Ye Wo Sehar To Nahi
Arif Nizami92 News767
قارئین کو نیا سال مبارک، یہ روایت بن گئی ہے کہ میڈیا گزرے سال میں ہونے والے قومی و بین الاقوامی حالات کا جائزہ پیش کرتا ہے اور بعض چغا دری تجزیہ کار تو اگلے برس کی پیش گوئی بھی کر دیتے ہیں۔ گزرے برس کا جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں لیکن کسی حد تک ہی گزرے حالات کی بنیاد پرآئندہ ہونے والے ممکنہ واقعات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہمارے بعض دوست کوشش کرتے ہیں کہ پیشگوئیاں کریں لیکن صحافی جوتشی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے اس قسم کی توقع کرنی چاہیے۔ 2018ء میں عام انتخابات ہوئے اور عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف برسر اقتدار آ گئی۔ اس دوران عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلے گئے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لیکن اس ضمن میں جس مربوط انداز میں دیگر جماعتوں سے دھونس اور تحریص کے ذریعے نام نہاد الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا یا انھیں منتخب ہونے کے بعد برسر اقتدار جماعت کی حمایت پر راضی کیا گیا ایسا شاید پاکستان کی تاریخ میں سویلین دور میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ عمران خان اس دھڑلے کے ساتھ حکومت میں آئے کہ وہ تبدیلی کے پیامبر ہیں لیکن چار ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عوام فیض کے ان اشعار کا ہی ورد کرتے ہیں۔ یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کرچلے تھے یارکہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں گزشتہ برس کا دوسرا بڑا واقعہ شریف خاندان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کی مربوط کوشش کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ میاں فیملی کے لیے تو 2018ء خاصا نا خوشگوار ثابت ہوا۔ بیگم کلثوم نواز کا کینسر کے موذی مرض کے باعث انتقال میاں نوازشریف کے لئے ذاتی سانحہ ثابت ہوا۔ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی اس قلق کا اظہارکرتے ہیں کہ وہ کلثوم نواز کے آخری لمحات میں ان کے پاس نہیں تھے۔ عام انتخابات سے چند روز پہلے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزائیں ہو گئیں۔ جب وہ لندن سے واپس لاہور پہنچے تو انھیں ائیر پورٹ پر ہی گرفتار کر کے اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ بعدازاں میاں صاحب کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت ہو گئی۔ گزشتہ ماہ دیگر دو ریفرنسز میں سے فلیگ شپ ریفرنس میں ان کو بری کر دیا گیا جبکہ العزیزیہ میں انھیں سات برس اور 250 ملین ڈالر جرمانہ کی سزائیں ہو گئیں، اب وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ نئے سال کے پہلے روز ہی ان کے وکیل خواجہ حارث نے العزیزیہ ریفرنس میں میاں صاحب کی سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ اکثر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نوازشریف کے خلاف کیسز میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ نے ’پاناما گیٹ، میں انھیں کرپشن کے بجائے اقامے پر زند گی بھر کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ اس طرح نیب عدالت میں چلنے والے ریفرنسز کو اس لیے الگ الگ کیا گیا کہ ان کی سزا یقینی ہو جائے۔ 2018ء میں ایک نئی جہت ڈالی گئی جو نوازشریف، شہبازشریف اور آصف زرداری کے خلاف تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کا قیام تھا۔ جے آئی ٹی کو جس انداز سے اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اکثر غیر جانبدار قانونی ماہرین ایک ایسی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران بھی شامل کیے جاتے رہے ہیں اسے قانونی اور انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیتے ہیں۔ سب سے حیران کن بات مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف کی گرفتاری تھی جنہیں نیب نے صاف پانی کیس میں طلب کر کے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں دھر لیا۔ عام طور پر یہ تاثر تھا کہ شہبازشریف مقتدر اداروں کے لاڈلے ہیں اور جب میاں نوازشریف اپنی نااہلی کے بعد ’مجھے کیوں نکالا، کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس کی شکل میں براستہ جی ٹی روڈ لاہور پہنچے تو شہبازشریف نے اس حکمت عملی کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ نوازشریف کو بھی مشورہ دیتے تھے کہ اتنی ہارڈ لائن نہ لیں اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ لیکن اگر چھوٹے میاں کا خیال تھا کہ اس وجہ سے ان کے ساتھ رعایت برتی جائے گی تو یہ ان کی کج فہمی تھی کیونکہ جیسا سسٹم پاکستان میں رائج ہو چکا ہے اس کے مطابق نوازشریف اور شہبازشریف ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تصور ہوتے ہیں۔ 2018ء کے اواخر میں عام خیال تھا کہ اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف زرداری کے دست راست اور بزنس پارٹنر انور مجید اور ان کے صاحبزادے کی گرفتاری کے بعد اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزام میں جس کے فریق اول آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ہیں، نہیں بچ جائیں گے۔ اس حوالے سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ پہلے ہی طشت ازبام کر دی گئی لیکن سال کے آخری روز جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے دعویٰ کیا کہ متذکرہ رپورٹ ان کے دفتر سے لیک نہیں ہوئی، صحافی ویسے ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے حالانکہ ان کو علم ہے کہ اس رپورٹ کی پی ڈی ایف فائل سپریم کورٹ میں سماعت سے چند روز پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھی۔ آخر یہ کون سے فرشتے تھے جنہوں نے عام کی، ٹیلی ویژن پر تبصرے بھی ہوئے، یقینا یہ زرداری اینڈکو کی میڈیا ٹرائل کی ایک مذموم کوشش تھی۔ جس سرعت سے جے آئی ٹی کے کہنے پر 172 افراد کو جن میں زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی شامل تھے کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس اقدام پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کیونکر باہر جا سکتا ہے؟ ۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت گرانے کے لیے ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ یہ بھی نئی جہت ہے کہ ایک وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو گرانے کے درپے ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر ناصر شاہ اور وزیر قانون مرتضیٰ وہاب نے گورنر راج کو خارج ازمکان قرار دیا اور فارورڈ بلاک بننے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے یکسر رد کر دیا ہے۔ ناصر شاہ نے کسی حد تک درست ہی کہا ہے کہ اس وقت وفاقی وزرا گفتار کے گلو بٹ بنے ہوئے ہیں۔ متذکرہ واقعات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران جمہوریت کے نام پر ہی جمہوریت کا قتل ہوتا رہا۔ گزرے ہوئے برس کی ایک انفرادیت یہ بھی تھی کہ سیاستدانوں نے اپنی ٹامک ٹوئیوں کے ذریعے کافی حد تک خود کو بھی ایکسپوز کیا۔ مثلاً پیپلزپارٹی سندھ میں اس کی حکومت کو گرانے کی پی ٹی آئی کو کوششوں کو غیر جمہوری قرار دے رہی ہے لیکن گزشتہ برس کے اوائل میں جس انداز میں بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے کی کوششوں میں یہ پارٹی ملوث رہی زرداری صاحب نے اس کا برملا کریڈٹ لیا۔ اسی طریقے سے میاں نوازشریف بطور اپوزیشن لیڈر میمو گیٹ میں زرداری صاحب کو غدار قرار دلوانے کیلئے وکیلوں کی کالی وردی پہن کر خود سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ اور جب زرداری صاحب نوازشریف کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب تھے تو میاں صاحب نے ان سے کنارہ کشی کر لی۔ آج پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن شیروشکر ہیں۔ آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک۔