Thursday, 28 November 2024
  1. Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Kya Gali Hi Sika e Raij Ulwaqt Hai?

Kya Gali Hi Sika e Raij Ulwaqt Hai?

دلیل کاوجود ختم ہو چکا۔ منطق نام کی چیز پہلے زمانوں میں دفن ہو چکی، پرانی لغات میں موجود تمام الفاظ بے اثر ہو گئے۔ یہ نیا دور ہے، اختلاف رائے کے اظہار کے لیے اب گالی کا استعمال رواج پا چکا ہے۔ کسی کے مضمون سے اختلاف ہے، نظریے سے، نقطۂ نظر سے یا محض ایک ٹویٹ سے۔ مضمون کے جواب میں مضمون لکھ کر اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی، نہ کسی کے نقطۂ نظر کے جواب میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے تردد کی ضرورت ہے۔ جواب میں محض ایک گالی لکھ بھیجئے، جس کا آسان زبان میں مطلب یہی ہو گا کہ آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ کسی مہذب گالی سے اب کام نہیں چلے گا، ذلیل، کمینہ اور گھٹیا جیسے الفاظ اب گالی نہیں رہے، گندی گالیوں کے استعمال کی کثرت کے باعث یہ الفاظ اپنی حیثیت کھو چکے، گالیوں کے بازار میں کھوٹا سکہ ہو گئے، یہاں تک کہ میں انہیں کالم میں بھی لکھ سکتا ہوں، کوئی برا نہیں مانے گا۔ اختلاف رائے کے اظہار کے لیے اگر آپ ان بوسیدہ اور مہذب گالیوں کا استعمال کریں گے تو ہدف کو نشانہ بنانے سے قاصر رہیں گے، دشمن کا قلعہ فتح نہیں کر پائیں گے۔ گندی اور ننگی گالیاں اب آپ کا واحد ہتھیار ہیں۔ اور اب اسی ہتھیار کے استعمال کا رواج عام ہے۔

نوجوان نسل اس ہتھیار کے استعمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سوشل میڈیا کے کمینٹس سیکشن میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔ کسی کی ماں کی عزت محفوظ ہے نہ کسی کی بہن کی آبرو۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے لیے علم، فہم، فراست، مطالعہ اور قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے جو نئی نسل میں ناپید ہے۔ کیا صرف نوجوان ہی ایک دوسرے پر گالیوں کی بوچھاڑ کے عادی ہیں؟ جی نہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ بڑوں نے شروع کیاہے۔ جب ٹی وی پر ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، کرپٹ اور بے شرم کہنا معمول بن گیا اور ان الفاظ نے اپنا اثر کھو دیا تو اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چونکہ ہمارے سیاستدان اس سے زیادہ خود نہیں کہہ سکتے تھے اس لیے سوشل میڈیا سیل وجود میں آئے۔ گالیاں دینے کا کام فیک اکائونٹس کی مدد سے کیا جانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے فیک اکائونٹس کا کاروبار انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا۔ سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات نے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا لیے۔ اب ضرورت کے تحت روزانہ نت نئی گالیوں پر مشتمل ٹویٹر ٹرینڈز وجود میں آتے ہیں۔ آپ چاہیں تو فرمائش کرکے کوئی بھی ٹرینڈ بنوا سکتے ہیں۔

پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کی ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ٹھن گئی۔ سعید غنی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس چینل کے لیے "لعنت " کا لفظ استعمال کیا اور اپنے کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ بھی اسی لفظ کا استعمال کرتے ہوئے ٹویٹ کریں۔ نتیجے میں گالیوں کا ایک سلسلہ دونوں طرف سے شروع ہو گیا جس کی قیادت سینئر سیاستدان اور دوسری طرف سے انتظامیہ کے سینئر افسران کرتے رہے۔ یہ جنگ تین دن تک جاری رہی۔ جیتا کون، وہ جو دوسرے کو زیادہ بے عزت کر پایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا گالی ہی ابلاغ کا سب سے موثر ہتھیار بن گیا ہے؟ کیا گالی ہی سکہ ٔ رائج الوقت ہے؟

گذشتہ روز ایک بڑی پارٹی کے چیئرمین پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ یہ پریس کانفرنس ایک چینل کے فیس بک پیج سے لائیو دکھائی جا رہی تھی۔ پریس کانفرنس کے ساتھ ساتھ کمینٹس سیکشن میں لوگوں کی جانب سے رائے دینے کا سلسلہ جاری تھا۔ کسی بھی سیاستدان کے ساتھ بہت سے لوگ اتفاق کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور اختلاف کرنے والے بھی۔ لیکن نوجوانوں کی کثیر تعداد ان کے لیے جو الفاظ استعمال کر رہی تھی انہیں دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ اختصار کا مطلب یہ ہے کہ دو الفاظ پر مشتمل گالی دے کر اپنی رائے کا اظہار کر دیا جائے؟ کیا ایساکرنے سے نوجوانوں کو تسکین ملتی ہے؟ کیا ایسا کرنے سے ہمارا کتھارسس ہو جاتا ہے؟ کیا ایسا کرنے سے کسی کو سیاسی فائدہ اور دوسرے کو سیاسی نقصان ہوتا ہے؟ کیا یہ سیاست کے کھیل کا حصہ ہے؟ کیا اب یہ ہماری سیاسی روایات ہیں؟ یہ کیسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ عدم برداشت کا یہ سلسلہ کہیں رکنے والا نہیں۔ جب دوسرے کی بات برداشت نہیں ہوتی تو اسے پہلے گالی دی جاتی ہے، پھر وہ وقت آتاہے جب گالی بھی بے اثر ہو جاتی ہے تو ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور گاہے بندوق۔ عدم برداشت کے اس معاشرے میں اختلاف رائے کے باعث لوگوں کو گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ کبھی ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا جاتا ہے، کبھی لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے۔ کوئی چیختا رہتا ہے کہ ایک پارٹی کی کرپشن بے نقاب کرنے پر اس کی جان کو خطرہ ہے، اسے گالیاں اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ گالیاں تسکین کا باعث بننے میں ناکام ہو تی ہیں تو مائیک کی تار گلے میں لپیٹ کر جان سے مار دیا جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاشرہ پر تشدد رویوں کو اپنا چکا ہے۔ اساتذہ، سیاستدان، یونیورسٹیاں اور پارلیمنٹ دلیل کی اقدار کو رواج دینے اور عدم تشدد کے ماحول کو فروغ دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے ہم نے انجانے میں ایک پوری کی پوری بگڑی نسل تیار کر لی ہے۔ سوچیے یہ بگڑی نسل جب آنے والوں کی تربیت کرے گی تو کیا ہو گا۔

خدارا ہوش کے ناخن لیجئے۔ گالی کا برا مانئے، گالی کو برا تصور کیجئے۔ گندی گالی کا جواب مزید گندی گالی سے دے کر دل کو مطمئن مت کیجئے۔ نصاب میں تبدیلی لائیے، دلیل اور منطق کا مضمون نصاب میں شامل کیجئے۔ برداشت اور عدم تشدد کو بطور مضمون پڑھائیے۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھال کر چھوٹے چھوٹے سیاسی فائدے لینے کے بجائے اپنے سوشل میڈیا سیلز کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگائیے۔

خدارا معاشرے کو تباہ ہونے سے بچا لیجئے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran