جس طرح چڑیا گھر میں چرند پرند قبیلے کے تمام خواتین و حضرات موجود ہوتے ہیں لیکن چڑیا نظر نہیں آتی، اسی طرح اسلام آباد لوک ورثہ میوزیم میں تہذیب و ثقافت کے سارے رنگ موجود ہیں لیکن اسلام آباد کی گم گشتہ تہذیب و ثقافت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ شہر اقتدار میں اس بات پر گویا اتفاق ہو چکا ہے کہ اسلام آباد سے پہلے یہاں کچھ نہیں تھا اور اسلام آباد کی تاریخ اس دوپہر سے شروع ہوتی ہے جب شکر پڑیاں نامی گائوں میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا۔
مارگلہ کی تہذیب مگر بہت پرانی ہے۔ آج ہم صرف ڈیڑھ دو سو سال پیچھے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں اس زمانے میں " اسلام آباد" کیسا تھا اور انگریز سرکار اور برطانوی مصنفین نے اس کی منظر کشی کیسے کی تھی۔ مارگلہ کی یہ وادی جو آج اسلام آباد کہلاتی ہے اس وقت راولپنڈی کا حصہ تھی۔ دو سو سال قبل ان پہاڑوں میں چیتے اور شیر ہوتے تھے۔ راولپنڈی کے انگریز ڈپٹی کمشنر ایچ بی بیکٹ کے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ 1830 تک مارگلہ میں شیروں کے ہاتھوں مویشی مارے جاتے رہے۔ پھر شیر معدوم ہوتے گئے اور جہلم اور مری کے پہاڑی سلسلے کی طرف نکل گئے لیکن چیتے اب بھی کافی تعداد میں ہیں۔ فریڈ رابرٹسن نے 1884 میں لکھا کہ مارگلہ پر رہنے والے لوگ اپنی حفاظت کے لیے " کڑکا" لگا کر رکھتے ہیں اور ان میں کبھی کبھار اب چیتے ہی پھنستے ہیں۔ شیر اب یہاں نہیں رہے۔
راولپنڈی سے مری روڈ پر اسلام آباد آئیں تو راول چوک سے پہلے ایک قبرستان ہے۔ یہ راول گائوں کا قبرستان ہے۔ 1863میں راولپنڈی کو پانی کی فراہمی کے لیے یہ تجویز پیش کی گئی کہ راول گائوں میں جس جگہ ہر کورنگ کی ندی کا پاٹ چوڑا ہوتا ہے وہاں پانی ذخیرہ کیا جائے اور راولپنڈی کو یہاں سے پانی پہنچایا جائے۔ یہ منصوبہ کب اور کس شکل میں مکمل ہوا معلوم نہیں البتہ 1893 کے گزیٹیر میں لکھا ہے کہ راولپنڈی کینٹ کو اور شہر کو پانی کی سپلائی اسی گائوں سے ہو رہی ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ اب عین اسی جگہ پر راول ڈیم بنا ہوا ہے۔ شاید یہ راول ڈیم اس پرانے منصوبے کی توسیعی اور جدید شکل ہو۔ اس زمانے میں راولپنڈی سے بارا مولا (مقبوضہ کشمیر) تک تانگے چلتے تھے۔ راستے میں سرائے کی سہولت ہوتی تھی، جہاں قافلے رک کر آرام کرتے تھے۔ اسلام آباد کے علاقے میں پانچ سرائے ہوا کرتی تھیں۔ راول گائوں میں البتہ ایک مسئلہ ہو جاتا تھا۔ جب کبھی بارش برستی تھی تو کورنگ ندی میں طغیانی آ جاتی تھی۔ کرنل کریکرافٹ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ کئی کئی گھنٹے راستہ بند رہتا تھا۔ کچھ عرصہ بارشیں نہ ہوں اور راول ڈیم میں پانی کی سطح گر جائے تو یہ قدیمی سڑک اب بھی نمایاں ہو جاتی ہے اور دیکھی جا سکتی ہے۔
