Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. 1857 Apne Nama e Amaal Ki Siyahi

1857 Apne Nama e Amaal Ki Siyahi

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جو ہوا وہ ایک تکلیف دہ باب ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ وہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کیا وہ صرف اغیار کی سازشیں تھیں یا وہ ہمارے اپنے نامہ اعمال کی کالک تھی؟ کہاں وہ وقت کہ ہندوستان کے بادشاہ برطانیہ کو اہمیت ہی نہیں دیتے تھے اور ان کے خیال میں یہ محض ایک معمولی سا جزیرہ تھا اور کہاں وہ وقت کہ شہنشاہ ہندوستان ایک تیسرے درجے کے انگریز افسر کے گیراج میں قید تھا۔ ایک صبح درخواست کی کہ مجھے ایک قلم دوات دے دی جائے تا کہ میں کچھ شعر لکھ سکوں اور یہ درخواست رد کر دی گئی۔ بیمار شہنشاہ کے لیے البتہ ایک انگیٹھی روز گیراج میں بھیجی جاتی اور شہنشاہ ہندوستان اس انگیٹھی کے کوئلوں سے دیوار فرش اور دیوار پر شعر لکھ کر شوق پورا کرتا۔ ہمیں تاریخ ڈھنگ سے پڑھائی نہیں جاتی۔ قائد اعظم کے چودہ نکات ہمارے لیے محض رٹا لگانے کی چیزہیں اور سلطنت مغلیہ کے زوال کے اسباب میں ہم نے نصاب میں ایک پوری نسل کو دھوکہ دیا ہے۔ ورنہ زوال کے یہ اسباب یوں پڑھائے جا سکتے تھے کہ نسلیں اس آنچ سے سلگتی رہتیں۔

مغلوں کی سلطنت کا برطانیہ سے کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ مغل بادشاہ سلطنت عثمانیہ وغیرہ کو تو اپنے برابر کی حیثیت کا سمجھتے تھے لیکن بر طانیہ ان کے نزدیک دوسرے درجے کا ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک تھا۔ ہم نے تعزیر کے کوڑے کے لیے بوڑھے بہادر شاہ ظفر کی کمر چن رکھی ہے کیونکہ معاملہ کوئی بھی ہو سنجیدہ مطالعہ کا سوچ کر بھی ہم ہانپ جاتے ہیں اور چند لمحوں میں ہم نے نتیجے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ قربانی کا ایک عدد بکرا تلاش کر لیا جائے۔ بہادر شاہ ظفر بھی ایسا ہی ایک قربانی کا بکرا ہے۔

اس بوڑھے کو جب اقتدار ملا تو اس کی عمر 63 سال تھی۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب مغل سلطنت محض شاہجہان آباد تک محدود ہو چکی تھی۔ یعنی دلی کے چند محلوں تک۔ ایسا بادشاہ کیا کر سکتا تھا؟ 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت سلطان کی عمر 82 سال تھی۔ اس عمر میں شعر ہی کہے جا سکتے ہیں۔

تباہی کا آغاز تو اس دور سے ہوا جو مغلوں کا دور عروج تھا۔ جہانگیر کے دور کی بات ہے، ایک انگریز اس کے دربار میں حاضر ہوا اور اسے چشمہ پیش کیا۔ شہنشاہ ہندوستان کو معلوم ہی نہ تھا اسے پہنتے کیسے ہیں۔ جب اسے بتایا گیا اور اس نے چشمہ پہنا تو بہت خوش ہوا کیونکہ اس کو کئی سالوں بعد پہلی بار چیزیں صحیح نظر آنا شروع ہو گئیں۔ یعنی بادشاہ سلامت کی نظر کمزور تھی۔ بادشاہ نے خوشی کے عالم میں وہی سوال پوچھا:مانگو کیا مانگتے ہو۔ اور انگریز نے تجارتی مراعات حاصل کر کے دربار سے رخصت لے لی۔

آپ غور فرمائیے بادشاہ سلامت کو یہ خیال نہ آیا کہ اس کی طرح اس کی رعایا کے کتنے ہی لوگوں کی نظر بھی کمزور ہو گی۔ ویژن ہوتا تو ایک بادشاہ کے طور پر اس کی پہلی ترجیح یہ ہوتی کہ یہ چشمے اس کے ملک ہندوستان میں بھی بنائے جائیں۔ وہ یہ بھی کہ سکتا تھا کہ یہ چشمے ہندوستان میں تیار کیے جائیں اور میں آپ کو مراعات دیتا ہوں۔ لیکن ظل الہی نے صرف اپنے اور درباریوں کے لیے چشمے لیے اور مراعات مفت میں دے دیں۔

مغل بادشاہ فرخ سیر کی بیٹی بیمار ہو گئی۔ شاہی طبیبوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ اتفاق سے انگریزوں کے کاروباری قافلے میں ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ اس کے علاج سے وہ صحت یاب ہو گئی۔ وہی سوال ہوا:مانگو کیا مانگتے ہو۔ انگریز نے عرض کی حضور جنوبی ہندوستان میں ہمارے محصولات معاف کر دیجیے۔ شاہ معظم نے محصولات معاف کر دیے۔ صرف ایک فیصلے سے جنوبی ہندوستان کی مقامی معیشت کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی محصولات معاف کروا کے دھیرے دھیرے کاروباری اجارہ داری کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ احساس ہوتاتو بادشاہ سلامت کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے تھی کہ جس مرض میں اس کی بیٹی مبتلا ہو گئی اس مرض کا علاج ہندوستان میں عام کیا جائے۔ محصولات کی معافی کے عوض وہ انگریز وں سے مقامی سطح پر اس علاج کی بات بھی کر سکتا تھا۔ فرق کیا تھا؟ فرق یہ تھا کہ انگریز جدید سائنسی علوم میں ترقی کر رہے تھے اور مغل شہنشاہ لونڈیوں اور کبوتروں سے کھیل رہے تھے۔

جس وقت سویڈن میں پہلا مڈ وائفری سکول بن رہا تھا اس وقت شہنشاہ ہندوستان کی چہیتی ملکہ بادشاہ سلامت کے 14 ویں بچے کو جنم دیتے ہوئے خون بہنے کی مر گئی۔ بادشاہ کو یہ خیال نہ آیا کہ لوگوں کو اس معاملے میں بہتر سہولیات کے لیے شفا خانے بنا کر دے تا کہ آئندہ کوئی احمق ایک خاتون سے چودہ بچے پیدا کرنا چاہے تو اس بے چاری کی جان تو بچائی جا سکے۔ شہنشاہ معظم نے تاج محل کھڑا دیا۔ ذلت اور جہالت کی اس علامت کو ہم محبت کی یادگار کہتے ہیں۔ یہ محبت کی نہیں جہالت اور بے ہودگی کی یاد گار ہے۔

انگریز نے تو پھر یہ کیا کہ بچ رہنے والے شہزادوں اور شہزادیوں کے لیے ماہانہ کچھ رقم مختص کر دی. چنانچہ جق شہزادہ دلی میں بھیک مانگتا تھا خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ اسے بھی ماہانہ ہانچ روپے وظیفہ ملتا ہے جو وہ نشے میں اڑا دیتا اور پھر بھیک مانگتا، شاہی خاندان کا ہر شہزادی اور شہزادہ یہ وظیفہ لیتے رہے. ساری باتیں اپنی جگہ لیکن جب مغلوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہاں کے شاہی خاندانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟

دوسروں کو توچھوڑیے، انہوں نے خود اپنے خاندانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا. حضرت اورنگزیب عالمگیر صاحب جو مبینہ طور پر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے تھے اور عرق گلاب سے لونڈیاں جنہیں نہلاتی تھیں وہ اتنے پارسا تھے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے نہ انہوں نے کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی چھوڑا۔ یہ تباہی اور بربادی اصل میں اپنا ہی نامہ اعمال ہوتا ہے۔ کوئی چاہے تواس سے عبرت پکڑے اور چاہے تو غیروں کی سازشوں کی غزل پڑھتا رہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran