آزاد کشمیر کے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی گہما گہمی میں آپ بھول گئے ہوں تو آپ کو یاد دلا دوں کہ آج پانچ اگست ہے۔ ٹھیک دو سال پہلے آج ہی کے دن بھارت نے بین الاقوامی قانون کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا تھا۔ آزاد کشمیر میں اقتدار کے کھیل کے نتائج تو سامنے آ چکے۔ سوال اب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا کیا کرنا ہے؟
اتفاقات ز مانہ کا انکار نہیں۔ وہ ہوتے ہیں لیکن یہ کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ وہ یوں بھی ہوتے ہیں۔ اتفاقات زمانہ دیکھیے کہ پانچ اگست کو بھارت کے غاصبانہ، ناجائزاور غیر قانونی اقدام کی قومی سطح پر بھر پور مذمت کرنے کی بجائے ہم اس بحث میں مصروف ہیں کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم صاحب کون ہیں اور اس منصب پر کیسے پہنچ گئے۔
جس دن لازم تھا کہ آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان کی سیاست کا مرکزو محور بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی غیر قانونی حرکت ہوتی اور اہتمام کے ساتھ اس کی مذمت کی جاتی اور دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جاتا کہ قوم کشمیر کازکے ساتھ جڑی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کر کے بھارتی غاصبانہ اقدام قبول نہیں کیا جا سکتا، وہ دن ہم نے داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آپ ہی بتائیے کیا اتفاقات زمانہ ایسے بھی ہوتے ہیں؟
مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ پانچ اگست کو بھارت نے اسے اپنا حصہ قرار دے دیا۔ ہم ایک جمعہ المبارک کو چند ساعتیں کھڑے رہنے کے بعد ایسے بیٹھے کہ بیٹھے ہی رہ گئے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ دنیا میں کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ بین الاقوامی برادری ہی نہیں مسلم امہ نے ہمیں ٹھینگا دکھا دیا۔ بجائے اس کے کہ بھارت کی سرکوبی کی جاتی پاکستان کا بازو ایف اے ٹی ایف کے ذریعے مروڑا جاتا رہا اور مروڑا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ہم خود بھی بھارت کی اس واردات کو بھلا بیٹھے؟ دنیا تو اپنے کارپوریٹ مفادات کی وجہ سے منہ موڑ کر کھڑی ہے، ہماری غیرت اجتماعی کو کیا ہوا؟
پانچ اگست کا دن کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن اقوام متحدہ کی قراردادیں پامال ہوئیں، اس دن شملہ معاہدہ روند دیا گیا، اس دن حق خود ارادیت کے آفاقی تصور کو بھارت نے روند ڈالا، اس روز اقوام متحدہ کے سارے قوانین مودی نے جلا کر راکھ کر دیے۔ اس روز ناجائز طور پر مقبوضہ کشمیر کو " انڈین ٹیرٹری آف جموں اینڈ کشمیر " کہا جانے لگا۔ سوال یہ ہے کیا اس دن کو ہم یوم احتجاج کے طور پر بھی نہیں منا سکتے؟ کیا ہم سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ پانچ اگست کو آزاد کشمیر اور پاکستان کے قومی اور سیاسی بیانیے کا مرکزی نکتہ کشمیر اور اس کا حق خود ارادیت ہو اور دنیا سے مطالبہ کیا جائے کہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دلوائے؟ کیا ہم اسے محض اتفاق سمجھیں کہ جو دن ہمیں کشمیر کازکے لیے مختص کرنا چاہیے تھا، ہم نے اسے داخلی سیاست کا عنوان بنا دیا؟ یہ اتفاق ہے یا اہتمام ہے؟
قوموں کی تاریخ میں ماہ و سال کی اہمیت لمحوں سی ہوتی ہے۔ قوموں کی آزادی کی جدوجہد طویل بھی ہو سکتی ہے اور بہت طویل بھی۔ اس میں کامیابی بھی ہو سکتی اور مسائل بھی آ سکتے ہیں۔ یہ نشیب و فراز کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا کسی قوم کا حافظہ اتنا کمزور بھی ہو سکتا ہے کہ محض دو سالوں میں وہ ایک حادثے کو بھول جائے؟ صرف دو سال قبل پانچ اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں قیامت برپا کر دی تھی، لوگوں پر آج بھی سنگینوں کے پہرے ہیں، قیادت جیلوں میں ہے، اور ادھر ہم ہیں ہم نے اس حادثے کو یوں بھلا دیا جیسے کبھی ہوا ہی نہ تھا۔ اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟
ویسے تو ہمیں ہر فورم پر اور ہر موقع پر کشمیر کی بات کرنی چاہیے لیکن یکم اگست سے پانچ اگست تک تو ایسے دن ہیں کہ کشمیر کو ہمارے قومی بیانیے کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔ ہر سطح کی سرگرمی کا محور کشمیر کو ہونا چاہیے۔ آزاد کشمیر میں تقاریب ہوتیں، اسلام آباد میں پروگرامزہوتے، سفیر حضرات کو مدعو کیا جاتا، بین الاقوامی میڈیا کو بلایا جاتا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدام کے دو سال پورے ہونے پر اس موقع پر ایسا احتجاج ہونا چاہیے تھا کہ اس کی حدت دنیا میں نہ سہی جنوبی ایشیا میں تو محسوس کی جاتی۔ ہم داخلی سیاست کو لے کر بیٹھ گئے۔
چنانچہ اب یہ عالم ہے کہ چینلزپر کہیں یہ ذکر ہی نہیں کہ دو سال پہلے کوئی حادثہ ہوا تھا۔ ہر اطراف یہی بحث ہے کہ عبد القیوم نیازی صاحب آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مصائب و آلام کو کہیں تذکرہ نہیں، ایک دوسرے کو داخلی سیاست کے طعنے اور کوسنے دیے جا رہے ہیں۔ جس قومی بیانیے کا ہدف آج کے دن بھارت کو ہونا چاہیے تھا وہ سیاسی کشمکش میں ایک دوسرے کو سینگوں پر لیے کھڑا ہے۔ آج ہر طرف اقوام متحدہ کے ضابطے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو زیر بحث آنا چاہیے تھا لیکن یہاں داخلی سیاست کے گندے کپڑے دھوئے جا رہے ہیں۔ سوال وہی ہے: یہ بے نیازی ہے، اتفاق ہے یا اہتمام؟
خود فراموشی کے اس عالم میں، میرے جیسا بے بس طالب علم، اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے کہ تمام اکابرین کی خدمت میں یہ عرض کرے کہ حضور، عالی جاہ! آج پانچ اگست ہے۔ آج بھارت کے ہاتھوں بین الاقوامی قانون پامال ہوا تھا، شملہ معاہدہ پامال ہوا تھا، اقوام متحدہ کا چارٹر روندا دیا گیا تھا، کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیے بغیر بھارت میں ضم کر لیا گیا تھا، سلامتی کونسل کے طے شدہ اصول روند دیے گئے تھے۔ داخلی سیاست کی زلفیں سلجھائیے اور اسے سولہ سنگھار بھی کیجیے لیکن یہ مت بھولیے کہ آج پانچ اگست ہے۔