Thursday, 28 November 2024
  1. Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Imran Khan Ko Ghar Bhejne Mein Haail Rakawaten

Imran Khan Ko Ghar Bhejne Mein Haail Rakawaten

وہ جو کہتے ہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات مثالی نہیں رہے۔ وہ جو سمجھتے ہیں کہ حکومت ڈیلیور نہیں کر سکی، اسٹیبلشمنٹ پریشان ہے اور عمران خان کے سامان باندھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے وہ جو پہلے دسمبر اور پھر مارچ کی تاریخ دے رہے تھے۔ وہ جو مائنس ون کی کہانی سناتے ہیں کبھی مائنس آل کی، کبھی قومی حکومت کی بات کرتے ہیں کبھی نئے انتخابات کی۔ شہر اقتدار میں بیٹھے ان تمام دوستوں سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے دس دلائل ان کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔

1۔ خطے کے حالات پاکستان میں کسی بڑی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، طالبان امریکہ ڈیل پاکستان کے لئے بہت اہم ہے، اس ڈیل کا کامیاب ہونا بہت ضروری ہے، اس کے لئے انٹرا افغان مذاکرات کے کٹھن مرحلے سے گزرنا ہو گا، جس کے نتیجے میں مفاہمت کے ذریعے پرامن افغانستان پاکستان کے لئے بہت سی خوشخبریاں لائے گا۔ ڈیل کامیاب ہوتی ہے، تو خطے پر اس کے واضح اثرات ہوں گے۔ دوسری طرف پاک بھارت کشیدگی، کشمیر کی صورتحال، بھارت کے اندرونی حالات، ایران سعودی عرب کشیدگی۔ ان تمام معاملات سے پاکستان کا مفاد جڑا ہے۔ بڑی سیاسی تبدیلی اس موقع پر ایک ایڈونچر ثابت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہو گا۔

2۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عمران خان کو پچھلے ڈیڑھ سال میں سفارتی محاذ پر زبردست کامیابیاں ملی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی تعلقات میں بے تکلفی کا عنصر دکھائی دیا ہے۔ دوسری طرف محمد بن سلمان، صدر اردوان، ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ایرانی صدر کے ساتھ بھی عمران خاں کے بہت خوشگوار تعلقات قائم ہوئے ہیں اور یہ سب صرف حکومت ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بھی ہے۔ تو پھر کیا یہ ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عالمی سطح پر کامیابیاں حاصل کرنے والے ایک ایسے شخص کو ہٹا کر کسی دوسرے شخص کو آزمائے جو عالمی سطح پر تعلقات کی استواری کے باب میں نئے سرے سے قلم آزمائی کرے؟

3۔ عمران خان کو نکالنے کا ایک اور موضوع ہو سکتا ہے۔ معیشت کا میدان۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مہنگائی، معاشی ابتری اور کاروباری طبقے کی ناراضی کو بنیاد بنا کر عمران خان کو رخصت کیا جا سکتا ہے۔ یہ دلیل دینے والے کیا جانتے نہیں کہ عمران خان نے جو بھی معاشی فیصلے کئے۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ وزیر خزانہ کہاں سے آئے؟ ٹیکس نظام میں تبدیلی کے مشورے کس نے دیے؟ کراچی کی کاروباری شخصیات سے عمران خان کے علاوہ کون ملاقاتیں کر کے اکنامک ریفارمز پر راضی کرتا رہا؟ تو کیا اب یہ ممکن ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اپنا دامن صاف بچا لے اور عمران خان اچھے بچوں کی طرح خاموشی سے تمام ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے کر الگ ہو جائیں گے؟

4۔ متبادل کیا ہے؟ چلیں مان لیں کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے ناراض ہو گئی اسے ہٹا کر کسی دوسرے کو لانا چاہتی ہے مگر کسے؟ نواز شریف کو؟ جسے پانامہ لیکس کے بعد سکیورٹی رسک قرار دے کر نکال باہر کیا گیا۔ کیا اس نواز شریف کو لایا جائے گا جس کے خلاف پانامہ کا پورا بیانیہ تیار کیا گیا اور اب وہ عدالتوں کے مجرم ہیں۔ یا پھر پیپلز پارٹی کو لایا جائے گا جس کے خلاف جعلی اکائونٹس کیس میں پچیس طرح کے والیم تیار پڑے ہیں۔ کون ہے عمران خان کا متبادل جو جادو کی چھڑی سے اسٹیبلشمنٹ کے لئے نیک نامی کا باعث بن سکے۔

5۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے خلاف ہو چکی اور اس حد تک کہ اسے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ایسے میں تو اپوزیشن کو سڑکوں پر ہونا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی چاہیے تھی۔ ان کے جلسوں میں غیبی طاقتوں کی برکت صاف نظر آنی چاہیے تھی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اپوزیشن تتر بتر ہے اپوزیشن کے کچھ لیڈرز ملک سے باہرچھپے بیٹھے ہیں کچھ ملک کے اندر خاموش۔

6۔ اداروں کے پیش نظر یہ نکتہ ضرور ہو گا کہ اگر اس بار عمران خان کو بھی نکال دیا گیا جیسے نواز شریف کے بقول انہیں نکال دیا گیا تھا تو سوچیے کہ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بن کر اداروں کے سامنے کھڑے نہیں ہو جائیں گے؟ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے۔ تو اگر عمران خان بھی نواز شریف اور آصف زرداری کی طرح اداروں کے خلاف کھڑے ہو گئے تو ادارے اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے۔ اس کے لئے بھی یہ آسان نہیں۔

7۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک نئے انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ نئے انتخابات کرانا جہاں ایک طرف اربوں روپے کی ایک بہت مہنگی ایکٹی ویٹی ہے۔ وہیں تمام ادارے اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر اس انتخابی عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں، یہاں تک پورے ملک میں فوج کو بھی استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ ایسے میں کیا یہ ممکن ہے کہ فوج جہاں بے شمار اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہے وہاں وہ سب چھوڑ کر نئے انتخابات کے لئے فوج مہیا کر دے۔

8۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کر کے قومی حکومت بنا دی جائے گی۔ قومی حکومت کیا ہوتی ہے۔ بھان متی کا کنبہ؟ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور مدد کے ساتھ جب معیشت، مہنگائی اور بے روزگار جیسے سنجیدہ مسائل سے نہیں نمٹ پا رہے تو بھان متی کا کنبہ نمٹ لے گا؟ کیا تب یہ اسٹیبلشمنٹ حفیظ شیخ سے کوئی بہتر وزیر خزانہ ڈھونڈ لائے گی۔ جو اب نہیں لا سکی؟ کیا تب مہنگائی کے خاتمے کا وہ فارمولا بے نقاب کر دیا جائے گا جو اسٹیبلشمنٹ نے ابھی گہرے رنگ کے غلافوں میں چھپا رکھا ہے؟

9۔ چلیے مان لیجیے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے بیچ اختلاف موجود ہے مگر کس بات پر؟ زیادہ سے زیادہ نواز شریف اور مریم کے معاملے پر؟ اس سے زیادہ اختلاف تو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ بیشتر فوجی افسر بین الاقومی معاملات میں ایک پیج پر رہے ہیں۔ اگر یہ اختلاف مریم نواز کے باہر جانے کے معاملے پر ہے تو کیا یہ سنجیدہ نوعیت کے تمام قومی مسائل سے زیادہ اہم ایشو ہے۔ کیا مریم نواز کی واپسی اتنا اہم مسئلہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو اس بنیاد پر گھر ہی بھیج دیا جائے؟ اور اگر مان لیا جائے کہ ایسا ہے بھی اور عمران خان کو گھر بھیجنے کی تیار ہو رہی ہیں۔ تو آثار کیوں نظر نہیں آ رہے؟ اپوزیشن بالخصوص ن لیگ سڑکوں پر کیوں نہیں ہے؟ شہباز شریف کسی خوف سے باہر بیٹھے ہیں؟ فضل الرحمن کا دھرنا کیوں ناکام ہو گیا۔

10۔ اب رہی مائنس ون کی بات تو سمجھ لیجیے تحریک انصاف عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ کارکن عمران خان کے دیوانے ہیں جو مشکل حالات کے باوجود اپنی امیدیں عمران خان سے باندھے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ عمران خان کو ہٹا کر پیپلز پارٹی سے لایا ہوا ایک اور شخص تخت پر بٹھا دیا جائے گا، اسے عوامی حمایت مل جائے گی اور عمران خان بھی اس کی حمایت کا اعلان کر دیں گے یا گھر جا کر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگیں گے تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

میرا خیال ہے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے معروضی حالات کو دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایک ہی آپشن ہے عمران خان کو جمہوری مدت پوری کرنے دی جائے اور انہیں مسائل کے حل کے لئے مکمل تعاون فراہم کیا جائے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran