نو مئی کو جو کچھ ہوا، اس کے سیاسی اور قانونی مضمرات پر تو بہت بات ہو چکی لیکن اس کے سماجی پہلو کو ابھی تک کسی نے موضوع نہیں بنایا حالانکہ اس معاملے کا یہ ایک اہم ترین اور سنگین ترین نکتہ ہے۔
عمران خان کی گرفتاری پر جو رد عمل آیا اور اس سب کے بعد جس طرح کہا گیا کہ " مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر ایسا ہی رد عمل ہوگا"، اس سے حکمت عملی بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔ تاہم فی الوقت وہ اس کالم کا موضوع نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق سیاست اور قانون سے ہے۔ جب کہ آج کا موضوع سماج ہے۔
سماجی مطالعے کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس سارے عمل میں تحریک انصاف کی قیادت کے اپنے بچے بھی نکلے یا اس آگ کا ایندھن صرف دوسروں کے بچوں کوبنایا گیا؟ یہ جدوجہد اگر حقیقی آزادی کی جدوجہد تھی تو جناب عمران خان کے اپنے بچوں کو بھی سڑکوں پر ہونا چاہیے تھا۔ وہ کیوں نہیں آئے؟
عمران خان کے بچے تشریف نہیں لا سکتے تھے تو کیا کسی سڑک چوراہے پر شاہ محمود قریشی صاحب کے بچے بھی نکل کر اسی طرح گھیرائو جلائو کرتے پائے گئے؟ ان کے صاحبزادے اور صاحبزادی کی باہمی نشستوں کی تقسیم کے لیے اس غریب قوم کو غیر ضروری الیکشن سے گزارا گیا۔ صاحبزادہ صاحب قومی اسمبلی کے رکن تھے استعفی دے کر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے آ گئے ا ور خالی نشست پر صاحبزادی کو امیدواربنا دیا گیا۔ سیاست کی مراعات اور مال غنیمت کی تقسیم میں اتنا حساب کتاب رکھنے والے اس خانوادے کا کون سا بچہ تھا جو نو مئی کو گھر سے نکلا؟ اس گھرانے کاوہ کون سا نوجوان تھا جو زمان پارک کی سڑکوں پر راتوں کو کھڑا ہو؟
ڈاکٹر یاسمین راشد، جو اپنی ذات میں ایک چلتا پھرتا پوسٹ ٹروتھ، ہیں، اپنے گھر کے کتنے بچوں کو 9مئی کو سڑک پر لے آئیں؟ اسد عمر صاحب ٹویٹ کیا کرتے تھے کہ یہ دیکھیے میرے بچے نے مجھے واٹس ایپ کیا ہے کہ بابا یہ نئے پاکستان کی جنگ ہے ڈرنا نہیں ڈٹ جانا ہے، اور یہ ٹویٹ کرکے وہ نوجوانوں سے اپیل کرتے تھے کہ نکلو کپتان کی خاطر، اور نکلو پاکستان کی خاطر۔ سوال یہ کہ اسد عمر کے یہ صاحب زادے 9مئی کو بھی واٹس ایپ پر ہی داد شجاعت دیتے رہے یا کسی روز یہ خود بھی سڑک پر نکلے؟
شفقت محمود صاحب بھی تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما ہیں۔ انقلاب کا لفظ ان کے لب احمر سے ادا ہوتا ہے تو قوس قزح بن جاتا ہے۔ کیا 9مئی کویہ بھی اپنی صاحبزادی کے ساتھ کسی جلوس میں نکلے؟ کیا ان کے گھرانے کا کوئی نونہال بھی شدت جذبات سے بے حال ہوا کہ نکلو کپتان کی خاطر کہ کپتان ہماری ریڈ لائن ہے؟
شیخ رشید صاحب، ڈی چوک کے سازگار موسموں میں رجز پڑھتے تھے کہ سارے ملک میں آ لگا دوں گا"۔ کیا ایک روز بھی ایسا ہوا کہ انہوں نے اپنے بھتیجے، بھتیجی، بھانجے یا بھانجی سے کہا ہو کہ جائو سڑک پر کھڑے ہو جائو اور پورے ملک میں آگ لگا دو؟
یہ نمونے کے چند سوالات ہیں، آپ اپنے اپنے مقامی حالات کے مطابق ان میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ان سوالات کا تعلق کسی ایک جماعت سے نہیں، ہر جماعت کا یہی حال ہے۔ نواز شریف کے قافلے تلے بچہ کچلا جائے تو کیپٹن صفدر اسے جمہوریت کا شہید قرار دیتے ہیں۔ کوئی پلٹ کر یہ نہیں پوچھتا کہ یہ شہادتیں غریب کے بچوں کے نصیب میں ہی کیوں؟
