سیاسی تلخیوں میں دوستیاں اور رشتے تک برباد کرنے پر تیار یہ زندہ اور پائندہ قوم اس سوال پر غور کیوں نہیں کرتی کہ کہ ایک عام آدمی الیکشن کیوں نہیں لڑ سکتا؟ کیا یہ الیکشنن صرف دولت مند اشرافیہ کا کھیل ہے اور کیا اس کھیل میں عام لوگوں کا کردار صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے حصے کے آقاؤں کی محبت میں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے الجھتے رہیں اور دیہاتوں اور گاؤں میں دشمنیاں پالتے رہیں؟
عوام کو دھوکہ دینے کے لیے قانون سازوں نے انتخابی اخراجات کی بظاہر ایک حد مقرر کر رکھی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر الیکشن ایکٹ کے تحت تین سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے، ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتاہے اور نا اہلی بھی۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 132(2) کے تحت قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران کے لیے اخراجات ایک کروڑ روپے کی جا چکی ہے۔ لیکن قانون سازوں نے یہ واردات اس مہارت سے ڈالی ہے کہ کوئی اس حد کو پامال بھی کر دے تو قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چنانچہ اقوال زریں جیسے قانون محض ایک دکھاوا ہیں اور عملی طور پر الیکشن دولت کا کھیل بن چکا ہے۔
قانون کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ اخراجات امیدوار نے اپنی جیب سے کیے ہوں۔ بلکہ الیکشن ایکٹ کے باب 8 کے آغاز میں ہی یعنی دفعہ 132 میں یہ اصول طے کر دیا گیا ہے کہ یہ اخراجات چاہے امیدوار خود کرے، اس کی جگہ اس کی سیاسی جماعت کرے یا اس کی جگہ کوئی اور شخص کرے، کسی بھی صورت میں یہ اخراجات اس مقررہ حد سے زیادہ نہیں ہونے چاہییں۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے، اسی شق کی ذیلی دفعہ 2 میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ بھلے یہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہوں، تشہیری مہم کے اخراجات ہوں، سٹیشنری اور پوسٹرز وغیرہ کے خرچے ہوں، یا کسی اور چیز کے اخراجات ہوں انہیں ' الیکشن اخراجات ' ہی سمجھا جائے گا۔ اور بھلے کوئی بھی آدمی اس مد میں خرچ کرے، یہی سمجھا جائے گا کہ یہ خرچ امیدوار نے کیا ہے اور اگر یہ مقررہ حد سے تجاوز کر جائے گا تو یہ قانون شکنی سمجھی جائے گی۔
ذیلی دفعہ 4 میں لکھا ہے کہ ہر امیدوار ہر قسم کے خرچ کی ادائیگی کا رسید اور بل وغیرہ کی شکل میں ثبوت جمع رکھنے کا پابند ہوگا۔ صرف اس خرچے کا ثبوت رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو ایک ہزار سے کم ہو۔ ایک ہزار سے زیادہ کی رقم جہاں بھی خرچ ہوگی اس کی رسید کا ثبوت رکھنا لازمی ہوگا۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 133میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کے لیے لازم ہوگا وہ الیکشن اخراجات کے لیے الگ سے ایک بنک اکاؤنٹ کھولے۔ ذیلی دفعہ 2 میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کے تمام اخراجات صرف اور صرف اس اکاؤنٹ سے ادا کیے جائیں۔ ذیلی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے کہ اکاؤنٹ میں صرف اتنی ہی رقم رکھی جا سکتی ہے جتنی رقم کی اس نشست پر الیکشن کے اخراجات کی اجازت ہے۔
بظاہر یہ بڑے "شاندار" قوانین ہیں۔ انہیں پڑھنے والا سوچتا ہے کہ قانون سازوں نے تو الیکشن کو سادہ، سستا اور عام آدمی کی دسترس میں رکھنے کے لیے آخری کوشش کر دی ہے۔ لیکن جب ہم اس قانون کے اطلاق کی طرف بڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ قانون بھی نہ صرف ناقص اور نمائشی ہے بلکہ اس میں ایسے تضادات بھی ہیں جو اسے بے اثر کر دیتے ہیں اور اس کی کوئی افادیت باقی نہیں رہتی۔
یہ قانون اگر الیکش کمیشن نے کسی ضابطے کی شکل میں جاری کیا ہوتا تو یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ شاید یہ کسی ایسے بیوروکریٹ نے وضع کیا ہے جسے زمینی حقائق کا علم ہی نہیں لیکن یہ قانون پاکستان کی پارلیمان نے بنایا ہے اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ رکن پارلیمان وہ بن سکتا ہے جو سمجھ دار ہو، پارسا ہو، نیک ہو، دیانت دار ہو، امین ہو۔ اتنی خوبیوں والی پارلیمان جب یہ قانون بنا رہی تھی تو کیا وہ خود کو اور سماج کو دھوکہ دے رہی تھی یا وہ واقعی اس قانون کو قابل عمل سمجھتی تھی اور اس پر عمل کرنا چاہتی تھی؟
ایک خوش گمانی یہ ہو سکتی ہے کہ یہ معزز اراکین زمینی حقائق اور ان کی ساری قباحتوں سے واقف ہونے کی وجہ سے اس کلچر کو بدل دینا چاہتے ہوں۔ ان کی خواہش ہو کہ انتخابی عمل میں دولت کے کردار کو محدود کرتے ہوئے متوسط طبقے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار کی جائے، اس لیے انہوں نے یہ مثالی قانون سازی کی ہو۔
قانون کے مزید مطالعے سے، مگر یہ خوش فہمی بھی دور ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قانون کے اندر ہی یہ اہتمام موجود ہے کہ قانون کی روح کو پامال کر دیا جائے۔ دانستہ طور پر ایک ایسا نا قابل عمل قانون بنایا گیا اور پھر اس کے اندر ایسے تضادات رکھے گئے کہ بظاہر شاندار قانون سازی سے پارلیمان بھی سرخرو ہو جائے لیکن عملی طور پر معاملات جوں کے توں رہیں اور سیاسی اشرافیہ کی باہمی دل چسپی کے امور بھی متاثر نہ ہوں۔
یہ تضادات بہت نمایاں اور واضح ہیں۔ ایک جانب دفعہ 132 کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ امیدوار یا اس کی پارٹی یا اس کی طرف سے کوئی اور آدمی بھی خرچ کرے گا تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ خرچ اس امیدوار نے کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب اسی شق کی ذیلی دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اور آدمی کچھ خرچے کرتا ہے تو جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے امیدوار کی اجازت سے یہ خرچ کیا ہے تب تک ان کا ذمہ دار امیدوار نہیں ہوگا، نہ ہی ان خرچوں کو امیدوار کے اخراجات سمجھا جائے گا۔
یعنی ایک آدمی بھلے ایک امیدوار کے لیے اخراجات کرے، اس کے جلسے کے انتظامات ہوں، اس کے پوسٹرز بینرز بنوانے ہوں، کھانے پینے کا بندوبست ہو، گاڑیاں فراہم کی ہوں اور کروڑوں لگا دے، قانون کا مزاج برہم نہیں ہوگا۔ قانون صرف اس صورت میں لاگو ہوگا جب یہ ثابت ہو جائے کہ اس آدمی نے یہ اخراجات امیدوار کی اجازت سے کیے تھے۔
غور فرمائیے، یہاں with the permission کے الفاظ ہیں، knowledge کے الفاظ نہیں ہیں۔ یعنی اگر کسی امیدوار کی دو چار لوگوں سے کوئی انڈر سٹینڈنگ ہے اور وہ اس کے نام پر کروڑوں لگا دیتے ہیں کہ یہ جیت گیا تو سارے حساب قومی خزانے سے پورے کرلیں گے تو قانون کو اس واردات سے کوئی غرض نہیں۔ کسی نے قانون کے دروازے پر دستک دی تو قانون پوچھے گا کہ ٹھیک ہے تمہارے پاس یہ ثبوت تو ہے کہ فلاں بندے نے فلاں امیدوار کے لیے دس کروڑ خرچ کر دیے لیکن کیا تمہارے پاس یہ ثبوت بھی ہے کہ اس نے امیدوار کی اجازت سے یہ خرچ کیا تھا۔ نہ یہ اجازت ثابت ہوگی، نہ قانون کا نفاذ ہوگا۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ (جاری ہے)