج فہمی ہو گی۔ اس صورتحال میں عمران خان کے لیے بہت بڑا سبق مضمر ہے۔ یقینا عمران خان راست باز اورایماندار لیڈر ہیں اور شاید ان کے فلاحی کاموں بالخصوص شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے باعث اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت بھی ڈال دیتا ہے لیکن وطن عزیز کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان کے حل کے لیے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، ان کے ووٹرز بے تاب ہیں کہ وہ تبدیلی لے کر آئیں گے، اب تک کے معاملات میں ان میں حتمی فیصلہ کرنے کی قوت کا فقدان نظر آتا ہے۔ بطور وزیراعظم وہ کہاں قیام کریں گے اس بارے میں کبھی منسٹر انکلیو کبھی پنجاب ہاؤس اور کبھی وزیراعظم ہاؤس کی انیکسی کا نام لیا جا رہا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس بے برکتہ ہے جس کا باسی وزیراعظم کبھی ٹرم پوری نہیں کر سکا۔ محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو، ظفراللہ جمالی، یوسف رضاگیلانی، نوازشریف سب کو ہی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی دیس نکالا ملا۔ وزیراعطم ہاؤس پر تعیش عمارت بھی نہیں ہے اور غالبا ً اس کا رقبہ بنی گالہ میں خان صاحب کی اقامت گاہ سے کم ہی ہو گا۔ لہٰذا اس عمارت کو جس میں وزیراعظم کا دفتر، سٹاف کے لیے جگہ، دفاتر سب کچھ موجود ہے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے لیکن خان صاحب کو جو بھی فیصلہ کرنا ہے کر لینا چاہیے کیونکہ انھوں نے اور بھی بڑے فیصلے کرنے ہیں جن میں کابینہ کا چناؤ کلیدی ہے کہ وہ کس قسم کی ٹیم کے ساتھ اپنا ایجنڈا آگے بڑھائیں گے۔ ظاہر ہے کہ گورننس کے علاوہ سب سے کلیدی مسئلہ اکانومی کا ہے۔ پاکستان اس وقت دیوالیہ ہے اور متوقع وزیر خزانہ اسدعمر بارہ ارب ڈالر کا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بات کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پاکستان کے لیے کوئی نئی یا غیر معمولی بات نہیں ہے، ماضی میں قریبا ً ہر حکومت آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلا کر قرضے لیتی رہی ہے۔ سابق حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لیا لیکن خلاف روایت واپس بھی کر دیا۔ یقینا اس وقت کشکول توڑنے کے بجائے پہلے سے لیے ہوئے قرضے واپس کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑ رہا ہے کیونکہ عمران خان کے بقول گزشتہ حکومت کے دور میں غیر ملکی قرضے دگنا ہو گئے ہیں۔ اگر بار بار قرضے لینے پڑ رہے ہیں تو سسٹم میں کوئی بنیادی سقم موجود ہے۔ ہماری برآمدات طویل عرصہ سے روبہ زوال ہیں جو ٹیکس دے سکتے ہیں انھیں ٹیکس دینے کی عادت ہی نہیں۔ زراعت کو ہی لیجئے زرعی آمدنی پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں گرانقدر اضافہ کیا لیکن اس کے باوجود گردشی قرضے قریباً دس کھرب رو پے تک پہنچ گئے۔ اسدعمر اور ان کی ٹیم جب آئی ایم ایف سے مذاکرات کرے گی تو یقینا وہ یہ شرائط عائد کرے گا کہ قرضہ لینا ہے تو معاملات ٹھیک کریں۔ براہ راست ٹیکس لگائیں، سبسڈیز ختم کریں اور پبلک سیکٹر کے ادارے جن میں پی آئی اے، سٹیل ملز وغیرہ سرفہرست ہیں کو پرائیویٹائز کریں۔ اگرچہ یہ سب کام اقتصادی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس وقت عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کیونکہ آئی ایم ایف کے مطالبات پر صاد کر کے چلنے کے نتیجہ میں مہنگائی، بے روزگاری اور عوام میں بددلی پیدا ہو گی۔ عمران خان نے26 جولائی کو وکٹری سپیچ میں کہا تھا کہ ہماری پالیسیاں اشرافیہ کیلئے نہیں بلکہ ملک کے نچلے طبقے کو اوپر اْٹھانے کیلئے بنیں گی لیکن خدانخواستہ عملی طور پر ایسی صورتحال نہ پیداہو جائے کہ ان کے سپورٹرز کو فیض کا یہ شعر گنگنانا پڑ جائے۔ یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کرچلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں اسلامی ترقیاتی بینک نے سعودی عرب کے ایما پر نئی حکومت کوچار ارب ڈالر کا قرضہ دینے کی نوید سنائی ہے، کچھ دیگر دوستوں سے بھی کوئی ریلیف مل جائے تو آئی ایم ایف کے سخت پیکیج کی شاید ضرورت ہی نہ پڑے، اوورسیز پاکستانیوں سے بھی تقریباً دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، لیکن زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ چین تو پہلے ہی سی پیک کے حوالے سے مددکر رہا ہے جبکہ ترکی کی معیشت کا بھرکس نکل گیا ہے۔ امریکی پابندیوں کے بعد اس کی معیشت بڑی تیزی سے تنرلی کا شکار ہے البتہ متحدہ عرب امارات کچھ مدد کر سکتا ہے جو شاید ہمارے مالیاتی اور تجارتی خسارے کے بہت بڑے فرق کو پورا نہ کر سکے۔ اسدعمر کا کہنا ہے کہ ہر ماہ درآمدات اور برآمدات میں دو ارب کا خطیر گیپ ہے جو جولائی میں بڑھ کر تین ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے، یہ واضح ہے کہ اب محض پیوند کاری سے معیشت ٹھیک نہیں ہو پائے گی۔ اس کے لیے کچھ بنیادی فیصلے کرنا پڑیں گے جو فوجی قیادت اور اپوزیشن کو آن بورڈ لیے بغیر نہیں ہو پائیں گے۔ بد قسمتی سے خارجہ تعلقات کے حوالے سے بھی اس وقت ہم تنہائی کا شکار ہیں۔ امریکہ سے تعلقات کشیدہ تر ہیں۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بھی تعلقات میں جمود پایا جاتا ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے نریندرمودی سے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اصولی طور پر تو پاکستان اور بھارت کے خوشگوار اقتصادی اور سیاسی تعلقات پاکستان کے لیے سودمند ہو نگے، اس ضمن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی بھارت سے بہتر تعلقات کاعندیہ دے چکے ہیں تاہم کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے بغیر دونوں ہمسایوں کے درمیان تعلقات کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