بھٹو کے لیے کوئی کارکن خود کشی کر لے تو آج تک جمہوری اشرافیہ فخر سے بتاتی ہے کہ بھٹو کے لیے تو لوگوں نے خود کشی کی تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پر میں نے پلٹ کر یوسف رضا گیلانی سے پوچھا تھا: آپ نے خود کشی کیوں نہ کی اور آپ ضیاء کی مجلس شوری میں کیوں شامل ہو گئے؟ یہ خود کشی غریب ہی کیوں کرتا ہے۔ کوئی مخدوم، کوئی وڈیرہ، کوئی نواب کیوں نہیں کرتا؟ خود بھٹو خاندان کے رئوسا میں سے کتنوں نے خود سوزی کی؟ بھٹو کی کابینہ میں سے کتنوں نے خود پر پٹرول چھڑکا تھا؟
عوام کے بچوں کو احتجاجی سیاست نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ غربت کے ستائے لوگوں کو بھوک کی طرح خواب ستاتے ہیں۔ یہ ان کی تعبیرمیں کسی بھی طالع آزما کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ قیادت کے بچے امریکہ اور برطانیہ میں پڑھتے ہیں اور یہاں ہمارے بچوں کے کبھی پرچے منسوخ ہو جاتے ہیں اور کبھی سکول سے چھٹی کے بعد وہ دس دس گھنٹے سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں کیونکہ یہاں ہر جعل ساز کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ اپنے اندھے مقلدین کے ذریعے سڑکیں بند کرے۔ یہی بلوائی سڑکیں بند کرکے بیٹھے تھے، جس روز میں بچوں کے ساتھ دس گھنٹے سڑک پر ذلیل ہوتا رہا، آج دو روز کی گرفتاری ہوئی ہے تو ان کا انقلاب خطا ہوگیا ہے۔
اس انقلاب کے لیے غریب کے بچے کو ریاست سے ٹکرانے کی ترغیب دے کر باہر نکالا جاتا ہے اور پھر چار دن کی جیل کے بعد نم ناک لہجے میں بتایا جاتا ہے کہ میری بیٹی بہت پریشان رہی اس لیے میں سیاست ہی چھوڑ رہی ہوں۔ احترام کے سارے تقاضے اپنی جگہ لیکن ان سے پلٹ کر یہ کیوں نہ پوچھا جائے کہ آپ کی بیٹیاں ہیں تو کیا باقی ملک کے بچے اور بچیاں نہیں ہیں۔ دوسروں کی اولاد کو تو آپ تصادم پر اکسائیں اور اپنی باری دو آنسوئوں کے بوجھ سے آپ ریٹائر منٹ لے لیں۔ اولادیں کیا صرف آپ کی ہیں، باقیوں کے بچے کیا گوالمنڈی کی ورکشاپ پر تیار ہوتے ہیں؟
اس سماج کو احتجاجی سیاست نے کیا دیا؟ مائیں اپنے بچوں کو رو رہی ہیں، اٹھتی جوانی میں جن کا استحصال ہوا اوراب وہ اندھی سیاست کا ایندھن بن کر جیلوں میں پڑے ہیں۔ سالوں یہاں ایک افراتفری کا عالم رہا۔ آج جلوس آ رہا ہے، آج جلوس جا رہا ہے، آج لانگ مارچ ہو رہا ہے، آج دھرنا ہو رہا ہے۔ آج ملک بند ہو رہا ہے آج سارا ملک بند کر دوں گا۔ آج ایمبولینس کو آگ لگائی جا رہی ہے، آج سکولوں کے بچے راستوں میں پھنسے پڑے ہیں، آج کنٹینر لگا دیے گئے ہیں۔ آج موبائل فون کام نہیں کریں گے۔ ان کی میانہ روی دیکھیے، اس وحشت کو رومان بنا کر عوام کی زندگی اجیرن کرنے والے قائدین اپنی بچیوں کو پریشان دیکھ کر سیاست ہی سے توبہ تائب ہو رہے ہیں۔
انتہا پسندی مذہبی ہو یا سیاسی، سوال یہ ہے کہ اس کے لے ہمارے معاشرے میں خام مال اتنا سستا اور وافر کیوں ہے؟ کیا یہ تربیت کی کمی ہے؟ کیا ہمیں اپنے نصاب پر نظر ثانی کرنی چاہیے؟ کیا ہمارا عصری شعور پست ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ فکری عدم بلوغت کا شکار ہے؟ کیا یہ حالات کا جبر ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو توجہ طلب ہیں۔
یاد رہے کہ یہ اصل میں ہمارے رویوں کی انتہا پسندی ہے جو آگے چل کر دہشت گردی یا قانون شکنی میں بدل جاتی ہے۔