جمعرات کو وزیراعظم عمران خان اپنے معمول کے یکسر برخلاف قومی اسمبلی میں وارد ہو گئے۔ وہ شاذ ہی پارلیمنٹ میں جو ان کی طاقت کا منبع ہے قدم رنجہ فرماتے ہیں، اس ضمن میں انھوں نے اپنے پیشرو میاں نواز شریف جو بطور وزیر اعظم پارلیمنٹ سے دور ہی رہتے تھے، کے ریکارڈ کو بھی مات کر دیا ہے۔ پاکستانی برانڈ پارلیمانی جمہوریت کا خاصا رہا ہے کہ وزرائے اعظم الیکشن جیت کر پارلیمنٹ کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں لیکن اس کے بعد پارلیمنٹ کا رخ کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ اس طرز کی جمہوریت کو میرے دوست معروف قانون دان اور سیاستدان اعتزاز احسن "پرچی جمہوریت" کا نام دیتے ہیں۔ گویا کہ اب ہم پانچ سال کے لیے ملک کی تقدیر کے مالک اور مختارکل ہیں اب پارلیمنٹ میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری جب لندن میں خودساختہ جلاوطنی میں تھے تو انھوں نے مجھے کھانے پر بلایا اور وزرائے اعظم کے اس روئیے کے پس منظر میں جاتے ہوئے مجھے کہنے لگے میاں نواز شریف کو پیغام دینا کہ وہ وزیراعظم بنیں مغل اعظم نہیں۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی یوسف رضا گیلانی بطور وزیراعظم باقاعدگی سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے لیکن ان کے بعد آنے والے وزرائے اعظم بالخصوص نواز شریف اور عمران خان نے اس روایت پر عمل نہیں کیا۔ دراصل پارلیمنٹ میں حکمران جماعت کے ارکان کے علاوہ اپوزیشن ارکان کی بھی وزیر اعظم تک رسائی ہو جاتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر وزیراعظم بھی انہی کی طرح رکن قومی اسمبلی ہوتے ہیں اور وزیراعظم بننے سے انھیں سرخاب کے پر نہیں لگ جاتے لیکن وزیراعظم کے اردگرد مشیر اور بیوروکریسی ان کو ایسے شیشے میں اتارتی ہے کہ وہ خود کو بالاتر سمجھتے ہوئے اپنے ساتھی ارکان اسمبلی حتی کہ وزرا سے بھی ملاقات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں خوشامد اور مبارک سلامت سے ہٹ کر اپوزیشن کی تندوتیز تنقید اور بعض اوقات ناجائز نکتہ چینی سننا اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنا پڑتی ہے۔
یہ بات تو اْسی روز واضح ہو گئی تھی کہ وزیراعظم نہ تو اپوزیشن کی بات سننے گئے تھے اور نہ ہی حکمران جماعت کے ارکان یا اپنے اتحادیوں کی۔ وہ اپنی بات سنانے گئے تھے اور اپنی کتھا بیان کر کے جسے بعض ناقدین نے لیکچر کا بھی نام دیا وہ چلتے بنے۔ غالباً سپیکر کے ساتھ باقاعدہ ایک طے شدہ ٹائم ٹیبل کے مطابق 75 منٹ کی اْن کی تقریر کے بعد سپیکر نے نماز عصر کے لیے اجلاس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیا، اس دوران خان صاحب واپس چلے گئے۔ اس طرح اپنی تقریر کے جواب میں بلاول بھٹو اور خواجہ آصف کی کڑی تنقید کو سننا نہ پڑا۔ ایک بات ضرور تھی کہ اپوزیشن نے خلاف معمول خاموشی اور توجہ سے وزیراعظم کی باتیں سنیں اور ان کی تقریر کے دوران کوئی رخنہ اندازی نہیں کی تاہم جب خواجہ آصف تقریر کے لیے اٹھے تو حکمران جماعت کے ارکان ہلڑ بازی کرنے لگے جنہیں بمشکل سپیکر نے بٹھایا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے کیونکر قومی اسمبلی کا رخ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کی نکتہ چینی کا جواب دینے آئے ہیں لیکن انھوں نے کوئی نئی بات نہیں کی جو وہ اور ان کے ترجمان اکثر اپوزیشن کے بارے میں کہتے رہتے ہیں۔ غالباً وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ حکمران اتحاد اور جماعت میں حالیہ پیدا ہونے والی دراڑ وں کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے ارکان اور اتحادیوں کو براہ راست انگیج کریں۔ اگر واقعی یہی مسئلہ تھا تو قومی اسمبلی میں ان کی تشریف آوری سے حل نہیں ہوا کیونکہ اس مقصد کے لیے قائد ایوان کو اسمبلی میں بیٹھنا پڑتا ہے یہ نہیں کہ آئیں، تقریر کریں اور چلے جائیں۔ خان صاحب نے اسمبلی فلور پر جو باتیں کہیں ان میں سے کوئی بھی نئی نہیں تھی۔ مثال کے طور پر ان کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی تضاد یا یوٹرن نہیں بلکہ تسلسل پایا جاتا ہے۔ وہ روز اول سے ہی لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں، ان کی بات واقعاتی طور پر درست ہے لیکن جب صوبوں اور وفاق کو طوہاً و کرہاً "لاک ڈاؤن " کرناپڑا تو عوام نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے میسج کی بنا پر اس پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا، اسی بنا پر پھر "سمارٹ لاک ڈاؤن" کو نافذ کرنا پڑا جس کے تحت پاکستان کے بڑے شہروں میں قریباً تمام بڑی آبادیوں کو سیل کرنا پڑا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم جب کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی دہائی دے رہے تھے، اس روز ملک میں کورونا وائرس سے متاثر اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ریکارڈ نمبر تک پہنچ چکی تھی۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میں درست طور پر اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا کہ نیب آزادادارہ ہے اور اس کے سربراہ کی تقرری اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی پیپلز پارٹی نے اتفاق رائے سے کی تھی، اب وہ دہائی دے رہے ہیں کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ 90 فیصد کیسز پی ٹی آئی کے دور حکومت سے پہلے کے ہیں۔ خان صاحب اور ان کے حواری جو بھی کہیں بہت کم لوگ یہ ماننے کو تیار ہونگے کہ نیب کو مخصوص مقاصد کے تحت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا۔
وزیراعظم نے کورونا وبا سے پہلے اکانومی کا "سب اچھا ہے "کا دعویٰ بھی کیا لیکن ختم ہونے والے مالی سال کے اعداد و شمار چغلی کھاتے ہیں کہ سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بھی اقتصادی صورتحال کوئی اچھی نہیں تھی۔ وزیراعظم کا مسلسل استدلال رہا ہے کہ لاک ڈاؤن سے اقتصادیات تباہ ہو جائیں گی اور غریب آدمی بھوکا مر جائے گا۔ لیکن لاک ڈاؤن کے بارے میں گومگو کی پالیسی سے غریب آدمی بھی پس رہا ہے اور اقتصادیات بھی بحال نہیں ہو پارہیں کیونکہ جب تک موذی مرض کی ویکسین دریافت نہیں ہوتی سوائے لاک ڈاؤن کے تباہی کے گراف کو نیچے لانے کا اور کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم غالباً جوش خطابت میں یہ تک کہہ گئے کہ امریکہ نے ایبٹ آباد میں ہماری سرزمین پر القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو شہید کر دیا۔ اسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی انتہائی کامیاب ہے اور امریکی صدر ٹرمپ ہمارے حواری ہونے کے باوجود رات کے اندھیرے میں دراندازی کرنے کے بجائے ہمیں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ پاک فوج یا پاک فضائیہ اس امریکی آپریشن کے بارے میں قطعی لاعلم تھی، اس لحاظ سے خان صاحب کا ا عتراض کسی حد تک بجا ہے کہ امریکہ کوپاکستان کو اعتماد میں لے کر یہ آپریشن کرنا چاہیے تھا تا ہم اعتماد کے فقدان کی بنا پر اس نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ خان صاحب کے تمام تر دعوؤں کے باوجود آج بھی اعتماد بحال نہیں ہوا۔ دہشت گردی پر امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2019ء کی رپورٹ میں پھر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردوں کی کمین گاہ اور پناہ گاہوں کے لیے استعمال کرنے دے رہا ہے۔
وزیراعظم کو موجودہ گھمبیر صورتحال جس میں ان کی پارٹی میں بھی پھوٹ پڑی ہوئی ہے، تحریک انصاف کے ایم این اے راجہ ریاض کے مطابق بیس بائیس ارکان قومی اسمبلی کا نا راض گروپ بن چکا ہے' اکانومی کی حالت بھی اچھی نہیں ہے، پاکستان کے حساس صوبے سے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) انہیں خیرباد کہہ چکی ہے اور جمہوری وطن پارٹی بھی وعدے پورے نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کی دھمکی دے چکی ہے، نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیے۔ ان کی حکومت کو کوئی فوری خطرہ نہیں لیکن پیروں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے اب ایک اشارے پر ان کی حکومت جا سکتی ہے۔ ان کو اپوزیشن سے نہیں بلکہ اپنوں سے خطرہ ہے اور یہی تاریخ کا سبق ہے۔