چند سال قبل مارگلہ پر برف پڑی تو یہ منظر حیرت اور مسرت کے ساتھ دیکھا گیا لیکن 1883 تک مارگلہ ہی نہیں راولپنڈی کینٹ میں بھی برف پڑتی تھی اور وہاں جو قدیم عمارتون کی چھت اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ برف سے محفوظ رکھے تو یہ محض فیشن نہیں ضرورت تھی۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر بہت بعد تک برف پڑتی رہی۔ کرنل ولیم کے ایک مراسلے سے معلوم ہوتا ہے کہ مارگلہ پر 1904 کے جاڑے میں بھی برف پڑی تھی اور سید پور گائوں کے نواح میں چیتوں نے کچھ مویشی کھا لیے تھے۔
اسلام آباد کسی ویران گوشے میں آباد نہیں ہوا۔ صدیوں پہلے بھی اس کی ایک تہذیب و شناخت تھی۔ راولپنڈی تحصیل میں 1880میں 16 سکول تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان میں سے 7 سکول ان علاقوں میں تھے جو اب اسلام آباد کی حدود میں آتے ہیں۔ یہ سکول شاہ اللہ دتہ، سید پور، کری کرپا، گولڑہ اور نور پور شاہاں میں تھے۔ اسلام آباد کی حدود میں 1880میں چھ ڈاکخانے قائم تھے۔
اسلام آباد میں مختلف مذاہب کے لوگ اکٹھے رہتے تھے۔ مسلمان، ہندو اور سکھ یہاں باقاعدہ آباد تھے۔ بدھ مت کے زائرین بھی مارگلہ کے جنگل میں آتے تھے۔ بیساکھ کے موسم میں (اپریل مئی میں)سید پور میں ہندوئوں کا ایک میلہ لگتا تھا اور رام کنڈ نام سے یہاں ایک مندر ہوتا تھا۔ ہندوئوں کے خیال میں وشنو کے ساتویں اوتارراجہ راما چندرا نے جلاوطنی کے سال اس گائوں میں گزارے اور انہی کی یاد میں یہ مندر قائم کیا گیا۔ گائوں میں تازہ پانی کے چار چشمے تھے، جن کے نام رام کنڈ، لچھمن کنڈ، سیتا کنڈ اور ہنومان کنڈ تھے۔
مارگلہ کے پہاڑوں کے چشموں اور برسات کے پانی سے بارہ ندیاں رواں تھیں۔ صاٖ ف پانی کی ایک ندی کو " لیہہ" کہتے تھے اور ریہ ندی راولپنڈی کے حسن میں بھی اضافہ کرتی تھی۔۔ 1893 تک تو ڈپٹی کمشنر بیکٹ " لیہہ"نام کی اس ندی کے حسن کا پرستار تھا۔ اب یہ ندی نہیں رہی ایک نالہ بن چکی ہے جس کا نیا نام " نالہ لئی " ہے اور جو غلاظت سے بھرا رہتا ہے۔ بات چل ہی نکلی ہے تو بتا دوں کہ 1894 کے گزیٹیر میں راولپنڈی کو شمالی ہندوستان کاستھرا ترین شہر قرار دیا گیا تھا۔
بارش نہ ہونے پر مارگلہ کے دیہاتوں میں کیا کیا جاتا تھا، یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ کسی ایک بچے کا منہ کالا کر کے ایک چھڑی تھما دی جاتی تھی۔ وہ بچے گائوں کے دیگر بچوں کو اکٹھا کر لیتا اور سب بآواز بلند پکارتے پھرتے: اولیاء مولیا مینہ برسا"۔ ہندوئوں میں یہ رواج تھا کہ گھڑے میں گائے کا گوبر، کیچڑ اور پانی بھر کر کسی جھگڑالو مرد یا عورت کے گھر میں وہ گھڑا توڑ دیا جاتا تھا۔ مسلمان مساجد میں عبادات کرتے اور صدقات دیتے۔
فریڈ رابرٹسن نے لکھا ہے کہ گھروں کے ویہڑے ہوتے تھے، سانڑک میں آٹا گوندھ اجاتا تھا، کٹورے میں پانی پیا جاتا تھا، عورتوں کے بیٹھنے کے لیے پیڑھی ہوتی تھی اور گندم کلہوٹے میں رکھی جاتی تھی۔ توے پر روٹی پکائی جاتی تھے اور چھنگیر میں رکھ کر کھائی جاتی تھی(رابرٹسن نے تنور کا ذکر نہیں کیا، تنور شاید یہاں نہ ہوتا ہو)۔
کہانی ابھی باقی ہے مگر کالم تمام ہو چکا۔ وقت کی کہانی شاید ہمیشہ ادھوری ہی رہتی ہے۔ منور رانا نے کہا تھا:
تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی
چلو پھر آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں